• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آئینی ترمیم تو پارلیمنٹ کرے گی لیکن تینوں ستونوں کے محافظوں کو بتانا ضروری ہے ؛ اعظم معراج کا چیف جسٹس کو خط

آئینی ترمیم تو پارلیمنٹ کرے گی لیکن تینوں ستونوں کے محافظوں کو بتانا ضروری ہے ؛ اعظم معراج کا چیف جسٹس کو خط

10اپریل 2024
قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس آف پاکستان
کورٹ نمبر 1
سپریم کورٹ اسلام آباد
محترم چیف جسٹس صاحب
اسلام و علیکم

میں اس خط کے ذریعے آپکی توجہ اس ملک کے تقریباً ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کے ایک اہم ،سیاسی ،سماجی اور آئینی مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ گوکہ مجھے اندازہ ہے کہ اس مسلئے کا حل مقننہ نے کرنا ہے ۔۔ لیکن کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک کروڑ کے قریب پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو چاہے وہ آئین کی روح سے دوسرے نمبر کے ہی شہری ہیں، ان کو مطمئن کرکے ان کا ریاست سے رشتہ مضبوط کرنا ریاست کے تینوں آئینی ستونوں کے رکھوالوں کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے میں یہ خط آپکو لکھ رہا ہوں ۔

اس ملک کی مذہبی اقلیتوں پر قیام پاکستان سے لے  کر آج تک 16انتحابات میں 5 بار 3 انتخابی نظام آزمائے گئے ۔ یہ پاکستان کی سیاسی ،ریاستی،حکومتی،اور دانشور اشرفیہ کی اور اقلیتوں کے ہر دور کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ ہر نظام کے چند بینفشریز کو چھوڑ کر مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان سے مطمئن اور خوش نہیں ہوئی ۔۔ پہلی 2اسمبلیوں میں جداگانہ طریقہ انتحاب تھا ۔اس وقت الیکٹرول کالج محدود ہونے کے باوجود جوگندرا ناتھ منڈل کے استعفی میں اس نظام میں تبدیلی پر سوچ بچار کا پیغام اس وقت کی ریاستی و سیاسی اشرفیہ کو دیا گیا تھا۔ شاید اسی وجہ سےاگلی 3 اسمبلیوں کے انتخابات مخلوط طریقہ انتخاب سے ہوئے ۔جس میں مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بہت مشکل ہے ۔یہ نظام 3 بار آزمایا گیا ۔ تینوں بار میں صرف ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکا۔جس پر مسیحیوں نے احتجاج کیا ۔شہادتیں ہوئیں  ،شہیدوں کے خون کے صدقے طے ہو گیا،کہ اقلیتوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دی جائے گی ۔ثبوت اس کا یہ ہے  کہ اکیس نومبر 1975کو چوتھی آئینی ترمیم ہوئی۔جس میں موجودہ نظام متعارف کرایا گیا ۔1977کے الیکشن اسی نظام کے تحت ہوئے ۔ مارشل لاء لگ گیا، مذہبی اقلیتوں نے احتجاج کیا،کہ ہمارے نمائندے سیاسی اشرفیہ کیوں  چُنے ۔؟۔ضیاء الحق نے جداگانہ طریقہ انتخاب دے دیا,جس کا اچھا پہلو یہ تھا کہ اس میں اقلیتوں کی لیڈر شپ ابھری ہر مذہبی اقلیت کو حصہ بقدر جثہ ملا ۔لیکِن اس نظام کا دوسرا پہلو بڑا غیر جمہوری، غیر انسانی تھا ۔اس میں اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ جسکے نتیجے میں دھرتی کے  ایک کروڑ  بچے سیاسی ناپاک شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیئے گئے۔یہ نظام پہلی 2 اسمبلیوں اور 1985سے 1997تک 5 بار مجموعی طور پر 7 بار آزمایا گیا ۔۔ اقلیتیں خصوصاً مسیحی احتجاج کرتے رہے ۔ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے پھر وہی چوتھی آئینی ترمیم والا نظام بحال کر دیا ۔ اس میں اقلیتوں کا قومی ووٹ بحال ہوا ،جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق بحال ہوا۔ لیکن اقلیتوں کے 38نمائندے چُننے کا اخیتار چند لوگوں کے پاس چلا گیا۔موجودہ قومی اسمبلی میں صرف 3 شخصیات کی مرضی و منشاء سے ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر 9 نمائندے تشریف فرما ہیں،دسویں کو کوئی ایک اور شخصیت چن لے گی۔ یہ انتہائی غیر جمہوری اور جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔ وہ ہی سلیکشن جس کا دھبہ  کسی قومی لیڈر پر لگ جائے تو وہ جمہوری کلنک بن جاتا ہے ۔ اسکے اچھے پہلوؤں کے ساتھ یہ خامی بہت ہی غیر جمہوری ،جمہوریت کی روح کے منافی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ۔۔کہ ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں جو کہ مختلف مذاہب کو ماننے والے ہیں ،ہر مذہبی گروہ کی اپنی سماجی باریکیاں ہیں۔ یہ کوئی دوسرے مذہب کو ماننے والا کیسے سمجھ کر انکی مذہبی شناخت پر نمائندگی کا حق دار کسی بھی اپنے پارٹی ورکر کو نامزد کرسکتا ہے ۔؟

تحریک شناخت نے برصغیر کی اقلیتوں کے لئے مختلف ادوار میں وضع کئے گئے انتخابی نظاموں کو 1909سے حالیہ انتخابات تک کے ان نظاموں کے بغور مطالعےاور انکی خوبیوں خامیوں کے جائزے سے دس سال کی مسلسل عرق ریزی وتحقیق سے اقلیتوں کی امنگوں ،پاکستان کے تاریخی معاشرتی ومذہبی پس منظر موجودہ معروضی حالات بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے مطابق اقلیتوں کے لئے ایک انتخابی نظام کا مکمل لائحہ عمل دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آئین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے ساتھ تیار کیا ہے،، جو انتہائی بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔۔۔ جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ،

“اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مذہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مذہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔۔۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔” اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والے انتحاہی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بذریعہ سلیکشن کی جاتی ہے۔۔ کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے ۔”

اس مطالبے کی بنیاد اس نقطے پر ہے، کہ جب ریاست و حکومت نے آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے ذریعے یہ فیصلہ کرہی لیا تھا۔کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے ۔اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ضروری ہے۔ تو پھر تین یا چار سیاسی اشرفیہ کے لوگ ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق کیسے لے سکتے ہیں ہر مذہبی گروہ کے اندر کی مذہب سے جڑی باریکیوں کو اس مذہبی گروہ کی اجتماعی دانش ہی سمجھ سکتی ہے ۔۔اس لئے مذہبی نمائندگی کا حق اسی کمیونٹی کو ہی اجتماعی طور پر ہونا چاہیئے۔۔ جس کی شناخت پر وہ نمائندہ چنا جائے ۔

یہ مکمل لائحہ عمل و تین نکاتی مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں متاثرین و ذمہ دارین کو آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضاکار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،خطوط ودیگر ذرائع سے تقریباً دہائی سے متاثریں و ذمہ دارین کو دے رہےہیں ۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کا مقننہ کے نام پر بھی یہ فیصلہ چند شخصیات نے ہی کرنا ہے ۔۔ میں اپنے تعارف کے ساتھ اس کتابچے کی ایک کاپی بھی آپ کو بھیج رہا ہوں ۔ اس میں،میں نے آئین کی روح سے بھی اس مطالبے کے حق میں دلیلیں دی ہیں ۔ آپ بھی دیکھیں،کہ آپ اس میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں دنیا بھر کی کو اقلیتوں کو” پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء” دیتی فکری تحریک ، تحریک شناخت کا رضاکار ہوں۔ اس فکری تحریک کا  نہ کوئی انتخابی سیاسی،نہ مذہبی ایجنڈا ہے۔ اور نہ یہ کوئی این جی او ہے  ۔اس لئے ہمارے   تئیں آئینی پٹیشن کے لئے تگڑا وکیل کرنا بھی مشکل ہے ۔ پھر جب یہ بھی صاف ہے، کہ یہ معاملہ حل ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی ہونا ہے ۔۔ لہذا آپ کو مقننہ کو یاد دہانی کے لئے اگر کسی پینشنرز کی ضرورت ہو تو میں خود کراچی رجسٹری میں پیش ہوسکتا ہوں۔آپ برائے مہربانی اس خط کو ہی آئینی پٹیشن سمجھ لیں ۔۔اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی ہے  کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلاً بچے ،عورتیں اور اقلیتیں کتنی خوش اور مطمئن ہیں ۔ اور آپکا جڑانوالہ کا دورہ اس بات کی گواہی ہے۔ آپ اس نقطے کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔

والسلام

آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج

رضاکار تحریک شناخت
منسلک
1.کتابچہ” تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کا جائزہ.یہ کیوں ضروری ہے ۔؟ اور کیسے ممکن ہے ؟۔

2.تعارف تحریک شناخت

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply