نیل کے سات رنگ-قسط11/انجینئر ظفر اقبال وٹو

اب ہم دریسا گاؤں کےاندر سے گزر رہے تھے ۔ دور دور کچے پکے کمرے بنے ہوئے تھے ۔ اس علاقے میں کھلے کھلے صحنوں کا رواج تھا اس لئے ان مکانوں کے ارد گرد کسی زمانے میں سرکنڈے اور خشک جھاڑیوں سے بنی چاردیواریا ں ہوا کرتی ہوں گی جنہیں جنجوید نے اپنے حملوں میں شاید جلا دیا تھا اوراس کھلے ماحول میں ان کمروں کو بے لباس کر دیا تھا۔

سکیورٹی والوں کی گاڑی چلتے چلتے اچانک رک گئی تھی اور اس کے پیچھے ہماری گاڑیوں نے بھی بریک لگا دیے تھے ۔ پتہ چلا کہ  سکیورٹی کی گاڑی کا ٹائر فلیٹ ہو گیا ہے۔گاڑی کے پیچھے بیٹھے سکیورٹی والے چوکنا ہو گئے تھے اور انہوں نے نیچے اتر کر پوزیشنیں سنبھال لی تھیں ۔ڈرائیور حضرات ٹائر بدلنے لگ گئے تھے۔شاہ جی نے آج ایک مرتبہ پھر اپنی کرامت دکھائی تھی۔وہ کچھ دیر’ دریسا’ میں رکنا چاہتے تھے اور مجھے درخواست بھی کی تھی مگرہم نے ان کی بات نہیں مانی تھی۔لیکن اب ہم’ دریسا ‘گاؤں کے درمیان ایک بڑے چوراہے میں ایک بہت بڑے درخت کے ساتھ رُکے ہوئے تھے۔اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم نے شاہ جی کی بات نہ مانی اور پھر وہ کام خود بخود ہوگیا۔شاہ جی مسکرا کر کہنے لگے’ وٹو صاحب دریسا گاؤں کے فوٹو بنانے کی اجازت ہے” میں نے کہا ‘جی بسم اللہ کریں’۔سکیورٹی والوں نے ہمیں زیادہ دور جانے کی اجازت نہیں دی لیکن ہم جا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ گاؤں کی گلیاں ہر قسم کی گھاس پھوس، خودرو جھاڑیوں اور حشرات سے بھری پڑی تھیں ۔ کئی درخت خشک ہو کر گرے پڑے تھے۔مکانوں کی چھتیں اُڑی ہوئی تھیں۔ دیواریں گری ہوئی تھیں۔

ہم “ہالہ” کے گاؤں میں چوراہے میں ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بنے مٹی کے گول سے چبوترے پر بیٹھے تھے ۔درخت کے اوپر شہد کی مکھیوں نے بڑاسا چھتا بنایا ہوا تھا۔میں نے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔چبوترے پر دریسا گاؤں کے بزرگ بیٹھے گوٹی کھیل رہے تھے ۔گلی میں بچے بھاگ دوڑ کررہے تھے۔ایک ادھیڑ عمر شخص نے چبوترے کے ساتھ اپنی چھابڑی لگائی ہوئی تھی۔عورتوں کی ایک ٹولی اپنے گدھوں پر پانی کے پلاسٹک کے ڈرم باندھے ندی سے واپس آرہی تھی۔اتنے میں منہ پر کالے کپڑے کا ڈھاٹا باندھے کچھ لوگ فائرنگ کرتے ہوئے گاؤں میں داخل ہوتے ہیں ۔اور لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں ۔ ہر طرف چیخ وپکار مچ جاتی ہے۔گھڑ سوار پورے گاؤں میں گھوم پھر کر لوگوں کو اس بڑے درخت کے پاس چوراہے میں جمع ہونے کا کہہ رہے ہیں ۔

عورتیں اور بچے چیخ وپکار کرتے ہوئے بھاگ رہے ہیں۔فائرنگ کی آواز سے میری آ نکھ کھل جاتی ہے۔ہماری گاڑی کا ڈارئیور مجھے جگا رہا تھا کہ سکیورٹی گاڑی کا  ٹائر تبدیل ہو گیا ہے اور ہم روانہ ہونے کو تیار ہیں۔شاہ جی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے ۔میرے جسم پر اونگھ کے دوران بڑی بڑی چیونٹیاں سوار ہوگئی تھیں جن کو صاف کرنے کے بعد میں بھی گاڑی میں سوار ہو گیا۔

قافلہ پھر روانہ ہو گیا تھا۔وادی ‘ازووم’ اب دور سے نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔سرخی مائل کالے پہاڑوں کے دامن میں گولڈن رنگ کی ریت نے سماں باندھا ہوا تھا۔اس ریت کے اوپر وادی کے درمیان تھوڑا تھوڑا پانی چل رہا تھا جیسے اسے اپنے چلنے پر افسوس ہو رہا ہو۔تاہم اس کے چلنے کا مطلب یہی تھا کہ “جبل مرہ “ کا سرچشمہ حیات ابھی سوکھا نہیں ہوا تھا۔یہ ایک سونے کے رنگ والی ریت کا دریا تھا جس نے اپنے بائیں کنارے پر ساتھ ساتھ چلنے والے پہاڑی سلسلے کے درمیان میں ایک جگہ نقب لگا کر چھوٹا سا رستہ تراش لیا تھاجس کے اند سے یہ ساری ریت پہاڑی کے دوسری طرف بہہ رہی تھی ۔اس پہاڑی درے کی چوڑائی زیادی سے زیادہ تین سو میٹر تھی اور یہی وہ جگہ تھی جہاں وادئی ازووم کی بے قابو سیلابی لہروں کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا—ہ دریسا ڈیم کی سائٹ تھی جو دور سے نظر آنا شروع ہوگئی تھی۔

شاہ جی اور میں نے وقت کی کمی کے پیش نظر پہلے ہی پلان بنا لیا تھا۔شاہ جی نےدرے کے دائیں طرف والی پہاڑی پر گھوم پھر کر اور اوپر چڑھ کر اس کا جائزہ لینا تھا اور میں نے بائیں طرف والی پہاڑی پر۔اگرچہ سیکیورٹی والوں نے ہمیں زیادہ اونچی چوٹیوں پر چڑھنے سے منع کیا تھا لیکن ایک حد تک بلندی پر چڑھے بغیر ڈیم کے حوالے سے اس جگہ کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ سکیورٹی پروٹوکول کے تحت شاہ جی اور میں نے کوڈ ورڈز بھی مقرر کر لئے تھے کیونکہ یہاں موبائل کے کوئی سگنل نہیں تھے اور ایک پہاڑی چوٹی سے دوسری کی طرف اشارے سے یا زور سے آواز لگا کر ہی متوجہ کیا جا سکتا تھا۔

ہماری گاڑیاں وادی کے کنارے پر رک گئیں۔ یہ جگہ درے سے کوئی آدھا کلومیٹر دور تھی ۔ہم لوگ گاڑیوں سے اتر کر ریت کے دریا میں اتر گئے ۔ ہمارے آگے اور دائیں  بائیں  سکیورٹی والے چل رہے تھے ۔ درمیان میں سوڈانئ بھائی ہمارے ساتھ خراماں خراماں چل رہے تھے۔شاہ جی نے مجھے کہا کہ چونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور اگر ہم نے اس جگہ کو صحیح طریقے سے جانچنا ہے تو ہمیں اپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔شاہ جی تیز پیدل چلنے میں مہارت رکھتے تھے اور وزٹ کے دوران تیزی سے پہاڑیوں پر چڑھنے کے لئے مشہور تھے۔انہوں نے مجھے آنکھ ماری اور ہم نے اپنی رفتا ر بڑھا دی ۔ اگرچہ کنواری ریت پر چلنا بہت مشکل کام تھا پاؤں ریت میں دھنس رہے تھے لیکن ہم اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے اس سایٹ کی چیدہ چیدہ مقامات کا معائنہ مکمل کر لینا چاہتے تھے ۔سوڈانی بھائی ہماری یہ اچانک موو سمجھ نہیں پائے تھے اور ان کے لئے ہماری رفتار کا ساتھ دینا مشکل ہو رہا تھا۔ جلد ہی ہم انہیں پیچھے چھوڑ کر اگلے سکیورٹی والوں کے پاس پہنچ گئے اور پھر ان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اب وہ بھاگ بھاگ کر ہمارے ساتھ ملنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن انہیں مشکل ہو رہی تھی اور ہمیں مزہ آنے لگا تھا۔درے کے قریب پہنچتے ہی جب تیزی سے میں بائیں  طرف والی پہاڑی کی طرف مڑا اور شاہ جی دائیں طرف مڑے تو سکیورٹی والے جو پہلے ہی ہمارے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے اب مکمل کنفیوز ہو گئے کہ کس طرف جائیں ۔ہم بھی ان سے چھٹکارہ پاکر سکون سے اپنا کام مکمل کرناچاہتے تھے ۔لہذا ہم ان کی پرواہ کئے بغیر تیزی سے اپنی طرف کی پہاڑیوں پر چڑھنے لگے۔وہ تھک ہار کر ریت پر ہی بیٹھ گئے بلکہ ان میں سے تو کچھ وہاں لیٹ گئے۔

میں نے پہاڑی پر کافی اوپر جاکر شاہ جی کو اشارہ کیا۔ وہ دوسری طرف مجھ سے زیادہ بلندی پر پہنچ چکے تھے۔ یہ اتنی بلندی تھی کہ جس سے ہم مستقبل میں ہیاں بننے والے ڈیم اور اس کے مختلف حصوں کو اوپر سےدیکھ سکتے تھے۔یہ ایک سرخ رنگ کی مضبوط پتھروں والی پہاڑی تھی جو ڈیم اور اس کے پیچھے رکے ہوئے پانی کا بوجھ لے سکتی تھی۔ اس کے اندر دراڑیں بھی کم تھیں جن کی وجہ سے ذخیرہ شدہ پانی کے لیک ہونے کا خطرہ بھی کم تھا۔اس کے اوپر خود رو گھاس اور جھاڑیاں بے تحاشا اُگی ہوئی تھیں۔یہ اتنی اونچی تھیں کہ ان میں کھڑا بندہ نظر نہیں آتا تھا۔شاہ جی نے مجھےتھوڑا اور اوپر جا کر پہاڑی کے دوسری طرف دیکھنے کا اشارہ کیا تاکہ ‘سپل وے ‘ کی جگہ دیکھی جا سکے۔

میں جھاڑیوں میں راستہ بناتے اپنی دھن میں آگے بڑھ رہا تھا جب وہ مجھے کچھ فاصلے پر اچانک جھاڑیوں میں کھڑا نظر آگیا تھا۔اس کے منہ پر کالے رنگ کے کپڑے کا ڈھاٹا بندھا ہوا تھا۔ اس نے کیمو فلاج والے کپڑےوالا لباس پہنا ہوا تھا ۔اور اس کے ہاتھ میں جدید رائفل تھی۔ اس نے بھی اسی وقت مجھے دیکھ لیا تھا۔میری اور اس کی نظریں ایک لمحے کے لئے آپس میں ملی تھیں اور ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں میں نے اسکی آنکھ کے عدسے سے سب کچھ دیکھ لیا تھا۔

یہ دوپہر سے پہلے کا وقت تھا جب وہ وہ لوگ اسی روپ میں اپنے گھوڑوں پر سوار ‘دریسا ‘ گاؤں پہنچے تھے۔وہ گھوڑے سرپٹ دوڑاتے ہوئے اس بڑے درخت والے چوراہے میں پہنچے تھے اور آتے ہی فائرنگ شروع   کر دی تھی۔انہوں نے جھونپڑیوں کا آگ لگانا شروع کردی تھی۔اور لوٹ مار شروع کردی تھی۔گاؤں میں چیخ وپکار شروع ہوگئی تھی اور لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔انہوں نے گاؤں کے مردوں کو اس بڑے چوراہے میں جمع ہونے کا حکم دیا ۔ عورتوں نے بچوں کو چھپا لیا تھا اور خود بھی چھپ کر بیٹھ گئی تھیں ۔نوجوان لڑکیوں کو خصوصی طور پر چھپا دیا جانے لگا۔’ ہالہ’ کے ساتھ کچھ لڑکیاں جنگل کی طرف بھاگ نکلیں۔ ان کے ساتھ دو نوجوان بھی تھے جو ان کی حفاظت کر رہے تھے۔

چوراہے میں جمع ہونے والے مردوں کے سامنے جنجوید کے امیر نے تقریر کی تھی اور باغیوں کی سزا موت تجویز کی جس پر اس گاؤں کے مردوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اس عمل سے فارغ ہو کر اس کے ساتھیوں نے کچھ عورتوں کو پکڑ لیا اور سائیڈ پر لے گئے۔ میں نے اپنے سر کو جھٹکا ۔ اسی لمحے اس نے بھی اسی سرعت سے میری آنکھوں میں ان سے بھاگ جانے والی ‘ہالہ’ کا عکس شائد دیکھ لیا تھا۔ ہم چند لمحے بالکل ساکت کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر مجھے خطرے کا احساس ہوا۔ لیکن میں اس لمحے پتھر کا بن گیا تھا اور ایسے لگ ریا تھا اگر میں ذرہ بھی حرکت کی تو میرا سارا وجود کرچی کرچی ہو جائے گا۔وہ بھی پتھر کا بنے کھڑا تھا جیسے آرمی میوزیم کے باہر کسی فوجی کا مجسمہ ہاتھ میں بندوق لئے کھڑا ہو۔وہ اس وقت اس دور دراز جگہ پر پہاڑی کے اوپر ایک اجنبی ملک کے چہرے کو دیکھنے کی بالکل توقع نہیں کر رہا تھا اور تذبذب کا شکار تھا یا شائد وہ مجھے کوئی جن بھوت سمجھ رہا تھا۔مجھے ایمرجنسی میں مدد کے لئے بلانے والے سارے اشارے بھول چکے تھے۔ میں بہت آگے آچکا تھا جہاں سے کوئی مجھے نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی پہاڑی کے نیچے ریت کے دریا میں لیٹے سکیورٹی والوں تک میری آواز پہنچ سکتی تھی۔ شائد میں نے اپنی حد کراس کر لی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply