گھمن گھیریاں اور مذہبی لوگوں میں جنسی گھٹن ۔ ۔ ۔ محمود فیاض

ایک مذہبی فرقے کے شعلہ بیاں و شعلہ بار مقرر اور معروف مذہبی عالم مولانا الیاس گھمن صاحب پر انکی سوتیلی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام ان دنوں سوشل میڈیا کا وائرل موضوع ہے۔ آپ بہت پڑھ چکے ہونگے، اسلیے وہ ساری تفصیل اس تحریر کا حاصل نہیں ہے۔ الیاس گھمن صاحب کا فعل ، اور اسکی جزا و سزا یا تو عدالت کا کام ہے، یا اس معاشرے کے فعال طبقات و افراد کا۔ وہ سب گھمن صاحب کے لیے جو سزا تجویز کریں گے وہی کارآمد اور معاشرے کے شعور کی عکاسی کرے گی۔ بعض اوقات انسان عدالت سے بری ہو جاتا ہے، مگر معاشرے کی عدالت اس کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔ میں ضمیر کی عدالت کا ذکر کرتا مگر اہل مذہب میں چھپے شیطان صفت لوگوں نے مجھے ایسی کسی چیز کی موجودگی پر شک میں ڈال دیا ہے۔

تو دوستو! الیا س گھمن صاحب کا فیصلہ معاشرے کے ہاتھ چھوڑ کر ہم زرا اس بات کا جائزہ لیں گے کہ مذہبی لوگوں میں جنسی جرائم کی شدت اس قدر کیوں ہے کہ ہر ایسے واقعے پر لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ کیوں آخر ایسے لوگ جو آنکھ ، کان اور ہاتھ کے زنا پر تفصیلی خطبے دیتے ہیں، موقع ملنے پر جہنم کے نویں طبقے کے لیے کوالیفائی کر جاتے ہیں؟ سادہ سے الفاظ میں جس مولوی کو اہل محلہ سب سے پاک جگہ پر سب سے محترم کام (یعنی عبادت) کے لیے بٹھاتے ہیں، وہ بالآخر اسی پاک جگہ پر اپنی خباثت کی ساری حدیں پار کرجاتا ہے۔

آ جائیے زرا اس مذہب کی طرف جسکا یہ نام لیتے ہیں،جس کی عبادات کو انہوں نے پروڈکٹس بنا کر پیکنگ کے اوپر پرائس ٹیگ لگا دیے ہیں، اسلام کیا کہتا ہے ؟ اسلام کہتا ہے کہ ہر بات میں میانہ روی اختیار کرو۔ اسلام انسان کی ہر روحانی اور جسمانی ضرورت کے لیے ہدایات دیتا ہے۔ اسلام رہبانیت کے خلاف ہے۔ اسلام میں انسان کی نفسانی خواہشات کو جائز رستے فراہم کر نے کے متعدد احکامات موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر اسلام ایک دین فطرت ہے اور ایسا کوئی حکم نافذ نہیں کرتا جو انسانی طبیعت پر اس طرح کی پابندیاں عائد کرے جو اسکو زہنی و روحانی گھٹن کی طرف لے جائیں۔
مگر جب یہی آفاقی دین ان لوگوں کے زہنوں سے گزرتا ہے جو اس کی تشریح و تفسیر کے اہل تو نہیں مگر منبر و محراب پر قابض ہیں، تو وہ ان احکامات کی وہ تشریح کرتے ہیں کہ انسانی طبیعت کا سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔

انسانوں کو پیدا کرنے والے رب نے اس کی تخلیق ایسے انداز میں کی ہے کہ عناصر کی ایک ترتیب ہے، جو زرا سی بگڑنے پر کئی طرح کے بگاڑ پیدا کر دیتی ہے۔ پانی انسان کے لیے زندگی ہے، مگر حد سے زیادہ پینا شروع کر دو یا بالکل کم کر دو، دونوں صورتوں میں جسم بیمار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کھانا پینا، ہنسنا رونا، سونا جاگنا ، سب کے سب اعتدال مانگتے ہیں۔ میانہ روی ہی زندگی کی اساس ہے۔

جنس مخالف کی کشش وخواہش بھی انسانی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے، اور نسل انسانی کی بقا اسی جذبے کی مرہون منت ہے۔ مگر اگر اس جذبے کی آبیاری مناسب طریقے پر نہ ہوپائے تو یہ اپنی تسکین کے لیے وہ راہیں تلاش کر لیتا ہے جو اسفل اسافلین سے مخصوص ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں پاکستان میں مذہبی طبقے کی بات کروں، آپ دنیا اور تاریخ کی دو مثالوں پر غور کر لیجیے۔

بھارت میں اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں بنی دیوی دیوتاؤں کی برہنہ مورتیاں، اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ بنائی گئی ہیں۔ اور انکو بنانے والے وہ بودھ بھکشو تھے جنہوں نے دنیا سے تیاگ لے لیا تھا اور عورت اور جنس کو اپنے اوپر حرام کر چکے تھے۔ انکے جنس کے قدرتی جذبے سے طویل فاقے نے انکی بھوک کو ایک نیا رخ دے دیا اور انہوں اپنی ساری گھٹن دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کے ایک ایک خم کو سنوارنے میں نکال دی۔

عیسائیت کے پیروکاروں نے بھی رہبانیت اور مذہب کے نام پر جو غیرفطری پابندیاں خود پر عائد کر رکھی ہیں، ان کا ایک ردعمل حال ہی میں امریکا کے ایک کیتھولک چرچ میں سامنے آیا ، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے والے وہی مذہبی مبلغ تھے،جو ہر اتوار کو اعتراف کی کھڑکی میں بیٹھ کر سادہ دل عیسائیوں کے معمولی گناہوں کا اعتراف سنا کرتے تھے۔ کبھی انکو خود اپنے گناہوں پر اعتراف کا خیال نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے؟ بھلا سنیما کا مالک بھی کبھی ٹکٹ خریدتا ہے، فلم دیکھنے کے لیے؟

پاکستان میں مذہبی مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے جن حالات میں رہتے ہیں، اور ان پر اپنی ہی خود ساختہ تعلیمات و تشریحات کی وجہ سے جو پابندیاں عائد ہوتی ہیں، وہ کسی بھی انسان کو جنسی گھٹن کا شکا ر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اکثر قاری حضرات بالکل نوجوانی کی عمر میں بچوں کو پڑھانے لگ جاتے ہیں۔ دن رات کا ساتھ، تفریح کے دیگر مواقع سے محرومی ، زہنی پسماندگی اور جوانی کی عمر کے تقاضے مل کر ایک انتہائی پاکیزہ شعبہ اختیار کرنے والے شخص کو ایسے افعال کی طرف دھکیل دیتے ہیں، جہاں سے وہ چاہ کر بھی باہر نہیں آ سکتا۔

انسانی نفسیات کے شعبے میں ایسی تحقیقات ہو چکی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ فنون لطیفہ، اور دیگر تفریحی سرگرمیاں انسان کو جنسی لحاظ سے نارمل رکھتی ہیں۔ مگر اگر کسی شخص کو ان تمام سرگرمیوں سے دور کر دیا جائے تو لامحالہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ مجھے اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں دو نوجوان مولوی حضرات کسی انڈین گانے پر رقص کر رہے تھے۔ ظاہر ہے ویڈیو شئیر کرنے والے ان کے مذہبی حلیوں کی وجہ سے انکا مذاق اڑا رہے تھے۔ مگر میں سوچ رہا تھا کہ اتنی گھٹن میں یہ اگر ناچیں بھی نہ تو پھر وہی تو یہ کریں گے، کہ جس کا پتہ چلنے پر ہم مولوی حضرات کے خلاف لٹھ لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔

ایک آخری بات جو اس جنسی گھٹن کی جانب اشارہ کرتی ہے وہ یہ کہ آپ کسی بھی ایسے معاشرے کا جائزہ لیں جس میں غیر فطری جنسی رویوں کا زیادہ زور ہو، جیسا کہ مردوں کا مردوں سے ہی جنسی ضروریات پوری کرنا، تو لازم ہے کہ آپ ایسے معاشرے میں مرد و عورت پر بے جا اور غیر فطری پابندیوں کا بھی مشاہدہ کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا مضمون نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”گھمن گھیریاں اور مذہبی لوگوں میں جنسی گھٹن ۔ ۔ ۔ محمود فیاض

  1. bhot acha likha ap ne. bay-ja aur ghar fitri pabandyon ki wazahat kar den.. agar is per column likh den to zyada acha ho ga. Jazakallah

  2. You have draw attention on a very valid situation of a section of our society but you remained focused on a certain aspect of their actions. Its not so simple to comprehend their all actions. Secondly, I am surprised to read last lines. Your conclusion is not convincing because, we all see that Gayism and lesbianism are widely practiced in Europe and America, where there is no bandages & restrictions on women.

Leave a Reply