قصور: ہماری تفہیم کا دیوالیہ پن۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

یہ 1999 کے آخری ایام تھے جب لاہور ایک ہولناک انکشاف سے دہل گیا۔ جاوید اقبال نامی ایک شخص نے 100 سے زائد بچوں کے قتل کا اعتراف کیا۔ اس نے ان بچوں کے نام، ان کے قتل کی تاریخیں ایک ڈائری میں درج کر رکھی تھیں۔ 50 سے زائد بچوں کی تصاویر بھی چھوڑی تھیں۔ میری اور ڈاکٹر ہارون رشید مرحوم کی جاوید اقبال سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔مقصد اس کی ذہنی حالت کے بارے میں رائے قائم کرنا تھا۔ اس کی کسی بات سے یہ طالبعلم اور ڈاکٹر ہارون کسی ایسے ذہنی رجحان کا سراغ نہ لگاسکے کہ جس کو کسی ذہنی بیماری کے تشخیصی معیار سے جوڑا جا سکے۔اس کی بات چیت، بچوں کے قتل کے بارے میں اس کی گفتگو، ہر چیز اس کے نارمل ہونے کی نشاندہی کرتی تھی۔ سوائے ایک بات کے۔ اسے گھر سے بھاگے ہوئے بچے نے جب پیسوں کی خاطر سر پر ضرب لگا کر شدید زخمی کر دیا اور وہ تین دن بےہوش رہنے کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے اپنی ماں کو ہسپتال میں اپنے سرہانے روتا پایا۔ بقول اس کے اس نے اسی دن یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کی ماؤں کو اسی طرح رلائے گا جس طرح اس کی اپنی ماں روئی ہے۔ پہلے پہل اس نے اپنے ذہن میں دس بچوں کی تعداد رکھی تھی بعد میں کامیابی ملنے پر اور انتقام کی آگ کو مزید ٹھنڈا کرنے کی خاطر یہ تعداد سو تک پہنچ گئی۔ (گو بعد میں میری اپنی تحقیق کے مطابق یہ تعداد سو سے زائد تھی)

ان بچوں سے وہ لاہور شہر میں ربط ضبط بڑھاتا۔اپنے گھر لاتا۔ ان کو اچھا کھانا، رہائش، اور لباس فراہم کرتا ان کے ساتھ جنسی تعلق بناتا بعض صورتوں میں ان بچوں کو اپنے دوستوں کے سامنے بھی پیش کرتا۔ جو بچے مزاحمت کرتے جلدی قتل ہوجاتے۔ جو نہ کرتے وہ ذرا تاخیر کے بعد قتل ہو کر تیزاب کے ڈرم میں پہنچ جاتے۔ میں نے راوی روڈ پر واقع وہ گھر دیکھا ہے جہاں ان بچوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں۔ یہ کرائے کا ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ میں نے جاوید اقبال سے پوچھا کہ اتنے چھوٹے سے گھر میں آپ نے سو بچے قتل کیے اور ان کے جسموں کو تیزاب کے ڈرم میں تحلیل کردیا کبھی محلے کے لوگوں کو آپ پر شک نہیں ہوا۔ اس نے کہا صرف ایک دفعہ۔ جب شروع شروع میں اس نے مقتولین کے جسم کو تیزاب کے ڈرم میں ڈالا۔ تو اس میں سے نکلنے والی باس کو تحلیل کرنے کے لیے اس نے گھر میں اگر بتیاں سلگادیں۔ اس پر صرف ایک محلے دار نے اس سے پوچھا کہ آپ کے گھر سے بہت اچھی خوشبو آتی ہے اس پر اس نے کہا کہ ہم گھر میں پرفیوم بناتے ہیں۔اس نے جعلی پرفیوم کی ایک بوتل اس محلے دار کو تحفے میں دی۔ جس کے بعد کسی نے اس سے کوئی اور سوال نہیں کیا۔

میں نے پوچھا کہ آپ ان بچوں سے دوستی کیسے کرتے تھے۔اس نے کہا ایسے ہی بس راہ چلتے۔ جہاں مفت کھانا تقسیم ہوتا ہو آپ کو گھر سے بھاگے ہوئے بچے باآسانی مل جاتے ہیں۔ آپ ان کو ذرا سی توجہ، اچھا کھانا، مناسب لباس اور رہائش کی فراہمی کا لالچ دیں یہ بچے فوراً آپ کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا ان بچوں کو اس بات کا اندازہ ہوتا تھا کہ آپ انہیں جنسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس نے کہا صرف پانچ یا چھ بچوں نے کامیاب مزاحمت کی۔ وگرنہ ان بچوں کو معلوم ہوتا تھا کہ دوستی لباس، خوراک اور رہائش مفت میں نہیں ملے گی۔

اس واقعے سے نتائج اخذ کرنے سے پہلے یہ بات یاد رکھیے  کہ جاوید اقبال کا بچوں کی جانب جنسی رجحان بہت پرانا تھا۔اس کی دوشادیاں اسی وجہ سے ناکام ہوچکی تھیں۔ پولیس اس کے اس جنسی رجحان (Pedophilia) سے واقف تھی۔لیکن یہ رجحان پاکستان میں جرائم کی تاریخ میں ایک خوفناک اضافہ تب بنا  جب ایک گھر سے بھاگے ہوئے بچے نے رقم چرانے کی کوشش میں جاوید اقبال کو شدید زخمی کردیا۔ جس کے بعد اس نے ان بچوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ سو بچے ایک مخصوص جنسی رجحان کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے ان کے قتل کا سبب کچھ اور تھا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے قتل ہونے والے ان بچوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کا کام اس طالبعلم کو سونپا۔ یہ رپورٹ Betrayed and Bludgeoned  کے نام سے شائع ہوئی۔اس رپورٹ کو دیکھیے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ گھر سے بھاگے ہوئے ان بچوں کی اکثریت نے بغیر کسی وجہ کے اپنا گھر چھوڑا۔ 60 فیصد سے زائد والدین نے ان بچوں کے گھر چھوڑنے کے بعد ان کو ڈھونڈنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس ابتدائی تحقیق کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے ایک اور تحقیق کی گئی۔ جس میں پاکستان بھر میں 900 سے زائد گھر سے بھاگے ہوئے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کی گئیں۔ اس تحقیق کی رپورٹ کمیشن کے پاس ہے اور اشاعت کی منتظر ہے۔ اس تحقیق کی تفصیلات کسی اور وقت کے  لیے اٹھا رکھیے۔

گزارش یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ لاہور میں سو سے زائد بچے قتل ہوئے تو تب بھی عام لوگوں سے لے کر ماہرین تک سب نے Pedophilia  نامی ذہنی مرض کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔ عریانی فحاشی کا رونا رونے، بچوں کو جنسی تعلیم دینے، اپنی حفاظت کے طریقے سکھانے پر زور دینے اور معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پر واویلا کرنے اور پولیس کی ناقص کارکردگی پر شور مچانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔

قصور میں پہلے ایک واقعہ ہوا کئی سو بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ان کی ویڈیوز بنیں۔ دو میل کے دائرے میں درجن بھر بچے دوبارہ جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ مظلوم زینب جان سے گئی۔  ہم نے پھر مرض کی علامات پر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس طالبعلم نے چینل فور کی ٹیم کو 1999 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں چند روز پہلے بھی  کہا اور اب دوبارہ کہتا ہوں اور اصرار کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ مسئلہ (Pedophilia) سے کہیں بڑا گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔

ہم سب پر شائع ہونے والی ایک تحریر “کٹھور پن کی نفسیات” کے ذیل میں  گزارش  کر  چکا  ہوں  کہ  انسان ہمارے معاشرے میں ایک شئے Object/ commodity  میں تبدیل ہوچکا ہے۔ قصور میں ہونے والے واقعے کے ذیل میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ یہ بچوں کی جانب جنسی رجحان یعنی  (Pedophilia) سے کہیں بڑا مسئلہ ہے یہ بنیادی طور پر انسانی جان کی توقیر کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی زندگی کو ایک شے سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی جان کو ایک ہتھیار سمجھنے اور بنانے کا مسئلہ ہے۔ یہ خودکش بمباروں کی ایک فوج تیار کرنے والے اذہان کا مسئلہ ہے۔

نوآبادیاتی نظام Colonialism کے شکار افراد اور معاشرے’  استعمار کے ہاتھوں اپنی جان عزت اور صلاحیت کی بے توقیری پر ایمان لے آتے ہیں۔ خود اپنی ہی نظروں میں گر کر اپنی جان عزت اور صلاحیت کی عزت اور حرمت کھو بیٹھتے ہیں۔ کوئی مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام پر غور کیوں نہیں کرتا۔کوئی اس بات پر توجہ کیوں نہیں کرتا کہ مسلمان معاشرے زندگی سے زیادہ موت اور مستقبل سے زیادہ ماضی سے محبت کیوں کرتے ہیں۔ کوئی اس بات پر غور کیوں نہیں کرتا کہ خودکش بمباروں کی تربیت میں جنت کی فقط ایک نعمت یعنی حور پر توجہ مرکوز کیوں کی جاتی ہے۔

گزارش کر چکا ہوں کہ Necrophilia ایک ایسی ذہنی بیماری ہے کہ جس کے شکار لوگوں میں مردہ افراد کے ساتھ جنسی اختلاط کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایرک فرام کی تشریحات بھی پیش کر چکا ہوں۔ چھوٹا منہ بڑی بات لیکن Necrophilia کے تصور کو اپنے معاشرے کے حوالے سے مزید پھیلانا چاہتا ہوں۔ معاشرے کےکمزور طبقے یعنی بچوں عورتوں غریبوں اور اقلیتوں کو شے  Object میں تبدیل کرنا بھی نیکر وفیلیا ہے۔ان کو بے جان سمجھ کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا اور استعمال کے بعد ان کو استعمال شدہ اشیا کی طرح پھینک دینا۔دوسروں پر ظلم کرتے ہوئے ان کے درد کو محسوس نہ کر سکنا مرتے ہوئے لوگوں سے علاج کیلئے بھاؤ تاؤ  کرنا، کسی بھی ظلم کے بعد ظالم کے لیے سرعام پھانسی اور سخت سزاؤں کا مطالبہ کرنا سزاؤں کے ذریعے جرائم کی بیخ کنی کرنے کی سوچ رکھنا سب نکرو فیلیا کا پھیلاؤ ہے۔

ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ پاکستان میں دہشت گردی میں کمی دی جانے والی پھانسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری پالیسی کی تبدیلی کے سبب آئی ہے۔ریاست نے مجبوراً  ایک فیصلہ کیا کہ اس کی ناک کے نیچے مجرم جنم نہیں لیں گے۔ خودکش بمباروں کی فیکٹریوں پر تالا لگے گا ان کی تربیت گاہیں بند ہوں گی۔ ان کو مرنے اور مارنے کے بجائے زندہ رہنے اور زندہ رہنے دینے کی تعلیم دی جائے گی۔ وگرنہ یہ ریاست باقی نہیں رہے گی۔ ریاست نے یہ فیصلہ کرنے میں چونکہ تاخیر کی ہے اس لیے اس تاخیر کے سبب معاشرے کے تار و پود بکھر چکے ہیں۔ہر آدمی نے دوسرے کو ایک شے سمجھ لیا ہے ہر شئے کا ایک استعمال ہے۔ استعمال کے بعد ہر شے نے کوڑے دان میں جانا ہوتا ہے۔ آپ مظلوم زینب کو روتے ہیں اس معاشرے کا ہر فرد کچرا کنڈی کا حصہ بن سکتا ہے کسی بھی وقت کسی کے بھی ہاتھوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ ہم سب!

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قصور: ہماری تفہیم کا دیوالیہ پن۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

Leave a Reply