ہم سب مجرم ہیں۔۔سانول عباسی

جب سے زینب بیٹی کا واقعہ ہوا ہے تب سے کچھ بھی لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں تو اس کا تشدد زدہ چہرہ میرے سامنے آ جاتا ہے اس کی چیخیں میری سماعتوں میں گونجنے لگتی ہیں اردگرد کے ماحول پہ وحشت سی چھا جاتی ہے خوف و ہراس میری ذات کو گھیر لیتا ہے اور اس خوف سے بدن کانپنے لگتا ہے قلم رکھ کے سوچوں میں کہیں گم ہو جاتا ہوں اپنا آپ سوالیہ نشان بن کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں کیا ہمارا سماج انسانی سماج کہلائے جانے کے لائق ہے ؟سوچتے سوچتے میری سوچ پاتال کے اندھیروں میں کہیں گم ہو جاتی ہے جہاں فقط خوف و ہراس، ہوس، بےراہ روی اور ظلم پلتا ہے اور انتہائی شدت سے مجھے اپنے سماج سے گھن آنے لگتی ہے اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگتی ہے اپنے انسان ہونے پہ قلق سا ہونے لگتا ہے۔

بہت سے دوستوں نے کاٹ دار طنز کے ساتھ مجھ سے استفسار کیا اور انباکس میں بھی بار بار یہی سوال دہراتے رہے کہ آپ نے اس بار قلم کو زحمت نہیں دی، آپ کا دل نہیں پسیجا، کیا ہوا آپ تو کہتے ہیں کہ شاعر حساس ہوتا ہے دکھ محسوس کرتا ہے درد کی شدت کو سمجھتا ہے مگر اب کی بار کیا ہوا! کیوں نہیں لکھا، میں کیا بتاؤں ان دوستوں کو کہ کیوں نہیں لکھا جو زینب بیٹی پہ بیتی ہے اسے کیسے بیان کروں، میں کس طرح اس ظلم و بربریت کو بیان کروں جو زینب بیٹی نے برداشت کی ،ایک باپ کیسے بیان کرسکتا ہے اس کیفیت کو جو بیٹیوں پہ گزرتی ہے، ظالمو! بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں ان کے دکھ ان پہ گزری بربریت کوئی داستان یا کوئی قصہ نہیں کہ اسے بیان کیا جائے بلکہ وہ تو سانحہ ہوتا ہے اور سانحات پہ ماتم کیا جاتا ہے، تم پوچھنے کی بجائے محسوس کیوں نہیں کرتے اگر محسوس نہیں کر سکتے تو اتنی شرم تو کر لو کہ کسی باپ سے یہ تو نہ پوچھو کہ بتاؤ درندوں نے تمھاری بیٹی کو کس طرح جھنجوڑا، سمجھ کیوں نہیں لیتے کہ بیٹیوں کے دکھ بیٹیوں پہ گزرے ظلم و بربریت کے لمحات لفظوں میں بیان نہیں ہوتے اور نہ ہی لفظ ایسی کسی کیفیت کو بیان کر سکنے کے اہل ہیں۔

کیا لکھوں کیسے لکھوں ان چیخوں کو کیسے بیان کروں جو دلوں کو چیر دیتی ہیں، تن بدن میں آگ سی لگا دیتی ہیں، لفظ بےمعنی سے لگنے لگتے ہیں دھڑکنیں بےربط ہوجاتی ہے اور غصہ و غم کی کیفیت سے بدن کپکپانے لگتا ہے ہم انسان ہیں کیا انسان ہونا اسے کہتے ہیں جب گوشوارے اٹھا کے دیکھے تو حیران رہ گیا کہ ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو روز ہوتے ہیں نہ جانے کتنے گھر برباد ہو چکے ہیں اور ان میں کمی نہیں آ رہی بلکہ تواتر کے ساتھ تعدد سانحات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم مردہ ضمیر مردہ قوم جس پہ بیتتی ہے وہی جانے کے مصداق لکیر پیٹ کے بیٹھ جاتے ہیں اور کتنے دکھ اور اذیت سے کہنا پڑتا ہے کہ جو لوگ ایسے گھناؤنےکاروبار میں ملوث ہیں اور دیدہ دلیری سے ایسے مکروہ لوگوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، ہم نے زنجیر عدل بھی انہی ہاتھوں میں تھما رکھی ہے۔

ابھی زینب بیٹی کے سانحے کو گزرے کچھ لمحے ہی ہوئے تھے کہ ایک اور خبر آئی کہ فیصل آباد میں کسی بچے کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا پھر خبر آئی کہ کسی ہسپتال میں مفلوج مریضہ کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا ہے پھر خبر آئی کہ کچھ عرصہ پہلے اسی شہر قصور میں بچوں کے ساتھ تشدد اور جنسی درندگی کی ویڈیوز بنا کر انہیں فحش سائٹ پہ بیچا گیا اور جب تحقیق ہوئی اور کچھ لوگ پکڑے گئے تو پتہ چلا کہ حکومتی کارندے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھے اور وہ باعزت بری ہو گئے اور ابھی خبروں کا سلسلہ چل رہا تھا کہ خوف کے مارے ٹی وی ہی بند کر دیا کہ ہمارے پاس تو لگتا ہے صرف یہی ہو رہا ہے۔

آج تین چار دن کے بعد دوبارہ ٹی وی آن کیا تو ایک نیوز چینل پہ ٹاک شو چل رہا تھا تو ایک حکومتی عہدے دار راگ الاپ رہا تھا کہ یہ اور اس جیسے واقعات والدین کی بے توجہی کی وجہ سے ہوتے ہیں حکومت ذمہ دار نہیں ہم کوشش کر رہے ہیں اور کون سا ایسا ملک ہے جہاں ایسے واقعات نہیں ہوتے اور اس کی بےحسی کی انتہا اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ اس واقعہ کو صوبائی تعصب  کا شاخسانہ قرار دیا کیونکہ یہ واقعہ پنجاب میں ہوا ہے اسی لئے اچھالا جا رہا ہے چینل چینج کیا منظر بدلا تو ایک تصویر نظر سے گزری جس میں 300 بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کر کے ان کی ویڈیوز بنا کر کاروبار کرنے والے درندے حکومتی اہل اقتدار کے دائیں بائیں کرسیوں پہ براجمان تھے۔

کس پہ افسوس کیا جائے کس کو مورود الزام ٹھہرایا جائے کون ہے دادرسی کرنے والا ؟عدلیہ، ادارے، مقننہ یا میڈیا کون ہے جس کو جا کے اپنے  کرب کی داستاں سنائی جائے سب ہی تو ملے ہوئے ہیں کس کو نہیں پتہ کہ کہاں کیا ہو رہا ہے جب خود پشت پناہی کر رہے ہیں تو ان کو کیا غرض کہ ہمارے بچوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہ زندہ ہیں یا مر رہے ہیں ہمارے بچے تو ان کے پالتو درندوں کی ظرافت طبع کے لئے ہیں پوری ایمانداری سے ساری حکومتی و سیاسی مشینری کو دیکھیے  کسی کو بھی دیکھ کے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کوئی دکھ ہے یا کوئی پچھتاوا ہے بلکہ سب اپنی اپنی سیاست کے چکر میں تصویریں بنوا رہے ہیں کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ جو معصوم مسکراہٹیں ظلم، بربریت اور جنسی تشدد کے نتیجہ میں موت کی وادیوں میں دھکیل دی گئی ہیں ان کا ازالہ کیسے ہو اور ان والدین کے دلوں پہ کیا قیامت گزر رہی ہے جن کی  آنکھوں کا نور اس طرح وحشیانہ بربریت کی نظر ہو گیا ہے۔

کس پہ لکھا جائے اور کس پہ نہ لکھا جائے اپنی بےوقوفانہ بےحسی مجرمانہ خاموشی پہ لکھوں یا اہل اقتدار کی عیارانہ بےحسی و درندگی پہ لکھوں! عجیب کشمکش ہے ہم سماجی طور پہ انتہائی پستی کا شکار ہیں ہم سب ہی اس سانحہ کے ذمہ دار ہیں ہم کوئی قوم نہیں کوئی امت نہیں اپنے اپنے طور پہ درندوں سے بھی بدتر قسم کی کوئی مخلوق ہیں جو اپنی ہی نسل کے درپے ہے، ہم آدم خور درندے اپنی ہی جنس کے دشمن ہیں، ہمارے اوپر مسلط درندے کسی آسمانی غیبی طاقت نے ہم پہ مسلط نہیں کیے  بلکہ ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کیے  ہیں جب بھی وقت آتا ہے اپنے کسی نمائندے کے چناؤ کا تو سماجی طور پہ انتہائی کرپٹ ترین کردار ہمارا نمائندہ  بن جاتا ہے کوئی شریف النفس انسان اس کے مقابل اول تو آتا نہیں گر آ بھی جائے تو ہم لوگ اس کی اتنی تضحیک کرتے ہیں کہ وہ بیچارہ منہ چھپاتا پھرتا ہے اور وہ کرپٹ ترین درندہ جب ہمارا خون پیتا ہے ہمارا بدن نوچتا ہے تو ہم کرب و اذیت کی کیفیت میں بلبلا اٹھتے ہیں لیکن اب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی مجرم کو کیسے   کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے جب قاتل ہی کرسیوں پہ براجمان ہوں عادل کے ہاتھ جب ہوس پرستانہ خون میں رنگے ہوں تو معاشروں میں جرم پلتا ہے ظلم بربریت و لاقانونیت کا راج ہوتا ہے اصلاح نہیں ہوتی۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہم سب مجرم ہیں۔۔سانول عباسی

  1. قلم اٹھانے کی کوشش کریں تو ہاتھ مفلوج ہیں، بولنا چاہیں تو زبان گنگ ہو چکی ہے.

Leave a Reply