اٹھایا گیا۔۔ نجیب بھٹو

 جب سے اس ملک کے دن پھرے ہیں آئے دن کوئی نہ کوئی اچانک اٹھایا جاتا ہے اور لاش مل جاتی ہے۔ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے یہ بچپن سے سنتے آئے تھے لیکن یہ کیسی ماں ہے جو آئے دن جوانوں کی لاشیں سڑکوں پر پھینکتی چلی آئی ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ٹارچر سیل بنا رکھے ہیں، اپنے ان بیٹوں کے لیے جن کا خیال تھا کہ انسان کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ لیکن ان بیچاروں کو  کیا خبر کہ ان سے  جینے کا حق بھی چھینا جا سکتا ہے۔ کامریڈ نذیر عباسی شہید کو اٹھا کر کچھ  زیادہ نہیں کیا۔ ان کے ناخن پلاس سے کھینچ کر نکالے۔ لاش پھینک کر چلے گئے۔ اٹھانے والوں نے اٹھانا چاہا تو لاش اٹھ نہیں پائی! وجہ صرف اتنی سی تھی کہ ان پر رحم کرتے ہوئے ان کے جسم کی ایک ایک ہڈی توڑی  گئی تھی۔ کامریڈ کا گناہ عظیم صرف یہ تھا کہ انہوں نے کچھ پمفلٹ چھاپے اور اخبار چھاپنے کی تیاری میں تھے۔ ریاست کو یہ بات اچھی نہیں لگی چنانچہ ہلکی سی سزا دے ڈالی۔ آج تک یہ کیس حل نہیں ہوا کہ آخر اس اخبار سے ریاست کا کون سا ستون ٹوٹنے کا خدشہ تھا۔

ابھی پچھلے دنوں صوبہ پنجاب میں ایک ننھی پری کو اٹھایا گیا۔ اپنی ہوس  کی آگ  ٹھنڈی کر کے    اس کی زندگی کا چراغ بجھا دیا گیا۔ ریاست اس بچی کے مجرموں کو سزا دینے میں اب تک ناکام ٹھہری ! بات یہاں ختم نہیں ہوئی، ایک اور جوان ریاست کے رحم کا شکار ہوا، اس سے پہلے کہ وہ بوڑھا ہوتا، ہسپتال کے اخراجات اس کے اہل خانہ برداشت کرتے، سسک سسک کر مرتا۔ ریاست نے رحم کھاتے ہوئے ایک انکاؤنٹر کا انعقاد کیا اس جوان کو ممکنہ تمام اذیتوں سے بچا لیا، بس بات اتنی سی تھی۔ لیکن معاملہ ابھی تک رکا نہیں، پرسوں ریاست کے کارندوں کو خیال آیا کہ جامشورو میں مقیم ایک سیاسی کارکن رحیم جمالی کو ذرا آرام دہ کمروں کی سیر کرائی جائے۔ صبح سویرے دروازے پر دستک دے کر گھر سے باہر بلایا۔ اور ان کو پروٹوکول دے کر کسی ویگو یا پراڈو کی اگلی نشست پر بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے۔ امید کرتے ہیں کہ رحیم بھائی بخیر و عافیت ہوں گے۔

رحیم بھائی کا گناہ کیا تھا ذرا یہ بھی آپ کو بتاتا چلوں۔ رحیم جمالی کا تعلق ضلع دادو سے ہے۔ کئی سالوں سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ جامشورو میں مقیم ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی عملی سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ ابھی اس سال ہی یونیورسٹی سے اپنی گریجوایشن مکمل کی۔ وہ ہمارے سینئر ہیں۔ پیار سے سارا ڈپارٹمنٹ انہیں چاچا کہہ کر پکارتا تھا۔ فیئر ویل پارٹی میں ہم دوپہر سے لے کر  رات گئے  تک پارٹی کے  اختتام تک ان کے ساتھ ہی تھے۔ بہت خوشگوار لمحات  گذرے ان کے ساتھ۔ اپنی گریجوایشن کی تکمیل پر انہوں نے تھیسز جو ہمارے ہی گاؤں کے مدرسے “جامعتہ العلوم الاسلامیہ منصورہ کی لائبریری” اپنے گروپ ممبران کے ساتھ مل کر لکھی۔ اس سلسلے میں اس غریب کے گھر کو رونق بخشی، اور ابھی دوبارہ ان کی ضیافت کا سوچ رہا تھا کہ یہ خبر ملی۔

وہ ڈپارٹمنٹ میں بھی  سٹوڈنٹس کے مسائل حل کرنے کے لیے پیش پیش رہا کرتے تھے، نئے آنے والے طلبہ کے لیے ویلکم پارٹی ہو یا کہیں ٹور  پر جانا ہو، رحیم بھائی ہی ہمیشہ سب سے زیادہ متحرک رہا کرتے تھے۔ ہمارے دوسرے سال کے آخری سیمسٹر میں واٹر کولر خراب ہوا، نیا سمسٹر سردیوں میں شروع ہوتا ہے اس لیے واٹر کولر پر کسی نے توجہ نہ دی۔ گرمیاں شروع ہوتے ہی سٹوڈنٹس کو ٹھنڈے پانی کے حصول میں مشکل پیش آنے لگی تھی۔ ڈپارٹمنٹ انتظامیہ کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ رحیم بھائی ہی تھے جنہوں نے کوششیں کیں، خود ایڈمنسٹریشن بلاک تک گئے اور ڈپارٹمنٹ کو نیا واٹر کولر ملا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو جناب یہ تھے رحیم جمالی۔ ابھی ان کو آگے جانا ہے، عملی سیاست کرنی ہے ۔ لیکن ریاست نے انہیں آج گم کر دیا ہے۔ میرے منہ میں خاک۔ خدا نہ کرے ان کے ساتھ بھی ریاست کوئی ایسا کام کرے جس سے ایک اور جوان اذیتوں کا شکار ہو۔ ان کے اہل خانہ پریشان ہوں۔ آئیے سب مل کر دعا کریں کہ ریاست کی مامتا اب نہ ہی جاگے!

Facebook Comments

نجیب بهٹو
سماجی رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر "مکالمہ "کے ذریعے سماج سدھارنے کا عزم رکھتا ہوں، علم و ادب کا ادنی عاشق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply