• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)قسط2

گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)قسط2

بیس سال کی عمر میں گوئٹے کو بیماری اور کمزوری کے باعث لیپزگ(Leipzig) کی پڑھائی حوصلہ شکن ثابت ہوئی اور اسی لیے انہوں نے پلٹ کر پھر وطن کی راہ لی اور یہی وہ زمانہ تھا جب ان کی کچھ توجہ الکیمیا کی طرف مبذول ہوئی ۔ اسی زمانے میں ان کے ایک خاندانی دوست  فرالیں  فان کلیشن برگ کے ذہنی تاثرات نے ان کے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ زندگی کے مقدس سفر میں بدی کا پیش آنا لازمی ہے اور اس میں شک نہیں کہ گوئٹے نے فاؤسٹ کے مقدر کو ان روحانی قدروں سے معمور کر دیا جو گناہ و سزا کی قدیم دقیانوسی لغویتوں سے بہت دور تھیں ۔ ان کی فراست بڑی تیزی کے ساتھ پختہ ہو رہی تھی ۔ دوسری طرف ان میں مضحکہ و طنز کا سریع عنصر بھی برقرار رہا اور جیسا کہ آگے چل کر بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عنصر ان کی زندگی میں برابر قائم رہا ۔ وہ مضبوط قوت ِ ارادی والے ایک گریجویٹ(فاضل) تھے اور پروفیسروں پر اس طرح آواز ہ کشی کر بیٹھتے جس طرح انہوں کے فاؤسٹ کی اولین خود کلامی کے دوران کی ہے اور اس سے بھی زیادہ خود کلامی انہوں نے اس مکالمے میں اختیار کی ہے جو فریشمین اور ڈاکٹر مفسٹوفلیس کے درمیان ہوا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پھر اسی نوعمر گوئٹے نے اتنی دیرپا اور عمیق فراست کے ساتھ کام لے کر اظہارِ فضیلت کے خیال کو بے نقاب بھی کر دیا ہے ۔ للکار بھرے فقرے جن الفاظ میں ان ایسے نوجوانوں نے دنیا کو تحقیر کا نشانہ بنایا ہے،ان (الفاظ)  میں ان کے شیطان کی طعنہ زنی کا انداز معلوم ہوتا ہے ۔ فاؤسٹ کی ذات میں بھی شک اور گمان کی نیت سنجیدہ اور بالغ ہے اور یہ کیفیت ان حالات میں نہیں ہوتی جب اس کو تلخی کے لیے اکسایا جاتا ہے ۔ بہرحال چونکہ فاؤسٹ اور گوئٹے کا خالق ان دونوں کے بمقابلہ نسبتاً زیادہ عظیم ہے اس لیے گوئٹے کو مفسٹوفلیس کے بمقابلہ گوئٹے سے زیادہ متشابہ (مقابل )نہیں کرنا چاہیے ۔ گوئٹے جذباتی قسم کے انسان تھے ، ان میں بردباری اور انکسار کی خو (عادت) تھی اور خودضبطی  (ضبط نفس) کا مادہ بھی ان میں کچھ اسی قسم کا تھا جس کا اظہار زیادہ حد تک وہ ان ہیروؤ ں (خاص  کرداروں ) کے سامنے نہیں کرتے تھے جن کا تعلق صیغہ ذکور(مرد)  سے تھا ۔ گوئٹے سمجھتے تھے کہ زعم اور خودآرائی کا شمار فاؤسٹ کے عیبوں میں داخل ہے ۔ ٖفاؤسٹ صرف زبردست ارضی روح سے یہ نہیں کہتا تھا کہ میں ہر لحاظ سے تیرا ہم پلہ ہوں کیونکہ میرا نام فاؤسٹ ہے۔لیکن وہ اپنی ساری ڈانت پھٹکار کو بھول جاتا ہے اور پھر آگے چل کر روح (اسپرٹ) کی طاقت کا دعویدار ہوتا ہے ۔ اس کے مزاج میں خود آرائی ہے اور وہ مارگریٹ کی قابل تعریف سادگی کو ضرب پہنچاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قصور وار قرار پاتا ہے ۔

اس میں شک نہیں  کہ حصول ِ اقتدار کی بیتابانہ تلاش کی دھن فاؤسٹ کے دماغ میں موجود ہے اور یہی وجہ  ہے کہ وہ جو کچھ پہلے کرتا دھرتا ہے ، بعد میں اس کو بہت بڑی حد تک ملیامیٹ بھی کر دیتا ہے لیکن خود گوئٹے میں انسانی دسترس سے باہر جا کر بھی تکمیل ِ کار کا جو حد سے زیادہ حوصلہ  موجود تھا ، اس کا ردعمل ایک ناقابل تسخیر جرات سے ہو جاتا ہے جس کو ہر قسم کے سکون پذیر جذبے میں کمزوری نظر آتی تھی ۔ گوئٹے حرکت ِ باعمل کی احتیاج کو حد درجہ زیادہ ممتاز مذہبی منزلت سمجھتے تھے ۔ دوران ِ مطالعہ جب فاؤسٹ سینٹ جان کے الفاظ کی نظر ثانی کے لیے نہایت مستعدی اور ایمانداری کے ساتھ قولِ فیصل صادر کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے ، اس میں جس چیز کو بہت  بڑھ چڑھ کر قدرومنزلت دی جاتی ہے وہ عہد نامے کو دی جاتی ہے ۔ مفسٹوفلیس کے ساتھ اپنے عہدوپیمان میں فاؤسٹ کو اسی حالت میں واقعی مردود سمجھنا چاہیے اگر شیطان اس کو حرصِ داز میں گرفتار کر کے سوقیانہ قسم کے اطمینان اور آسودگی کی زنجیر میں جکڑ دیتا ہے اور کہتا ہے :

جو وقت گریزاں سے یہ میں کہوں

حسین تو ہے لے تو توقت سے کام

اس تحریض و ترغیب میں مغنی کی طرف مائل ہونے والے مفسٹوفلیس کو اپنے مقصدِ حیات میں کبھی کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی ۔ اور ٹسٹامنٹ (عہد نامے) کے زیرِ عنوان ان کی ایک نظم میں خود گوئٹے کا ایمان چیخ اٹھتا ہے :  صرف بارآور شے کو آپ سچائی کہیں۔

فاؤسٹ کے پہلے حصے کی داستان اگرچہ بڑی پائیدار اور شہرہ آفاق داستان ہے مگر ڈرامے کی حیثیت میں اس کی ہیئت کے لحاظ سے اس میں کوئی غیررسمی پہلو نہیں نظر آتا ۔ فاؤسٹ کے دماغ میں جو کشمکش جاری و ساری نظر آتی ہے ، اپنی زندگی پر اس کی محنت گیرانہ تنقید سے ہمیں جو سابقہ پڑتا ہے اس سے اسٹیج کے بمقابلہ قارئین کے لیے بڑی دلچسپ تقریریں سننے  میں آتی ہیں ۔ اس میں ڈرامے کے لیے ایک خاص پرداز ایک خاص اٹھان اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں تک تھیٹر کا تعلق ہے خود گوئٹے کی نظر میں اپنے شاہکار کی کامیابی بہت مشکوک تھی اور اسی لیے یہ ثابت کرنا زیادہ آسان ہے کہ اسٹیج کے بمقابلہ وہ ایک بڑی ڈرامائی  نظم پیش کرنے کا ارادہ کر رہے تھے مثلاً شاعر تفصیل کے ساتھ یہ بات زیادہ بیان نہیں کرنا چاہتا کہ ویلنٹائن کی موت اور والپرگس(Walpurgis) کی رات کے درمیان ایک سال کی مدت گزر چکی ہے اور نہ اس کو کرداروں کا ، منظریات کا یا ڈرامے کے اداکاروں کا تفصیلی ذکر پسند ہے ۔ ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے عظیم حصہ اول کا کوئی تماشا اس وقت تک پیش نہیں کیا جا سکا جب تک گوئٹے اپنی عمر کے 80ویں سال میں نہیں پہنچ گئے ۔ وائمر(Weimar) میں اسی 80ویں جنم دن کے موقع پر ایک مزید کھیل پیش ہوا ۔ وجہ یہ تھی کہ جامع اور بھرپور تربیت کا سہرا خود گوئٹے کے سر تھا ۔

بعد کی جن نسلوں کی پرداخت گونوڈ کے ایک خلاصے پر ہوئی تھی ان کو یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ گوئٹے کی خاص اداکارہ دراصل انسان کی مصیبت زدہ وہ  روح ہے جو ہم سب میں پائی جاتی ہے اور جو ہمارے پراسرار طریقے کے لیے جستجویانہ دوا دوش (دوا دارو) کے سلسلے میں جرات تلاش کرتی ہے اور اس کا جواب اس مقام پر طلب کرتی ہے جہاں جواب آسانی کے ساتھ سننے میں نہیں آتا ۔ بہرحال کچھ بھی ہو ، اس چیستان کا نقطۂ معراج  حاصل ہوتا ہے تو گریچن  کی تازہ دم نرمی کے طفیل حاصل ہوتا ہے اور یہی وہ موضوع ہے جس میں نوعمر گوئٹے بیشتر اپنے داخلی تجربے کی دل پذیر حقیقت میں اپنے یقین و ایمان کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے ۔

اس مقام پر مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن پڑھنے والوں کے لیے جن کو اس میں دلچسپی حاصل ہو ، اس عظیم الشان  کارنامے کی فنکارانہ ترقی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے لیکن جن لوگوں کو ادب کے نقطہ خیال سے اس قسم کی ابتدائی تصنیف سے کوئی دلچسپی نہ ہو ، وہ اُسے چھوڑ کر پانچویں سیکشن کی توجہ مبذول کرنا پسند فرمائیں تو خوب  ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments