بابائے نظریہ ارتقا ہے/توقیر بھملہ

انسانی زندگی میں عقل، عقلِ سلیم، علم اور خواہش ہونے کے باوجود ہر شے پر تقدیر کا ہاتھ حاوی ہے جس سے کسی ذی روح کو مفر حاصل نہیں ہے۔

وہ شخص جس نے نوع انسانی اور دیگر حیاتیاتی انواع کے متعلق دنیا کو سوچ کی نئی جہت عطا کی اور اپنا زیادہ تر وقت ایسے سفر کرتے ہوئے گزارا جس کے دوران زمین پر سے مختلف اشیاء کے ہزاروں نمونے اکٹھے کیے جن میں پودوں، جانوروں، چٹانوں اور دیگر حیاتیاتی فوسلز کے نمونے شامل تھے۔ بعد میں ماہر فطرت اور ماہر حیاتیات کی حیثیت سے شہرت کی بلندیوں کو چھوا، اور “نیچرل سلیکشن” کے ذریعے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا۔ یوں اسے بنیادی طور پر “natural selection” کے ذریعے نظریہ ارتقاء کے معمار کے طور پر جانا جانے لگا۔

وہ شخص جو اپنے تئیں انسان کی بقا، فنا اور ارتقاء کا راز جان گیا اور نہ صرف جان گیا تھا بلکہ “آن دی اوریجن آف اسپیسز” کی اشاعت کے ساتھ دنیا پر آشکار بھی کر گیا تھا۔ ایسا شخص جو انسان کے حیاتیاتی اسرار سے واقف ہو چکا ہو اور اسی فلسفیانہ فکرکے تحت ایک دن بیٹھ کر کاغذ پر قلم سے دو خانے بنائے اور ایک خانے میں لکھے کہ شادی کیوں کرنی چاہیے اور ایک خانے میں لکھے کہ شادی کیوں نہیں کرنی چاہیے:

پھر ان دونوں خانوں میں حسبِ عنوان وجوہات درج کرے جس میں شادی کیوں کرنی چاہیے میں: “بچے، ” “عمر بھر کی رفاقت” (بڑھاپے میں تنہائی کا رفیق)، جو پالتو کتے سے کسی بھی طرح بہتر ہے” اور پھر “کوئی ایسا شخص جو گھر کی دیکھ بھال کرے”۔

اور دوسرے خانے میں شادی کیوں نہیں کرنی چاہیے:

جہاں کسی کو پسند ہو وہاں جانے کی کھلی آزادی، ” “کلبوں میں ہشیار مردوں کی عورتوں کے ساتھ ہر طرح کی فکر سے آزاد بات چیت” اور پھر لکھا شادی “وقت کا ضیاع ہے۔ ”

اس کے دونوں خانوں میں محبت، خاندان اور خاندانی تعلقات کا کوئی ذکر تک نہیں تھا۔

وہ ان تمام موضوعات کا موجد اور طالب علم بھی تھا جن میں موروثی بیماریاں جینیاتی کوڈنگ سے نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں اور” کزن میرج” نوع انسانی کی بقا کے لیے خطرناک ہے۔ وہ شخص یہ تمام باتیں گہرے مشاہدات اور زندگی بھر کے کٹھن تجربوں کے بعد جان پایا تھا جن کے متعلق ہمارے ہاں آج کے لونڈے لپاڑے محض دو چار کتابیں یا ایک آدھ ڈگری لے کر لوگوں کو کزن میرج کے نقصان بتانے کی دوڑ میں جت جاتے ہیں۔

وہ جب اپنے علم کی انتہا پر تھا اور شادی کے معاملات اس پر صد فیصد آشکار تھے تو تب تقدیر کا خفیہ ہاتھ حرکت میں آیا اور اس کے دل کو اس طرح الٹ پلٹ کر رکھ دیا کہ اس کا تمام کا تمام علم، عقل، شعور ایک طرف دھرے کا دھرا رہ گیا اور اس کا پورا وجود عقل کی بجائے دل کے تابع ہوگیا، وہ جن معاملات کو فضول اور زندگی کا ضیاع سمجھتا تھا انہی میں گرفتار ہوا اور ایک لڑکی سے عشق کر بیٹھا۔

جس سال اس نے شادی کرنے اور نہ کرنے کا زائچہ بنایا تھا اس کے ٹھیک ایک سال بعد وہ جو عقل کا بادشاہ تھا اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے زائچوں کے برعکس اس خاتون سے شادی کر بیٹھا جس کے سامنے وہ دل ہار بیٹھا تھا۔

حضرات و خواتین اگر آپ پڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچ آئے ہیں تو کاتبِ تقدیر کے عجائبات کو غور سے سنیں! وہ شخص چارلس ڈارون تھا جو بابائے نظریہ ارتقا ہے۔ اس کے دل کی دلی جس کے ہاتھوں لٹی وہ اس کی “فرسٹ کزن” “Emma Wedgwood” تھی جو چارلس ڈارون کے ساتھ شادی کے بعد “ایما ڈارون بن گئی۔

قدرت کے نادیدہ ہاتھ کا چکر دیکھیں کہ ڈارون کے دادا نے بھی Wedgwood خاندان میں کزن سے شادی کی تھی اور اس کی بیوی کے نام کے ساتھ بھی ڈارون کا لاحقہ جڑ گیا۔ یعنی وہ ٹھیک وہی تیسری نسل تھی جس پر دنیا بھر میں واویلا مچا ہوا ہے۔

یوں وہ شخص بالآخر اسی جینیاتی پول کے جال میں پھنس گیا جو اس کی تحقیقات و تجربات کے نچوڑ کے مطابق خطرناک موروثی بیماریوں کا باعث بنتا تھا۔

اس شخص نے زائچے کے الٹ “دس یا گیارہ بچے” پیدا کیے جن میں سے تین بچوں نے اپنے وقت کی ملکہ وکٹوریہ سے “نائٹ” کا خطاب حاصل کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ جو مرضی کر لیں، حتیٰ کہ تقدیر کا انکار بھی کردیں مگر پھر بھی حقیقت بدل نہیں سکتی اور آپ تقدیر کے خفیہ ہاتھ سے بچ نہیں سکتے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply