جغرافیہ کے قیدی (17) ۔ چین ۔ ملکی مفاد/وہاراامباکر

خلیج کی ریاستوں سے توانائی کی درآمد کے لئے چین کو مغربی سمت جانا ہے۔ یہاں اسے ویتنام سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ آجکل امریکہ سے پینگ بڑھا رہا ہے۔ پھر اسے فلپائن کے قریب جانا ہوتا ہے جو امریکی اتحادی ہے۔ اور پھر آبنائے ملاکا سے جو کہ ملیشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا کے درمیان ہے۔ جو کہ امریکہ سے عسکری اور سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ یہ آبنائے پانچ سو میل لمبی ہے اور اپنے تنگ ترین مقام پر دد میل سے بھی کم چوڑی ہے۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں پر گھلا گھونٹا جا سکتا ہے۔ یہ تمام ریاستیں چین کے بڑھتے غلبے سے خائف ہیں اور زیادہ تر کے چین سے زمین پر تنازعے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین تقریباً تمام ساؤتھ چائنہ سمندر پر دعویٰ رکھتا ہے اور ساتھ ہی اس کے نیچے کے گیس اور تیل کے ذخائر بھی بھی۔ لیکن ملیشیا، تائیوان، ویتنام، فلپائن اور برونائی ان سے اتفاق نہیں کرتے (اور ایک دوسرے سے بھی نہیں)۔ مثلا، چین اور فلپائن میں مس چیف جزائر پر تلخ جھگڑا ہے۔ سینکڑوں متنازعہ atoll ہیں جن میں سے کئی صرف سمندر سے باہر جھانکتے ہوئے پتھر ہیں، ان میں سے کوئی بھی کسی دن سفارتی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ ہر چٹان کے ساتھ مچھلی پکڑنے کے علاقے، تیل کی کھوج کے حقوق اور ملکیتی حقوق کے ممکنہ تنازعے ہیں۔
چین نے اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لئے ان کئی متنازعہ جگہوں پر زمین reclamation کے طریقوں سے ان کی توسیع شروع کر رکھی ہے۔ اس کی ایک مثال فائری کراس ریف کی ہے۔ اس کو ایسا جزیرہ بنا دیا گیا ہے جس میں بندرگاہ بھی ہے اور جہاز کے لئے رن وے بھی۔ ایک اور جزیرہ بنا کر اس پر توپخانہ قائم کر دیا ہے۔
اس پر امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ “سمندر کے نیچے سے چٹان کو نکال کر اس پر ہوائی اڈہ قائم کر لینے سے آپ فضائی اور سمندری علاقے پر ملکیت کے دعوے دار نہیں ہو سکتے”۔ لیکن چین اس علاقے میں اپنی مرضی کے قوانین بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کو یہ راستے محفوظ کرنے ہیں تا کہ اس کا مال دنیا میں جا سکے اور یہاں سے گزر کر تیل، گیس اور قیمتی دھاتیں چین تک پہنچ سکیں۔ یہ اس میں کوئی رخنہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ سفارت کاری اس کا ایک حل ہے، طاقت پکڑتی بحریہ ایک اور۔ جبکہ ایک اور بہترین گارنٹی سڑکیں، بندرگاہیں اور پائپ لائن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفارت کاری کے ذریعے یہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو امریکہ سے دور کھینچنا چاہتا ہے۔ اور اس کے لئے گاجر اور چھڑی کا طریقہ استعمال کرتاہے۔ اگر چھڑی زیادہ ہو گی تو یہ اکٹھے ہو کر امریکہ سے دفاعی معاہدہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر گاجر زیادہ ہو گی تو یہ بیجنگ کی مرضی کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ اس لئے یہ توازن کی کھیل یہاں کھیلی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین جو نقشہ شائع کرتا ہے، اس میں تمام سمندر چین کی سرحدوں کے اندر دکھایا جاتا ہے۔ یہ ارادے کے بارے میں اس کا اعلان ہے۔ جارحانہ بحریہ اور سرکاری اعلانات اس کی حمایت کرتے ہیں تا کہ حریف خبردار رہیں۔
رابرٹ کاپلان لکھتے ہیں کہ یہ علاقہ چین کے لئے ایسا ہے جیسا کہ بیسویں صدی میں امریکہ کے لئے جزائر غرب الہند تھے۔ امریکہ اس وقت زمین پر مستحکم ہو چکا تھا اور دو بحروں (مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحرالکاہل) کی طاقت بن چکا تھا اور پھر اس نے آس پاس کے سمندروں کو کنٹرول کیا تھا۔ کیوبا سے ہسپانیہ کو نکالا تھا۔
چین بھی دو بحروں (بحرالکاہل اور بحرہند) کی طاقت بننے کا خواہاں ہے اور اس کو حاصل کرنے کیلئے یہ گہرے پانیوں کی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس میں برما، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا کی بندرگاہیں شامل ہیں۔ یہ سرمایہ کاری اسے دوستانہ تعلقات بھی خرید دیتی ہے اور مستقبل کی بحریہ کے پڑاؤ بھی جہاں رہا جا سکے یا بوقتِ ضرورت لنگرانداز ہوا جا سکے۔ اور تجارت بھی قائم کی جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحرہند اور خلیج بنگال کی بندرگاہیں چین کو محفوظ کرنے کے طویل مدت پلان کا حصہ ہے۔ برما کے مغربی ساحل سے چین نے تیل اور گیس کی پائپ لائن بنائی ہیں۔ ان کی وجہ آبنائے ملاکا سے بحری راستے پر انحصار کم کرنا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ برما کی فوجی حکومت کو دنیا میں اہمیت مل رہی ہے۔ اور نہ صرف چین سے بلکہ امریکہ اور جاپان بھی اسے لبھانے کی کوشش میں ہیں لیکن عالمی تعلقات کی شطرنج کا یہ کھیل ابھی چین کے حق میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کینیا میں بھی بندرگاہیں بنا رہا ہے، انگولا میں ریلوے بچھا رہا ہے، ایتھوپیا میں ڈیم بنا رہا ہے۔ افریقہ کے طول و عرض سے معدنیات اور قیمتی دھاتیں خرید رہا ہے۔
چینی کمپنیاں اور مزدور دنیا بھر میں رفتہ رفتہ پھیل رہے ہیں۔
بڑی طاقت کے ساتھ بڑی ذمہ داری بھی آتی ہے۔ خطے کے باہر واقعات ہو سکتے ہیں جہاں چینی فوج کو حرکت میں آنا پڑے گا۔ کوئ دہشت گردی کا واقعہ، چینی مزدوروں کا اغوا، قدرتی آفت، خانہ جنگی میں حفاظت، فسادات، راہداری اور معاہدوں پر عمل یقینی بنانا ۔۔۔ دنیا میں کروڑوں چینی کام کر رہے ہیں۔ چینی مزدوروں کے پیچھے چینی ملٹری کے بیس درکار ہوں گے۔
اور اس کے لئے تربیت بھی درکار ہو گی۔ جب سیچوان میں 2008 میں زلزلہ آیا تھا تو چین نے اس کے مقابلے میں لئے اپنی فوج کو متحرک کیا تھا۔ لیکن اس کے پاس اس سے نمٹنے کے لئے تربیت اور سامان نہیں تھا۔
لیکن یہ تبدیل ہو جائے گا۔ چین سفارتی اور معاشی محاذوں پر پیشرفت کر رہا ہے۔ اپنی سرحدوں کے اندر یہ محفوظ ہے۔ اور اعتماد سے دنیا میں متحرک ہے۔ اگر جاپان اور امریکہ سے کوئی بڑا تنازعہ کھڑا نہیں ہوتا تو اس کو واحد خطرہ اپنے آپ سے ہے۔
ایسی 1.4 ارب وجوہات ہیں کہ چین کامیاب ہو اور ایسی 1.4 ارب وجوہات ہیں کہ یہ دنیا کی نمبر ایک پاور نہ بن سکے۔ ایک بڑا معاشی بحران اسے دہائیوں پیچھے لے جا سکتا ہے۔ اس کی قسمت عالمی معیشت کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ اگر دنیا اس کے چیزیں نہ خریدے تو یہ نہیں بنائے گا۔ اگر یہ نہیں بنائے گا تو بے روزگاری ہو گی۔ اور اگر یہ بڑے پیمانے پر اور زیادہ عرصے کے لئے ہوئی تو یہ ایسا وقت ہے کہ چینی آبادی شہروں میں پیک ہے۔ اور ملک سماجی بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اور جدید چین میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ اس پیمانے پر ہوتا ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔
اور یہ وجہ ہے کہ عالمی معیشت کو رواں اور توانا رکھنا چین کے قومی مفاد کیلئے ایک اہم ترین ترجیح ہے۔
(جاری ہے)ئزہ لیتے ہیں اور اس کے لئے شمال سے شروع کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شمال میں منگولیا کے ساتھ 4677 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ یہاں صحرائے گوبی پھیلا ہے۔ قدیم وقتوں سے خانہ بدوش جنگجو یہاں سے حملہ آور رہے ہیں۔ لیکن آج کی جدید آرمی اگر یہاں سے آئے تو چلنے سے ہفتوں پہلے اس کا معلوم ہو جائے گا۔ اور اس دشوار گزار جگہ پر طویل سپلائی لائن برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہو گا۔ یہاں سے Inner Monglia (جو کہ چین کا حصہ ہے) سے گزر کر چین کے مرکز تک آنا ہو گا۔ علاقے غیرآباد ہیں اور راستے کم۔ گوبی دفاع کی بہت موثر لائن ہے۔ اور اگر چین کو شمال کی طرف جانا ہو تو یہ فوج کے ذریعے نہیں ہو گا بلکہ تجارت کے معاہدوں کے ذریعے ہو گا۔ منگولیا کی معدنیات میں چین دلچسپی رکھتا ہے اور یہ معاہدے ہان کو منگولیا لے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے مشرق میں چین کی روس کے ساتھ سرحد ہے جو کہ بحیرہ جاپان تک پہنچتی ہے۔ اس کے اوپر روس کا پہاڑی مشرق بعید ہے۔ بہت بڑا اور غیرمہربان علاقہ جہاں خال خال آبادی ہے۔ اس سے نیچے مینچوریا ہے۔ اگر روسی چین تک پہنچنا چاہیں تو انہیں یہاں سے گزرنا ہو گا۔ مینچوریا کی آبادی دس کروڑ ہے اور بڑھ رہی ہے جبکہ روس کے علاقے میں آبادی صرف ستر لاکھ ہے اور بڑھنے کے آثار نہیں۔ چینی آبادی جنوب کی طرف پھیل سکتی ہے اور یہ روس کے اس علاقے پر بڑھنے والا چینی اثر ہے۔
یوکرین کی جنگ کی وجہ سے چین اور روس کے تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے اور نئے معاہدے چین کے حق میں رہے ہیں۔ روس ان میں جونئیر شریک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل کے ساتھ ساتھ بحیرہ اصفر، ایسٹ چائنہ اور ساوتھ چائنہ سمندر ہیں۔ جو کہ بحر الکاہل اور بحر ہند تک لے جاتے ہیں۔ کئی اچھی بندرگاہیں ہیں جو کہ ہمیشہ سے تجارت کے لئے استعمال ہوتی رہی ہیں۔
ان لہروں کے دوسری طرف کی زمین مسائل کا سبب رہی ہے۔ ان میں سے ایک جاپان ہے جس کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں۔ پہلے ہم گھومتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو اس کے زمینی ہمسائے ہیں۔ ویتنام، لاوس اور برما۔
ویتنام چین کو کھٹکتا رہا ہے۔ صدیوں تک ان کے زمین پر جھگڑے رہے ہیں۔ اور دونوں کی بدقسمتی یہ کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے فوج کا گزرنا زیادہ مشکل نہیں۔ اور یہ ایک جزوی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال (111 قبلِ مسیح سے سن 938) تک چین کا ویتنام پر غلبہ رہا اور 1979 میں مختصر جنگ ہوئی۔ لیکن جس طرح چین کی عسکری طاقت بڑھ رہی ہے، ویتنام اب کوئی ایسا مقابلہ کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ دونوں ممالک ہی علامتی طور پر کمیونسٹ ہیں۔ لیکن ان کے تعلقات کا انحصار ان کے مشترک جغرافیے پر ہے۔ بیجنگ کی نظر سے ویتنام خطرہ نہیں ہے۔
لاؤس کی سرحد پہاڑی جنگل ہے جو کہ تاجروں کے لئے پار کرنا مشکل رہا ہے اور فوجوں کے لئے مشکل تر۔ اور جب ہم برما تک پہنچتے ہیں تو یہ پہاڑیاں بڑے پہاڑوں میں بدلنے لگتی ہیں اور مغربی انتہا پر جا کر ان کی بلندی بیس ہزار فٹ تک ہو جاتی ہے اور یہ کوہ ہمالیہ میں مدغم ہونے لگتی ہیں۔
اور یہاں سے چین کیلئے تبت کو اپنے قبضے میں رکھنے کی اہمیت شروع ہوتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply