بیٹی کو بیٹی ہی رہنے دیں

تحریر-چبوترے پر بیٹھا دانشور(قلمی نام)

مشرقی معاشرے میں کچھ والدین  اپنی کوتاہیوں, کمزوریوں بلکہ اکثر اپنی کم نصیبی کا حل اپنی اولاد میں دیکھتے ہیں جس میں بہرحال کوئی برائی نہیں لیکن شخصیت میں توازن کو مدِّنظر رکھنا لازم ہے جیسے کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنی بڑی بیٹی کو باور کراتے رہتے ہیں کے تم میری بیٹی سے زیادہ میرا بیٹا ہو، یا تم کسی بیٹے سے کم نہیں ہو۔ اس طرح کی گفتگو اگر کم سنی سے ہی بچّی کے ساتھ کی جانے لگے اور بچّی کے سمجھدار ہونے پر اس عادت کو ترک نہ  کیا جائے تو اکثر اوقات اس کا اثر اس لڑکی کی شخصیت میں واضع طور پر نظر آنے لگتا ہے اور لڑکی اپنی فطری حساسیت اور نزاکت کھونے لگتی ہے, جس کو ہمارے معاشرے میں بڑی بوڑھیاں بےشرمی, بےحیائی اور مردمار جیسے لاحقوں سے  جو ڑ دیتی ہیں۔

اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے والی خواتین کی ازدواجی زندگی بھی اکثر متاثر ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک مقابلہ کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ذہن سازی اس طرح ہوئی ہوتی ہے کہ  تم بیٹا ہو (یا کسی مرد سے کم نہیں ہو) تو ذہن ہر بات کو ماننے  یا سمجھنے سے زیادہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے اور گھریلو زندگی کو کنٹرول کرنے کی طرف زیادہ راغب رہتا ہے۔ ویسے تو معاشرتی لحاظ سے میاں بیوی برابر ہی ہیں اور دونوں کی اپنی اپنی ذمّدایاں ہیں لیکن جب ایک طرف کا رجحان تھوڑا اثر انداز ہونے والا ہو تو دوسری طرف سے ہر طرح کی مدافعت یا کم سے کم احتجاج گھریلو ماحول کو خراب کرتا ہے>

دوسری بات اس سوچ کے ساتھ پلی بڑھی اکثر خواتین میں نسوانی معاملات کو قبول کرنے  کی  صلاحیت تھوڑی کم ہوتی ہے یا پھر حد سے زیادہ مضبوط شخصیت کی وجہ  سے وہ بہت سارے مسائل جو کہ شوہر کے علم میں آنے چاہئیں, وہ شوہر کے ساتھ شیئر کرنے سے اجتناب برتتی ہیں اور  یہ بات بعد میں چپقلش کا باعث بنتی  ہے۔ اس طرح کے جوڑوں میں اگر مرد کمزور ذہنیت  کا حامل اطاعت پسند انسان ہو تو معاملات باآسانی نبھ جاتے ہیں لیکن اگر مرد ایک مضبوط شخصیت  (ہر طرح کے معاملات میں) کا حامل ہو تو بات بگڑنے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے۔

اکثر بہنوں کے زیِر اثر پرورش پانے والے لڑکوں کو بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور وہ نسوانیت زدہ مردانہ شخصیت تلے دبے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

والدین کو چاہیے کہ  اپنے بچّوں کو ہر طرح کے معاملات زندگی سے نمٹنے کے لیے تیار ضرور کریں لیکن ان کی صنف پر اثر انداز نہ  ہوں جیسے کہ  بیٹی کو بیٹا یا بیٹے کو بیٹی باور کرانے کی کوشش کرنا۔ بچپن میں کیے گئے یہ چونچلے اکثر لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مستقبل میں بہت مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply