ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(8)-زید محسن حفید سلطان

بالاکوٹ سے آگے ہمارا سفر جاری رہا ، کیوائی کے قریب چاچا ارشاد نے ایک جگہ گاڑی روکی اور کہنے لگے “آ جاؤ سارے”۔
ہم اترے تو پتا چلا ہمارا میزبان ایک خوبصورت اور صاف ستھرا ہوٹل تھا ، سامنے اس کا برآمدہ تھا جس میں چند کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور اس کے سامنے ایک خوبصورت نظارہ تھا۔ ۔ سڑک  سے نظر آنے والا پہلا مالا دریا کے کنارے سے چوتھا مالا بنتا تھا ، ہمارے قدموں تلے دریاء کنہار تیزی سے بہہ رہا تھا جس میں پڑے ایک ، ڈیڑھ مالے لمبے اور کئی کئی گز چوڑے پتھر اس کی تیزی کو کاٹ کر کم کرنے کوشش میں تھے اور اس کوشش میں خود بھی کٹے جا رہے تھے اور ٹکڑے بن کر گرے جا رہے تھے ، پھر دریا پار ایک پہاڑ تھا جس پر کچی  سڑک  بنی ہوئی تھی  اور اس  سڑک  تک جانے کو ایک لکڑی کا پل تھا جس پر سے جب جیپ گزرے تو ایک لمحے کیلئے دل حلق میں آ جائے اور اگلے لمحے حلق سوکھ کر رہ جائے ، سامنے پہاڑ پر ہمیں کچھ ہلتا ہوا محسوس ہوا تو اندازے لگنے لگے “بکرے ہیں” نہیں یار “مجھے تو لگ رہا ہے کوئی پتھر ہے” ارے واقعی یہ تو پتھر ہے “لیکن یہ تو ہلا ہے ابھی ابھی”
“ابے یار ابو الحسن کی ایجاد کب کام آئے گی؟” “کون ابو الحسن؟” “وہی بو علی سینا کا استاد جس نے دوربین ایجاد کی تھی!  “تو سیدھا کہو نا کہ دوربین چاہیے!

کسی کو دوربین کا خیال آیا تو ابو الحسن کی ایجاد کی ہوئی ، گلیلی گلیلیو کی موڈیفائی کی ہوئی اور سب سے بڑھ کر ابراہیم کی خریدی ہوئی دوربین کی بھی قسمت جاگ گئی ، وہ تو جب آنکھوں سے دوربین لگی تو معلوم چلا کہ پہاڑ پر تو اچھی خاصی گائے چر رہی ہیں جن کو ہم کبھی پتھر تو کبھی بھیڑ ، بکریاں اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھ رہے تھے ، اسی لئے کہتے ہیں کہ “چشمہ لگانے والوں کا حترام کرنا چاہیے ، کیونکہ وہ ہمیں دیکھنے کیلئے پیسے خرچ کرتے ہیں” ورنہ سوچیں ذرا کہ اگر وہ چشمہ نہ لگائیں تو اچھے خاصے انسان کو بھی پتھر یا کوئی بھیڑ بکری بنا چھوڑیں گے۔

خیر ابھی ہم نظاروں سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ بیرا آیا اور دو ٹیبلیں ملا کر لگانے لگا ، ادھر ہماری ساتویں حسِ (یعنی بھوک) نے تیزی سے تعاقب کیا تو اندازہ ہوا ہمارے لئے کھانا لگ رہا ہے اور اگلی چند ہی گھڑیوں میں مزیدار کڑاہی اور ساتھ میں گرما گرم چپاتی ہمارے سامنے سج گئی تھیں ، کھانا بہت شاندار تھا ، ہم نے کھا پی کر جب موسم کی طرف دیکھا تو ایک دم محسوس ہوا جیسے مغرب ہونے والی ہو ، لیکن جب گھڑیوں کی طرف نظریں گئیں تو معلوم ہوا ابھی تو ظہر کا ٹائم ہوا ہے ، در اصل صبح سے سورج نکلا نہیں تھا اور مستقل بوندا باندی ہو رہی تھی اس لئے صبح سے شام تک ایک سا ہی موسم رہتا تھا ، نماز کیلئے وضو کرنے گئے تو پانی میں ہاتھ ڈالتے ہی ایک جھرجھری سی آ گئی ، پھر تھرتھری سی آئی ، پھر اعضاء میں آہستہ آہستہ سنسنی سی پیدا ہوئی اور جب مکمل طور پر سُن ہو گئے تو مرمری سی صورت ہو گئی ، ہم نے انہیں سنسناتے حواس ، کپکپاتے اعضاء ، اور ڈگمگاتے قدموں سے جائے نماز  کا رخ کیا اور تھرتھراتے لبوں کے ساتھ نمازیں ادا کیں ، یہاں پہلی بار اچھی خاصی سردی کا احساس ہوا اور امی کیلئے بڑی ہی شدت سے شکریہ نکلا جنہوں نے زبردستی ایک موٹی جیکٹ ہمارے زادِ سفر میں رکھ دی تھی۔

نماز پڑھ کر اور کھانا کھا کر ہم واپس گاڑی میں آ بیٹھے لیکن اب کی بار جو ہم بیٹھے تو انداز کچھ نرالا ہی تھا ، اور وہ انداز تھا بے ہوشی یا غنودگی کا انداز ، یعنی ہم سب پر ہی نیند اور غنودگی طاری تھی۔ اب یا تو پچھلی رات ڈائیوو کے سفر کے بعد مسلسل بارش میں رہنے اور پھر ناران کے سفر کی تھکاوٹ کی وجہ تھی یا پھر اب کی بار ہمارا واسطہ اصلی والی “چرسی کڑاہی” سے پڑ گیا تھا جس کو کھا کر اب حالت یہ تھی کہ بیٹھنے کے کچھ ہی گھڑیوں بعد خضر کے علاؤہ ہم سب سوئے پڑے تھے۔

اور ایسا نہیں تھا کہ خضر کو نیند نہیں آ رہی تھی بلکہ خضر نے جب ہم سب کو ہی سوتا ہوا پایا تو اس کی نیند یہ سوچ کر اڑ گئی کہ اگر چاچا ارشاد بھی سو گئے تو کیا ہوگا؟ بس اسی چکر میں خضر ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ بیٹھا خود بھی جاگتا رہا اور چاچا کو بھی جگاتا رہا ، ہماری آنکھ تو تب کھلی جب چاچا نے کافی زور سے کہا “بڑا برف برف کر رہے تھے نا تم لوگ ، لو آ گئی برف”
پھر تو نیند ایسی غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

ہم جلدی جلدی برف کے دیدار کو تیار ہو گئے ، اگلے چند ہی لمحوں میں چاچا نے گاڑی سائڈ پر لگائی اور ہم سب ایک بار پھر یخ بستہ موسم میں برستے مینہ کی آغوش میں اتر آئے جہاں  سڑک  پار ایک ہرا بھرا پہاڑ تھا جس کو ذرا اوپر جا کر برف نے بڑے سلیقے سے ڈھانپ رکھا تھا ، ہم آہستہ آہستہ اوپر کی طرف چل دیے ، شروع والی برف صاف نہیں تھی اس لئے ہمت کر کے تھوڑا اوپر اور ہم میں سے کچھ تو اچھا خاصہ اوپر تک گئے تاکہ برف کھا بھی سکیں ، ویسے تو برف کھا ہی رہے تھے کبھی سر پر تو کبھی کمر پر لیکن جو مزہ برف منہ میں رکھ کر کھانے میں آیا وہ الگ ہی تھا۔

اس کھانے پینے میں جو سب سے مزیدار سین تھا وہ تھا خضر کا عبدالباسط اور عبید کی شرٹ کے اندر برف ڈالنے کا ، یقین جانیں اتنی سردی تھی کہ ہاتھ میں برف پکڑو تو ہاتھ سن ہو جائیں ، پھر کمر پر برف لگنے کا تو الگ ہی مزہ ہوگا ۔اسی مزے کے ساتھ ہم واپس نیچے آئے ،سامنے کسی نے انگیٹھی جلائی ہوئی تھی ہاتھ سینک کر کچھ گرمائی لی اور آگے چل دیے کیونکہ “ہم نے ناران جانا تھا”۔
گاڑی چلتی رہی ، پولیس چیک پوسٹ آئی ، شوگران کا ٹریک آیا ، سری پائے والا روڈ آیا ، کاغان آیا لیکن ہم ان سب کو ایسے ہی اگنور مارتے ہوئے چلتے گئے جیسے آپ پڑھتے ہوئے یہ اگنور مار گئے کہ بھلا یہ “شوگران” اور “سری پائے” کیا بلا ہیں؟

چلیں اس کا ذکر اس وقت کیلئے اٹھائے رکھتے ہیں جب کبھی ہم اس طرف جائیں گے البتہ ابھی کیلئے اتنا عرض کر دیتے ہیں کہ “شوگران” کا مرضِ شوگر سے اور “سری ، پائے” کا گائے بکروں سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا چپلی کباب کا چپل سے اور گلاب جامن کا گلاب سے ، یعنی صفر۔

کاغان کے بعد تو ہمیں لگا جیسے سب جھوٹ بول رہے تھے اور ہم ناران پہنچنے والے ہیں ، اتنے میں ایک تختی  نظر  آئی “ناران: 40 کلو میٹر” پھر 30 ، 20 ، 15 کلو میٹر کم ہوتے رہے اور ہمارا شور بڑھتا رہا کہ جیسے ہم ناران پہنچ جائیں گے ، ادھر چاچا ارشاد کا یقین بھی شک میں بدلنے لگا کہ ناران بند ہے اور اب وہ کچھ الگ ہی انداز میں یہ کہنے لگے “ہمارا تو آپ سے وعدہ ہے جہاں تک جا سکیں گے جائیں گے ، ہم تو چاہتے ہیں آپ ناران جاؤ ، گھومو ، پھرو ، مزے کرو” کچھ مسافت کم ہو رہی تھی کچھ چاچا کے الفاظ بدل رہے تھے اور یہ سب ہمارا حوصلہ بڑھا رہے تھے کہ اتنے میں تختی آئی۔۔ ۔”ناران۔۔۔12 کلو میٹر”۔ ۔ “چلو اگر گاڑی آگے نہیں جانے دی تو ہم پیدل ہی چلے جائیں گے” جوش بڑھ رہا تھا کہ اتنے میں ایک موڑ آیا اور  گاڑی بند ہو گئی ، اللہ خیر ، “کیا ہم اتریں” نہیں نہیں بیٹھو ، اتنے میں گاڑی دوبارہ اسٹارٹ ہوئی اور پھر وہ موڑ بھی آ ہی گیا جس موڑ سے ہمارا رخ واپس موڑ دیا گیا!

ایک فوجی چھتری لئے چوکی سے برآمد ہوا ، اشارہ کیا اور کہا “آپ آگے نہیں جا سکتے” ، اب کیا تھا ہمارا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ، چاچا سچے ثابت ہوئے اور ان کی بانچھیں کھل گئیں ، لیکن اگر یہ بانچھیں ہی کھلتی تو بہتر تھا ایک دم ان کی زبان بھی کھل گئی “لو جی ہمارا آپ سے یہاں تک کا وعدہ تھا ، اب مجھے اجازت دیں میں جاؤں؟”
ہم جو ابھی تک فوجی سے آگے جانے کی باتیں کر رہے تھے ایک دم اس طرف متوجہ ہوئے کہ “مجھے اجازت دیں” کیا مطلب؟
اب ہم کیا “سُکی کناری ڈیم” کے کنارے رہیں گے؟ مانا کہ اس ڈیم پر دو ارب ڈالر کی مالیت لگ رہی ہے لیکن اس میں سے ہمارا حصہ تھوڑی رکھا ہے بھئی!
اب ہم نے فورا ًفیصلہ کرنا تھا کیونکہ مسلسل چاچا ارشاد کی ایک ہی آواز آ رہی تھی “میرے لئے کیا حکم ہے؟”
فیصلہ یہ کرنا تھا کہ کاغان میں رک جائیں؟ شوگران چلے جائیں؟ یا پھر کیا کریں؟
“واپس مانسہرہ چلتے ہیں” یہ متفقہ فیصلہ تھا اور ہم واپسی کے سفر کیلئے ایک بار پھر ہائی-روف میں بیٹھ گئے جس سفر کے بارے میں عبدالباسط نے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ: “کتا بنا دیا اس سفر نے”

ویسے یہ سچ ہے کہ اس سفر نے بہت تھکا دیا تھا ، اور اگر خوفناک راستے نہ ہوتے تو یقیناً ہم بڑی پکی نیند سو جاتے لیکن رات کا سفر ہو ، گھپ اندھیرا ہو ، ہیبت ناک سناٹا ہو ، پہاڑوں کے گرد گھومتے اور کھائیوں کے کناروں سے گزرتے ہوئے اترنا ہو تو سچ پوچھئے ہاتھوں کے طوطے ، حواس کے پرخچے اور جسم کے جس حصے کی جو چیز اڑ سکتی ہے سب اڑ جاتا ہے ، ہمیں تو کچھ سجھائی ہی نہ دیتا تھا کہ اگلا موڑ کب آنے والا ہے اور اس موڑ کے ساتھ ہم کس موڑ پر کھڑے ہونے والے ہیں ، وہ تو اللہ عمر دے اور بینائی مزید بڑھائے چاچا ارشاد کی جو دو گولی پیناڈول کی کھانے بعد اس طرح سے گاڑی چلا رہے تھے جیسے رستہ ہاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply