سانحہ نوشکی/عامر حسینی(2،آخری حصّہ)

اسی طرح ایک سوال خود بلوچستان کے اندر رہنے والے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ان کے آئینی ، قانونی حقوق کا ہے ۔
کیا بلوچستان کے اندر موجود سویلین و فوجی سکیورٹی و انٹیلی جنس آپریٹس آئین و قانون اور عالمی انسانی حقوق کے اعلامیے کے اندر رہ کر کام کر رہا ہے؟ کیا یہ آپریٹس پاکستان کے آئین و قانون کی پاسداری کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہی دیا جا سکتا ہے ۔ اس سکیورٹی آپریٹس پر اپنے  روزمرہ کے کام اور خصوصی سرچ اور سکیورٹی آپریشن کے دوران آئین، قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کو ہزاروں مرتبہ روندنے ، ماورائے عدالت و قانون لوگوں کو اغواء کرنے، انھیں نجی عقوبت خانوں میں رکھے جانے ، جبری گمشدہ بنائے جانے اور مار کر ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دیے جانے کے الزامات ہیں اور ایسے واقعات میں اس آپریٹس سے وابستہ افسران اور اہلکاروں کے ملوث ہونے کے بہت سارے شواہد، ثبوت بھی موجود ہیں ۔ لیکن آج تک ان پر کوئی قرار واقعی کاروائی دیکھنے کو نہیں ملی اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کے خلاف پنجاب میں خاص طور پر کوئی شدید عوامی ردعمل دیکھنے کو ملا ہے جس سے اسلام آباد پر کوئی دباؤ پڑتا اور وہ اس ریاستی تشدد اور نسلیاتی صفائی کے عمل کو روکنے میں سنجیدگی دکھاتی ۔

بلوچستان میں موجود سویلین و فوجی اور انٹیلی جنس آپریٹس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس کا کنٹرول پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت کے پاس ہے اور بلوچستان میں جنرل مشرف کے دور سے نجی مسلح ڈیتھ اسکواڈ کی تشکیل جن پر بلوچ قوم پرست ، ہزارہ شیعہ کی نسلی صفائی کے آپریشن میں شریک ہونے کا الزام ہے کا کنٹرول بھی اسی کے پاس ہونے کا الزام ہے ۔

بلوچستان کی عوام میں ہی نہیں بلکہ اب پورے پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ جنرل مشرف کے زمانے سے فوجی اسٹبلشمنٹ بلوچستان میں عوامی نمائندگی کے سیٹ اپ میں حقیقی سیاسی قوتوں کی حصہ داری کو بتدریج کم کرتے کرتے اسے بالکل غائب کرکے پورے سیاسی سیٹ اپ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور موجودہ بلوچستان کی حکومت میں گورنر، چیف منسٹر اور بلوچ کابینہ ان کی تشکیل کردہ ہے ۔ چیف منسٹر پر تو الزام ہے کہ وہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ایک ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ تھے جن کو اب بلوچستان کا چیف منسٹر بنا دیا گیا ہے ۔ بلوچستان کی سویلین انتظامیہ پر مکمل کنٹرول کا یہ منصوبہ کہا جاتا ہے باپ پارٹی کی تشکیل سے شروع کیا گیا تھا جس کا عروج فروری 2024ء کے عام انتخابات کے دوران دیکھنے کو ملا۔

بلوچستان کے وسائل پر قبضہ اور بلوچستان کی کالونائزیشن میں بلوچستان میں ابھرنے والے تشدد کی جڑیں پیوست ہیں اور اب یہ مسئلہ اس قدر زیادہ شدید ہوگیا ہے تو اس کی وجہ جنرل مشرف کے دور سے پاکستانی سرمایہ داروں ( ان میں ریاستی سرمایہ داری بھی شامل ہے) کی چینی سرمایہ کاری سے سٹریٹجک پارٹنر شپ ہے جس کا انتہائی اظہار سی پیک ہے جس میں بلوچ عوام   کی بھاری اکثریت میں شراکت اور اس کے ثمرات اٹھانے کا کوئی احساس موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ سے پہلی بار بلوچستان میں جو قومی تحریک ہے اس کا حصہ بلوچ آبادی کی مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس ہے جس سے اس تحریک کی جڑیں گراس روٹ لیول تک مضبوط نظر آ رہی ہیں ۔

بلوچ عوام اور اس کی عوامی دانش کی اکثریت سی پیک کو سامراجی اور نو آبادیاتی منصوبہ سمجھتی ہے اور اسے اس سے فائدے کی کوئی امید نہیں ہے ۔ اس نے اس منصوبے کی حامی بلوچ سیاسی قیادت کو بھی مسترد کردیا ہے۔ جبکہ وہ ملک گیر سیاسی جماعتوں جیسے مسلم لیگ نواز ، پی پی پی اور پی ٹی آئی ہیں ،ان کی قیادت کی سی پیک میں شراکت کو اپنی نسل کشی میں حصہ داری کے مترادف سمجھتی ہے ۔

بلوچستان میں جب تک سامراجی ، نو آبادیاتی سوچ اور عمل جاری و ساری ہے تب تک مظلوموں کا جوابی ردعمل جس کی ایک انتہائی شکل بلوچ گوریلا تنظیموں کے ایک سیکشن کی طرف سے بندوبست پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی جارح اور قبضہ گیر قرار دے کر مارے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ کیونکہ بلوچستان کے وسائل سے مستفید ہونے اور اس سے پنجاب سمیت پاکستان کے بڑے اربن مراکز میں ترقی اور وسائل کے ارتکاز کا سب سے بڑا بینفیشری پنجاب ہے اور پنجاب میں ابھرنے والی معتدبہ مڈل کلاس نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اگرچہ خود پنجاب میں بھی یہ ترقی مساوی ہرگز نہیں ہے اور بہت ناہموار ہے اور یہاں محنت کش طبقات جن میں شہری اور دیہی غریبوں کی تعداد بہت زیادہ ہے وہ زبردست استحصال ، جبر اور ظلم کا سامنا کر رہے ہیں ۔ لیکن ان طبقات کے شعور کو مذہبی بنیاد پرستوں نے خاص طور پر بہت پسماندہ بنا رکھا ہے اور یہاں پر ریاستی پاکستانی نیشنل ازم کا پروپیگنڈا ان کو دیگر اقوام کے خلاف شاؤنزم کے جذبات سے بھرا رکھتا ہے۔ ویسے بھی پنجاب میں محنت کش طبقات بشمول شہری و دیہی غریبوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی سیاسی آواز موجود نہیں ہے۔

پنجاب پر یا تو سرمایہ داری کی نمائندہ روایتی جماعت مسلم لیگ نواز کا زور ہے یا پنجاب کی پیٹی بورژوازی شہری اور دیہی پڑھی لکھی پرتوں کی سیاست کرنے والی پی ٹی آئی کا زور ہے۔ پنجاب میں روایتی لیفٹ اور سوشل ڈیموکریسی کی سیاست بتدریج نیو لبرل ازم اور لبرل لیفٹ کے گڑھے میں گر کے اپنا اثر محنت کش طبقات بشمول شہری و دیہی غریبوں پر کھو بیٹھی ہے۔ پرانا لیفٹ اور پیپلزپارٹی کا سنٹر لیفٹ بالکل ہی بانجھ ہوچکا ہے ۔ پیپلزپارٹی میں ان کی جگہ زمیندار اشرافیہ اور متوسط طبقے کی موقع  پرست سیاسی کلاس نے لے لی ہے جو پنجاب کی نہ تو نوجوان مڈل کلاس کے کسی قسم کی کشش رکھتی ہے اور نہ ہی محنت کش طبقات کو متاثر کرتی ہے۔

پنجاب میں بڑی اور درمیانے بورژوازی جس میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں کی بورژوازی و پیٹی بورژوازی شامل ہے وہ براہ راست یا بالواسطہ ریاست کی کالونائزیشن پر مبنی پالیسیوں کی بینیفشری ہے اور اس کے بلاشبہ ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جن کے افراد سویلین اور فوجی و انٹیلی جنس سیکورٹی  آپریٹس اور پاکستان کی ایم پی گریڈ کلاس اور وفاقی بیوروکریسی کا حصہ ہیں اور یہ اس پاکستانی نیشنلزم کے سب سے بڑے حامی ہیں جسے سیکورٹی آپریٹس سب سے زیادہ نشر کرنے کا  انتظام کرتا ہے اور اسی کا بیانیہ مین سٹریم ہے ۔ اس طرح کے نیشنلزم کے بڑے نتائج سب سے زیادہ پنجاب کے محنت کش اور شہری و دیہی غریب بھگت رہے ہیں اور اگر ہم بندوبست پنجاب میں اس کے سب سے بڑے متاثرہ نسلیاتی ثقافتی گروہ کے محنت کش طبقات بشمول شہری و دیہی غریب تلاش کرنا چاہیں تو وہ سرائیکی خطے کے لوگ ہیں ۔

اس وقت سرائیکی وسیب کی سیاست پر بھی اس وسیب کی ایک تو پرانی روایتی زمیندار سیاسی اشرافیہ قابض ہے تو ساتھ ہی اس پر اس خطے میں گزشتہ 20 سالوں میں ابھرنے والی شہری و دیہی پیٹی بورژوازی سے تعلق رکھنے والی مستحکم سیاسی کلاس غالب ہے جس کا ثبوت اس خطے کی 46 کے قریب قومی اسمبلی اور 100 کے قریب صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے منتخب ہونے والی اور دوسرے نمبر پر رہنے والی سیاسی شخصیات کے سماجی معاشی طبقاتی حیثیت سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ان میں سرائیکی نیشنلزم کے ترقی پسندانہ قوم پرستی کے خیالات بالکل بھی نظر نہیں آتے جو کم از کم پنجاب میں غالب شاؤنسٹ و نیو کالونیل پاکستانی نیشنلزم کو کسی بھی قسم کا چیلنج یا چتاونی دینے کی طرف مائل نہیں ہیں حالانکہ اس خطے کی دیہی آبادی اور اس کے وسائل کو خاص طور پر زرعی زمینوں ، جنگلات ، صحرا کو زبردست قبضہ گیری اور حملہ آوری کا سامنا ہے۔صرف چولستان میں 40 لاکھ ایکٹر سے زائد زرعی رقبہ فوجی فاونڈیشن کی ذیلی کمپنی گرین انٹرپرائز نے اپنے قبضے میں لیا ہے اور یہاں کے چھوٹے کسانوں کو ایگرو بیسڈ کارپوریٹ بزنس کی طرف سے زبردست استحصال کا سامنا ہے ۔ ملتان اور بہاولپور میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی نے آم اور کینو کے سینکڑوں باغات ، ہزاروں ایکٹر زرعی رقبے اور 500 کے قریب پرانے موضعات کا نام و نشاں مٹا دیا ہے۔ جبکہ سرائیکی وسیب کے لاکھوں محنت کش مرد و خواتین کو بڑے شہری مراکز اور خود بلوچستان کے جنگ زدہ علاقوں میں مزدوری کرنے کے لیے ہجرت پر مجبور کیا ہے اور ایسے ہی معمولی ہنرمند اور غیر ہنرمند سرائیکی مزدوروں کو مڈل ایسٹ کے ممالک کی طرف دھکیلا ہے لیکن اس وسیب کی سیاسی اشرافیہ کو اتنے بڑے ظلم اور جبر کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

بندوبست پنجاب میں جب تک بلوچستان کی کالونائزیشن ، سامراجیانے پر مبنی ترقی کے ماڈل جس میں سی پیک کی موجودہ شکل بھی شامل ہے کے خلاف زبردست عوامی ردعمل اور تحریک کھڑی نہیں ہوگی اور وہ حکمرانوں کو شٹ اپ کال نہیں دیں گے تب تک جوابی تشدد میں شامل نسلی شاونزم کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں ملے گی ۔

ایک عام خیال یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات پنجابی شہریوں کے قتل کی وارداتوں کو بلوچستان میں جاری کالونائزیشن ، وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے جاری ریاستی جبر و تشدد کے لیے بندوبست پنجاب سے مکمل جواز اور حمایت کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بند و بست پنجاب کے محنت کشوں کو بلوچستان پر مسلط جنگ کا ایندھن بنانے کی ہی پالیسی کا حصہ ہے اور اس خیال کے حامی بند و بست پنجاب میں رہنے والے پنجابی اور سرائیکی محنت کشوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہشیار باش۔۔۔

جب بھی کوئی قوم قبضہ گیری، حملہ آوری، نو آبادیائے جانے اور زبردست قومی جبر و ظلم کا نشانہ بنتی ہے تو وہاں سب سے مقبول اور پاپولسٹ رجحان قوم پرستی ہوا کرتا ہے اور اس رجحان میں دو کلچر ہوتے ہیں ایک اس قوم کے محنت کش طبقات کا ، دوسرا اس قوم کے بورژوا و پیٹی بورژوازی کا ہوتا ہے اور آخر الذکر کلچر بار بار شاونزم اور محنت کشوں کے درمیان نسلیاتی ثقافتی/ایتھنک بنیادوں پر تقسیم کو ہوا دیتا ہے مظلوم قوم پرستی میں ترقی پسند اور رجعت پرست دونوں رجحانات ہوتے ہیں جبکہ جو ظالم حکمران طبقات کی قوم پرستی( جیسے پاکستانی نیشنلزم ہے) ہوتی ہے وہ سوائے شاونزم کے کچھ نہیں ہوتی اس کا مقصد اول و آخر ظلم و جبر کو جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس ماحول میں ایک مارکس واد نظریات کے حامل گروہ کا کام جہاں ظالم حکمران طبقے کے نیشنلزم کے خلاف محنت کشوں میں شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے وہیں اس کا کام مظلوم قوم کے بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی موقعہ پرستی کو پوری شدت سے بے نقاب کرنا اور قومیتی تضاد کو طبقاتی تضاد سے جوڑ کر دیکھنے اور دکھانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ بہت مشکل ترین کام ہے اور اکثر مظلوم قوم اور ظالم حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی اقوام شاونزم کے سیلاب میں بہہ جاتی ہیں جس سے مکمل بربریت کا منظر دکھائی دیتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply