پروفیسر غازی علم الدین کے لسانی زاویے۔۔گل بخشالوی

پروفیسر غازی علم الدین بڑی مہربان ادبی شخصیت ہیں میرے گھر کی لائبریری کے لئے ایک ساتھ تین کتا بیں بھیج دیں اور وہ کتابیں جو اردو اد میں غازی علم الدین کی پہچان ہیں ۔اردو کا مقدمہ اور میزانِ اِ نتقاد وفکر کا تعارفی جائزہ پہلے لکھ چکاہوں اور آج ،، لسانی زاوے ،کا تعارفی خاکہ پیش کر رہا ہوں، پروفیسر علم الد ین جیسی شخصیات پر کچھ لکھنا آسان نہیں لیکن اگر ہم اردو ادب کے طالب علم لکھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو ان کے سائے کے ساتھ کیسے چلیں گے۔

پروفیسر غازی علم الدین کا بنیادی تعلق آزاد کشمیر ، کی پہچان شہر میر پور سے ہے پہلی جنوری 1959ءکو اس فانی دنیا میں جلوہ افروز ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور آئے، آپ فارغ التحصیل ہیں، اور ینٹل کالج ، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے۔ حصولِ علم کے بعد تدریسی شعبہ اپنایا اس وقت ریٹائرڈ پرنسپل ہیں تحریر و تحقیق کے میدان میں آپ ۔لسانیات، تحقیق و تنقید کے ساتھ مدیر بھی رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لسانیات، تحقیق و تنقید کی سا ت تصانیف میں۔ میثاقِ عمرانی، لسانی مطالعے، تنقیدی و تجزیاتی زاوے، تخلیقی زاوئے، اردو کا مقدمہ ، میزانِ اِ نتقاد و فکر اور زیر تعارف تصنیف لسانی زاوے شامل ہیں
پروفیسر غازی علم الد ین سے بلمشافہ ملاقات تو نہیں لیکن میں ان کی شخصیت کو وجود ان کی کتابوں اور مقالوں میں دیکھ لیا کرتا ہوں اپنی ہر تحریر میں بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں اس لئے تو پروفیسرڈاکٹرسعادت سعید لسانی زاوے کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ پروفیسر غازی علم الدین کی تحقیقی بصیرت، اہلِ دانش و بینش کے لئے قابلِ تحسین ہے انہوں نے زبان و ادب کے متعدد مستور و کم بین گوشوں کی نشان دہی بطریقِ احسن کی ہے ان کا شمار ہمارے عہد کے محنتی اور جانفشاں دانشوروں میں کیا جاتا ہے غازی علم الدین کی علمی و تحقیقی اپروچ کی بدولت کئی تشنگانِ علم و ادب کی رہنمائی ہوئی ہے وہ جس بھی موضوجوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کی گہرائی اور گیرائی ان کی گرفت میں ہوتی ہے ، پرفیسرغازی علم الدین ایک درد مند دل رکھنے والے ماہر لسانیات ہیں انہوں نے اردو کو صاف اور اجلا کرنے کے لئے جس محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تقلید ہے انہوں نے سارے جہاں میں دھومنے والی اردو کے لسانی تحفظ کا کام خوش اسلوبی سے کیا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ غازی صاحب ایک شاہکار علمی وادبی شخصیت ہیں اور ایسے دوستوں کی صحبت میں زندگی کا حسن دیکھنے والے بھی خوش بخت ہیں میرا ان سے برقی رابطے میں رابطہ ہے بالمشافہ ملاقات کی خواہش ہے لیکن لگتا ہے کہ عنقریب جب کشمیر دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی صورت میں دیکھوں گا تو مبارک باد د ینے ضرور جاﺅں گا اس لئے کہ زیر ِ تعارف کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر نجمہ عارف صاحبہ لکھ رہی ہیں کہ غازی علم الدین کا شمار ان ماہرینِ زبان میں ہوتا ہے جو زبان کے معیاری ڈھانچے کی حفاظت اور اسے مسخ کرنے والی تبدیلیوں کی نشان دہی کرنے پر مامور ہیں اور میں تو اردو ادب کا شیدائی ہوں !غازی علم الدین کی تحریر کے انداز کی ایک جھلک سے ان کی تصانیف میں ان کے حسنِ بیان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے!
”کسی ہفت رنگ ہیرے کو سورج کے سامنے کیا جائے اور بدل بدل کر اس کا ہر کو نا شعاﺅں کے برابر لایا جائے تو ہر رنگ اپنی بہار دیتا ہے کہیں سے ارغوانی، کہیں سے عنابی، کہیں سے سنہری، کہیں سے ازرقوانی، کہیں سے حنائی، کہیں سے بلوریں اور کہیں سے احمریں عکس جھلکتا ہے !
ان شا اللہ میں اردو ادب کے اس کشمیری ہیرے سے ملنے ایک دن ضرور جاﺅں ، اللہ میری یہ مراد پوری کرے آمین!!
گل بخشالوی
ناظمِ اعلیٰ۔ قلم قافلہ پاکستان
۲۲،اگست، ۱۲۰۲ء

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply