چلے تھے دیو سائی ۔۔محمد جاوید خان/سفر نامہ/قسط 12

چاندہمسایہ تھا:
رات کو تقریباً ڈیڑھ  بجے   آنکھ کُھلی،کمرے میں خراٹے اور سوئی ہوئی سانسوں کی آوازیں تھیں۔میں نے چادر لپیٹی،دروازہ کھولا، پاؤں میں جوگرز پہنے  اور باہر نکل آیا۔سُنہری چاندنی میں سارا پہاڑی منظر نہا رہا تھا۔شما ل مشرقی چوٹیاں،جن پہ کئی  فٹ  برف باقی تھی،سے چاند اُوپر آچکا تھا۔پولو گراؤنڈ کے اُوپر سے سرکتا ہوا میرے عین سامنے جیسے ماتھے کے برابر آکر کھڑا ہو گیا ہو۔سنہری چاندنی میں برفیلی ہواؤں کا سخت پہر ہ تھا۔اُجلے آسمان کے درمیان سنہری گول فُٹبال،اُس کی شفاف چاندنی اور اس میں سرد کوہسار۔۔ خاموشیوں کا حسن اس چاندنی میں نہا رہا تھا۔

میں رات گئے اُٹھا تھا لہٰذا طلوع چاند کا منظر نہیں دیکھ سکا۔اگر ہوٹل کے سامنے سے طلوع قمر کامنظر ملے تو پولو گراؤنڈ کے عقب سے اُبھرتے سُنہری توے کامنظر لمحہ بہ لمحہ نہایت دل آویز ہوگا۔چاند ہوٹل کی پُشت پہ لگی چوٹی (ٹاپ) کی طرف اُبھر تا محسوس ہو رہا تھا۔اپنی زرد چاندنی شفاف آسمان سے، جو اس کی چاندنی میں کچھ زرد لگنے لگا تھا،سارے کہساروں پہ اُنڈیل رہا تھا۔کُنہار ندی کا پانی چُپڑ چُپڑکی آوازوں کے ساتھ نشیب میں بہہ رہا تھا۔ندی کے کنارے چرواہوں کی بستی سوئی ہوئی تھی۔ دن بھر کی تھکن اب راحت میں بدل گئی تھی۔مشقت سے چُو ر بدن اب گہری آرام دہ نیند کی آغوش میں تھے۔فطری زندگی کے نگہباں،جن کے لیے رات ہر رو ز ااپنا آسودہ بستر بچھا لیتی ہے اور وہ کسی تکلف کے بغیر اُس پہ دراز ہو جاتے ہیں۔کتنا فرق ہے کُنہار ندی کے کنارے بسی اس بستی کے باسیوں میں اور چکاچوند دُنیا کے رہنے والوں میں۔وہاں نیند مہنگے داموں خریدی جاتی ہے۔جبکہ یہاں نیند ممتا کی طرح روز اپنے بازو خود ہی پھیلا دیتی ہے۔ سکون اس وقت کارخانہ قدرت کے ہاتھوں سے چھٹ کر کارخانہ انسان میں سسک رہا ہے۔ سو ہنی، سُونی اور سوَنی راتوں میں زہر گھل گیاہے۔

مجھے ہوٹل کے سامنے کھڑے کافی وقت بیت چکا تھا۔چاند نے رُخ تبدیل کرلیا تھا اَب وہ بابوسر کے ماتھے کی طرف نہیں لُولُو سر کی طرف کھسکنے لگا۔یہ وہی راستہ تھا جس پہ کنہار ندی رواں تھی۔کسی چاند کی بھر پور جوانی صر ف خاموش اور سنسان رات کو ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں کوئی اور مصنوعی رنگ نہ ہواور بابو سر میں ایسی رات میسر تھی۔دُور تک پھیلے ننگے کہساروں پہ سنہری ٹھنڈی کرنوں کا راج تھا۔اس بلندی پر تاروں کی چمک ماند پڑ گئی تھی۔

چاند کنہار ندی کے رُخ پہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔شب بھرکا آوارہ گرد،جس کی آوارگی اور حسن نے اِنسانی تخیل کو َازل سے اسیر کررکھا ہے۔ نظم ”چاند“ میں اِقبال اِس شب گرد کے حسن سے مخاطب ہیں:
اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے۔
طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تو کسی کا؟یہ داغ آرزو ہے؟
میں مضطرب زمین پر،بے تا ب تو فلک پر
تجھ کو بھی جستجو ہے،مجھ کو بھی جستجو ہے
(۱۱)
میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن
ہے مگر دریائے دل ،تیری کشش سے موجزن
قصد کس محفل کا ہے؟آتا ہے کس محفل سے تو
زرد رو شاید ہوا رنج رہ منزل سے تو!

سنہری تھا ل پہ داغ جدائی مکمل نمایاں تھا۔انسان اس داغ کو صدیوں سے دیکھ رہا ہے۔ اب جب اُس نے چاند کو تسخیر کر کے اس کے راز داغ کو توآشکار کر لیا مگراپنی دنیا پہ لگتے داغ کا سر اغ نہ آشکار کرسکا نہ مٹا سکا۔ چاند اور زمین اپنے محوری سفر پہ آنکھ مچولی کر رہے تھے اور میں کسی چیونٹی کی طرح ان کے درمیان بابوسر پہ کھڑ ا تھا۔اس کھیل کے اثرات کا مشاہدہ کررہا تھا۔چاند زمین کا واحدمعلوم ہمسایہ ہے۔مگر اس وقت یہ صرف بابو سر کا ہمسایہ لگ رہا تھا۔ کچھ دیر کے لیے لگاجیسے یہ سنہریُ فانوس چوٹی کے ماتھے کے اُوپر خلا میں لٹک گیا ہے۔ اگر اس وقت یہ سنہری فانوس ٹوٹ کر گرتا تو ٹاپ کے درمیان  آ کر لگتا۔ٹاپ سے چاندنی میں نہاتی اس وادی کا منظر اس وقت اور بھی پیارا ہو گا۔مگر سردہواؤں نے صرف اک جگہ ٹھہرنے کی سکت دے کر باقی قوت سلب کر لی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply