1957 میں کہی گئی دو غزلیں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں اک شاہپارہ ء قدرت ہوں ، یعنی آدمی ہوں میں
جسے انسان کہتے ہیں، وہ فخر ِِ زندگی ہوں میں

گناہوں میں چڑھی پروان، وہ دوشیزگی ہوں میں
ہر اک شاعر کی فطرت میں ہے جو آوارگی، ہوں میں

کھنک ساغر کی، غنچے کی چٹک، پھولوں کی شادابی
کسی سوئے ہوئے معصوم بچے کی ہنسی ہوں میں

مری تنہائیاں ، میرے لیے، محفل بداماں ہیں
بھری محفل ہے اور تنہائیوں کی خامشی ہوں میں

مجھے شدت کی تنہائی میں یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے دشت میں بھٹکی ہوئی آواز سی ہوں میں

—————–

تصورات کا حجرہ ہے دیدہ ء پُر آب
میں اب بھی دیکھ رہا ہوں وہی ادھورے خواب

قدم قدم پہ اٹھاتی ہے ظلمتوں کے نقاب
نگاہ ایک تجلی نواز و سینہ تاب

نظر نظر متجسس، نظر نظر بے تاب
نہ آ سکے گا مجھے راس یہ جہان ِ خراب

یہ کس نے دست ِ نگاریں بڑھا کے کھینچ لیا
رُخ ِ عروس ِ شفق سے نقابِ رنگ ِ سحاب

مرے جنون ِ محبت پہ تازیانہ ہیں
یہ بھیگی بھیگی سی آنکھوں میں جھانکتے سے خواب

Advertisements
julia rana solicitors

خدا نخواستہ، خلوت میں تم اگر سن لو
یہ محرمانہ تکلم ، یہ مجرمانہ خطاب!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply