ہمارے ہاں باقاعدہ اخبار کا انتظار صبح سویرے باہر بیٹھ کر کیا جاتا تھا۔ جونہی ہاکر اخبار گیٹ کے اوپر سے پھینکتا، اسے جھپٹ لیا جاتا۔
مگر سب سے پہلے پڑھتے اسے والد محترم ہی تھے۔
اخبار ان سے فارغ ہوتا تو اس کی بندر بانٹ شروع ہو جاتی۔ اندرونی صفحے والدہ محترمہ اور ہمشیرگان مہربان لے اڑتیں، ہم باہر کے صفحے پر قناعت کر کے اسے رٹنے لگتے۔
کوئی انوکھی دلچسب خبر ہوتی تو اسے بآواز بلند یوں پڑھا جاتا گویا منادی کرتے ہوں۔ سارا محلہ سن لے اور یقین نہ کرتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے خبر دیکھنے کے لیے جھٹ پٹ آ کر اخبار مانگنے لگے۔
اس زمانے میں فرنٹ پر بڑی بڑی خبروں کی شہہ سرخیاں لگائی جاتیں اور چند سطروں کے بعد خبر کاٹ کر بقایہ خبر کے لیے نمبر شمار اور اس صفحے کا نمبر دے دیا جاتا جہاں باقی حصے کو ڈھونڈا جا سکے۔
ہمیں یوں خبروں کا تیا پانچہ کرنا کبھی خوش نہ آیا۔ خبر کا سر ہمارے پاس ہے، پیر کی خبر ہی نہیں، دھڑ میں تو پکوڑے لپیٹ کر پڑوسن کو بھجوا دیے گئے۔ لو کر لو گل۔۔۔
امریکہ آ کر بھی یہی معمول رہا۔
اخبار آتے ہی والد بزرگوام کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا جاتا۔ وہ باری رحمت کے حضور پیش ہو گئے تو ان کی گدی ہم نے اور ہماری گدی برخوردار نے سنبھال لی۔
اخبار کی ہڈی بقول شخصے ہم گویا باقاعدہ ربن کاٹ کر توڑنے لگے۔
مڑا تڑا، پہلے سے پڑھا ہوا اخبار من سے یوں اتر گیا جیسے عیاش دولہا کے من سے چوتھی کی دلہن۔۔۔
ہمیں تو کڑکڑاتا ہوا، پاکیزہ، باکرہ، ان چھوا اخبار ہر روز صبح سویرے چاہیے تھا، جس کے کنوارے لمس سے نویلی دلہن کے گھونگھٹ اٹھانے کا سا نشہ چڑھتا ہو۔
دنیا کی ہر خیر خبر گھرانے میں سب سے پہلے ہمیں ملی، بھلا اس اطمینان کی بھی کوئی قیمت ہے؟
گرما گرم چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ پیر پھیلائے کمبل اوڑھے صوفے پر نیم دراز اخبار پڑھتے ہوئے انسان خود کو ہفت اقلیم کا بادشاہ تصور کرتا تھا۔۔۔
ہائے وہ زمانے ہوا ہوئے۔۔۔۔
بکھری ہے داستاں بھی فسانے ہوا ہوئے
کیسی چلی ہوا کہ زمانے ہوا ہوئے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں