فیض کی کنپٹی اور لبرل بندوق

فیض کو اگر بنگالیوں کے ظلم پر اس لیے سانپ سونگھ گیا کہ وہ “پنجابی” تھے تو انہوں نے بنگال کے مچھیروں کے دلسوز حالاتِ زندگی پر فلم کیوں بنائی؟ فیض اگر اس لیے انقلابی شاعر نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کے شاعر تھے کیونکہ ان کی مشکل شعری لفظیات کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا تھا تو حبیب جالب کی عوامی شاعری پر “نعرہ بازی” کا دشنام کیوں لگایا گیا؟ شاعر عام انداز سے عوامی مسائل پر بات کرے تو نعرہ باز کہلائے اور اگر فنی تقاضوں کو تخلیقی مہارت سے نبھائے تو اس پر غیر عوامی ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جائے! گویا چت بھی میری پٹ بھی میری اور انٹا بھی میرے باوا کا!
لبرل حضرات کی جانب سے فیض پر اس طرح کے بچکانہ اعتراضات اٹھائے جاتے رہتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایوب خان کے خلاف طلباء تحریک میں پنڈی کے ساتھ ڈھاکہ کے طلباء کیوں شامل تھے، مولانا بھاشانی کے سوشلسٹ پروگرام کے گیارہ نکات شیخ مجیب کے چھ نکات میں کیوں بدلے، امریکا، شیخ مجیب اور ہارون برادران کا کیا گٹھ جوڑ تھا، لندن پلان کیا تھا، نوابزادہ نصر اللہ کیوں کہتے تھے کہ عوامی لیگ کے چھ نکات ایوب خان کی ایماء پر الطاف گوہر نے بنائے تھے، مودودی نے فارلینڈ سے چیک لینے اور امریکہ کے دورے سے واپسی کے بعد کیوں کہا تھا کہ “ہم پاکستان کو انڈونیشیا بنا دیں گے اور سوشلسٹوں کی زبان گدی سے کھینچ لیں گے”، مولانا بھاشانی نے کیوں کہا تھا کہ “امریکہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنا چاہتا ہے”، محمد پور میں مکتی باہنی نے اردو بولنے والے بہاریوں کا قتلِ عام کیوں کیا تھا، پیپلز پارٹی نے عوامی لیگ کے چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات کیوں مان لیے تھے، شیخ مجیب اپنی ضد پر کیوں اڑا رہا تھا اور 2 مارچ کی کال میں عوامی لیگ کے کارکنوں نے غیر بنگالیوں کا قتلِ عام کیوں کیا تھا، الغرض قومی برابری اور صوبائی خودمختاری کی تحریک مغربی پاکستان کے حکمرانوں، عالمی طاقتوں اور عوامی لیگ کے اقدامات سے علیحدگی کی تحریک کیوں بن گئی، وہ “دوقومی نظریے” پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے تاریخی حقائق سے بے بہرہ ہو کر بنگالیوں کے قتلِ عام پر صرف یکطرفہ پن سے اپنے دکھ کا اظہار کر سکتے ہیں یا فیض پر سطحی الزام تراشی کر سکتے ہیں لیکن وہ کبھی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کمیونسٹ فیض کو بنگالیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر سانپ کیوں سونگھ گیا تھا!
مارچ 1971 میں فیض نے کہا:
سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلہ
میرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے
میرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
فیض بنگال کے واقعے پر کس کے حق میں اور کس کے خلاف شاعری کرتے؟ وہ بنگال میں اپنے ہموطنوں کے ہاتھوں لہولہان ہوتے بنگالیوں کا نوحہ لکھتے یا بنگالی ہموطنوں کے ہاتھوں لہولہان ہوتے غیر بنگالی ہموطنوں کا؟
بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ فیض نے بنگال میں فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ انہیں بعد میں بنگال میں فوجی آپریشن کی حمایت کرنے پر افسوس رہا! جبکہ دوسری جانب سال 2013 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے ڈھاکہ میں “فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ” کے تحت فیض احمد فیض کو بنگال میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے پر “بنگلہ دیش کی جنگِ آذادی کا اعزازی” ایوارڈ دیا تھا جسے ان کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے وصول کیا تھا!
ن۔۔م۔راشد نے ترقی پسندوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ ادیب و فنکار پر اپنا نظریہ مسلط کر کے اس کے وژن کو مسدود کرتے ہیں. اس کی آزادی فکروِ اظہار پر قدغن لگاتے ہیں۔ سبطِ حسن نے جواب تحریر کیا تھا کہ تمام ترقی پسند فنکار و ادیب اپنی مرضی سے مکمل آذادانہ طور پر اپنے ترقی پسند وژن کے مطابق اظہارِ فن کرتے ہیں۔ ساحر، مخدوم، علی سردار جعفری وغیرہ ان سب کی کنپٹی پر کوئی ترقی پسند اپنی بندوق تانے نہیں بیٹھا ہوتا! فیض کی کنپٹی سے اپنی سطحی خواہشوں اور مطالبوں کی متعصب بندوق ہٹا لیں۔ فیض کے وژن کو سمجھنے کی کوشش کریں تو سمجھ آجائے گا کہ اس نے جو لکھا وہ کیوں لکھا اور جو نہیں لکھا وہ کیوں نہیں لکھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فیض آزادی فکر و اظہار کہ دعویداروں کی مرضی کا کیوں نہیں لکھا؟ فیض احمد فیض کمیونسٹ تھے۔ ان کی شاعری ان کے نظریاتی جذبات و احساسات کا پرتو تھی۔ گو آپ کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ آپ نے تو دنیا کے اس سب سے انسان دوست اور انسانیت پرور نظریے کو انسان دشمن بنا کر پیش کرنے کا چلن اپنایا ہوا ہے۔ سو آپ سے کیا گلہ؟ آپ نے تو پریم چند اور کرشن چندر جیسے عظیم ادیبوں کی جگہ جدیدیت کے نام پر منٹو کا بت ایستادہ کر رکھا ہے! آپ عوام کو اس احساس جرم و ندامت میں قید رکھنا چاہتے ہیں جس کے مجرم عوام کبھی تھے ہی نہیں۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply