سینٹ میریز حیدرآباد/ یادوں کی برات(قسط1)-تزئین فرید

“سب کے ممی ڈیڈی ان سے کہتے ہیں کہ شادی کرو۔ ایک ہمارے پیرنٹس ہیں جو کہتے ہیں پڑھو پڑھو پڑھو۔ ڈاکٹر بنو۔ “
یہ میری اسکول کی کلاس فیلو شہناز کا کہنا تھا جو نرسری سے سینٹ میریز کانوینٹ اسکول حیدرآباد میں میرے ساتھ پڑھتی رہی تھی۔ کبھی کبھی سیکشنز الگ ہو جاتے تھے مگر گریڈ نائن اور ٹین میں ہم ایک ہی کلاس میں تھے۔

تلک چاڑی اور اسٹیشن روڈ کے سنگم پر واقع برٹش راج کے زمانے کے اس اسکول میں مَیں نے میری چاروں بہنوں نے اور ایک کزن نے نرسری سے میٹرک تک پڑھا۔
میٹرک کے بعد بھی میں واحد تھی جو سترہ روز نیزرتھ کالج میں پڑھنے کے بعد پری انجینئرنگ کے لئے شہر کے سب سے بڑے کالج زبیدہ کالج گئی، ورنہ باقی بہنوں اور کزن نے ایف ایس سی بھی اسی اسکول کی تیسری منزل پر واقع چھوٹے سے نیزرتھNazareth College سے کیا۔

یہ Nazareth جسے فلسطینی عربی میں ناصرہ کہتے ہیں دراصل فلسطین میں واقع اس شہر کا نام ہے جہاں حضرت عیسیٰ کی زندگی کا بڑا حصّہ گزرا، لیکن بچپن میں ہمیں یہ بات کسی نے نہیں بتائی ۔
بچپن میں کراچی سے تعلق رکھنے والی میری ایک کزن جو اَب کینیڈا میں ہوتی ہے اسی دور میں ایک دفعہ مجھ سے ایک تقریب میں کہنے لگی کہ تمہارے ہاں حیدرآباد میں سارے کالجوں کے نام خواتین کے نام پر کیوں ہیں۔ اس وقت تک مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ نیزرتھ دراصل حضرت عیسیٰ سے منسوب شہر سے وابستہ ہے، کسی خاتون کا نام نہیں مگرکسی وجہ سے میں اسے یہ بات بتا نہیں سکی لیکن یہ بات میرے دماغ میں چپک گئی ۔ خیر یہ جملہءِ معترضہ ہے۔

آخری مرتبہ ۲۰۱۰میں امی ابو کے حیدرآباد چھوڑنے سے قبل منجھلی بیٹی کے ساتھ مار ننگ واک پر اسکول گئی  مگر چوکیدار نے بتایا کہ آؤٹ سائیڈرز پہلے سے لی گئی  اجازت کے بغیر اب اسکول میں داخل نہیں ہو سکتے۔

۲۰۱۵ میں کینیڈا میں میری بڑی بیٹی کا البرٹا کے بیسٹ اکیڈیمک ریٹنگ کے ہائی  اسکول اولڈ اسکونا میں داخلہ ہوا ،تو اس سے زیادہ میں ایک سائیٹڈ تھی۔پہلی دفعہ کلاسز شروع ہونے سے پیشتر میں بیٹی کے ساتھ تعارفی سیشن اٹینڈ کرنے گئی  تو میں نے بیٹی کو بتایا کہ میرا اسکول بھی تمہارے اسکول کی طرح سو سال سے زیادہ پرانا تھا اور برٹشرز کا ہی تعمیر کردہ تھا مگر میرے اسکول کی بلڈنگ تمہارے اسکول سے بہت زیادہ کلاسک تھی۔ یہ میں مبالغہ نہیں کر رہی تھی۔ اور نہ ہی ناسٹیلجک تھی۔
سینٹ میریز کی عمارت واقعی بہت امپریسو تھی۔

اسکول کے واحد سبز گیٹ سے اندر داخل ہوتے تو بائیں ہاتھ پرچوکیدار کی کوٹھڑی کے پیچھے ایک بہت بڑا اور کوئی  دو فٹ اونچا چبوترہ تھا جہاں اسکول کی کینٹین واقع تھی۔
امی بتاتی تھیں کی انکے بچپن میں اس چبوترے پر حضرت مریم رح کا ایک بہت بڑا مجسمہ ایستادہ تھا جو تلک چاڑی سے اترتے ہوئے دور سے نظر آتا تھا۔ لیکن شاید ہمارے اسکول میں ایڈمشن سے پیشتر کسی وقت اسے ہٹا کر اسکول کو اسلامائیزڈ کر دیا گیا تھا۔ شاید جب بھٹو حکومت کے دوران یہ کانوینٹ نیشنلائز ہوا اس وقت یا شاید اس سے قبل۔

ہم بابری مسجد کے رونے والوں کو کبھی یہ باتیں خلاف انصاف محسوس نہیں ہوتیں۔ بچپن میں مندروں گردواروں کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی کبھی یہ سوچ نہیں آئی  کہ یہاں اب عبادت کیوں نہیں ہوتی۔ انہیں رہائشی انکلیوز میں کیوں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ خیر یہ بھی جملہءِمعترضہ ہے مگر اس پر ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آیا۔
۲۰۱۵ میں ہی کینیڈا کی ایک اسلامی تنظیم نے ایڈمنٹن میں سینئر خواتین کا ایک پروگرام رکھا۔ یہاں ایسے کمیونٹی ایونٹس عام ہیں۔ میں اس دور میں پہلی دفعہ ہارورڈ جانے کی تیاریاں کر رہی تھی اور بہت مصروف تھی مگر مجھ سے درخواست کی گئی  کہ میں اس پروگرام کو ہوسٹ کروں۔ اتفاق سے وہاں مسلمان خواتین تو کم تھیں کسی ساتھی نے سکھ خواتین کوانوائیٹ کیا تھا جو بڑی تعداد میں وہاں پہنچ گئیں۔

میری تو چاندی ہو گئی۔ میں نئی نئی کینیڈا منتقل ہوئی  تھی اور مجھے سکھ برادری کے لوگوں سے بات کر کے بڑا مزہ آتا تھا۔ اکثر لوگ بتاتے تھے کے انکے والدین نے پاکستان کے فلاں فلاں شہر سے ہجرت کی تھی۔ اور اب یہ لدھیانہ جالندھر پٹھان کوٹ وغیرہ کے رہائشی تھے۔ کبھی انکے سینئر افراد اپنی کہانیاں سناتے تو معلوم ہوتا کہ انکے رشتے داروں نے کن حالات میں ہجرت کی۔ یہی حالات موجودہ انڈین پنجاب اور جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو بھی تقسیم کے نتیجے میں فیس کرنے پڑے۔۔لیکن میں ان سکھوں سے بات کرتے ہوئے محسوس کرتی کہ تقسیم کی گرد نا  صرف بیٹھ چکی تھی بلکہ بھارت نے جو سلوک انکے ساتھ کیا، اسکے بعد ان میں سے کچھ لوگ مجھ سے کہتے کہ ہم نے پاکستان کا ساتھ نہ دیکر غلطی کی۔
خیر اس سینئر ایونٹ میں جب تعارف ہو رہا تھا تو ایک مسلمان خاتون جن کا تعلق وزیر آباد سے تھا ان سکھ خواتین کی موجودگی میں بہت فخریہ یہ بتانے لگیں کہ ہمارے چچا نے تو تقسیم کے زمانے میں بہت سے سکھوں کے گردواروں پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ میں حصہ لیا۔
شاید دوسری طرف بھی ایسا ہی ہوا ہو، اور یقیناً ہوا ہو گا مگر 2015 میں سکھ خواتین کے سامنے فخریہ اپنے چچا کے کارناموں کا اظہار کرتے ہوئے ان خاتون کا اس حد تک بے حس ہونا مجھے بہت کِھلا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ہم مسلمانوں میں خصوصاً مذہب سے جڑے طبقات میں ایسے معاملات کے لئے بالکل بھی حساسیت نہیں۔ہم اپنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے مرنے مارنے کی حد تک حساس ہیں لیکن دوسروں کی عبادت گاہوں انکی مذہبی یادگاروں کی توڑ پھوڑ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اوہو ان باتوں میں شہناز کی بات تو رہ ہی گئی۔ چلیں وہ  اگلی قسط میں ہوگی اب۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply