وطن عزیز میں میاں قرض کی بہت دھوم تھی۔ دھوم بھی ایسی ویسی! سمجھیے بینڈ باجے کے ساتھ دھوم۔ میاں قرض فرض کی نیکیاں ناپ تول کر بانٹا کرتے تھے اور تشہیر والی نیکیوں پر سونے چاندی کے ورق سجا کر رکھتے۔ لونگ، الائچی کی خوش بو کے ساتھ، سریلے نعروں کے جلو میں میاں قرض کی نیکیاں سر پر چادر اوڑھے، پردہ کیے موالیوں سے چھپتی پھرتیں کہ کہیں نظر نہ لگ جاوے۔
میاں قرض نے اپنے گرد ہالے بنا رکھے تھے۔ سیر کو سوا سیر ملا تو پھونکوں کے کاروبار سے درویشی کشید کرنے کے ماہر لڑکھڑانے لگے۔ لیکن میاں قرض کی صنعت کاری عروج پر تھی۔ میاں قرض نے نیک نامی پر بھی بہت کام کیا۔ اتنا کام، اتنا کام جس سے ملک کے طول و “ارض” میں ان کی چرچا ہونے لگی۔ وہ روز صبح سب ملازموں کو اپنے ہاتھ سے کھانا بانٹتے اور ہر ایک کی روٹی سے چوتھا حصہ الگ سے صندوق میں ڈالتے رہتے لوگوں کے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ صندوق نہیں، دریا ہے اور وہ “نیکی کر دریا میں ڈال” کے محاورہ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں ایسے بہت سے میاں قرض موجود ہیں جو مانگے کی مے پر اچھلتے کودتے اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ پچاس ہزار کا قرض حسنہ دینے والے درویش بابا استاد کی اجرت چھ ہزار ماہانہ طے کرتے ہیں۔ اور ان کے صندوق میں نیکیاں بھرتی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرض حسنہ سے زیادہ اہم استاد کی ضروریات نہیں ہیں۔
وزیر اعلی محترمہ مریم نواز شریف سے درخواست ہے کہ نجی اور نیم اداروں میں اور خاص طور پر قرض حسنہ کا کاروبار کرنے والے اداروں میں استاد کی تنخواہ بھی کم از کم مزدور کی اجرت کے برابر یعنی بتیس ہزار طے کی جائے۔ چھ ہزار ماہانہ کمانے والے استاد سے کارکردگی کا سوال کھلی بے انصافی اور تضاد ہے۔ مسائل شروع میں سمجھ لیے جائیں تو بعد میں کمیٹیاں بنانے کی اذیت سے بچا جاسکتا ہے۔
حال تو یہ ہے کہ دس پندرہ لاکھ ماہانہ کمانے والا منصف اپنی کرسی پر ملکی نہیں، نظریاتی جھنڈے لگا کر فیصلہ کرتا ہے اور بے انصافی کی لہروں سے انصاف کا پانی فلٹر کرکے اپنے صندوق میں بھرتا رہتا ہے۔ جب جہالت و دہشت گردی کو سیاسی چھیڑ چھاڑ کہا جائے تو عوام کا ذوق سلیم گٹروں کے ڈھکن اٹھا کر مزہ لیتا ہے اور اپنے گردو پیش میں لوگوں کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ہمارے ملک میں ایک قانون ہے، نہ ہی ایک نظام تعلیم۔ صحت سے دفاتر تک ہر جگہ خواص و عوام کی تخصیص نے دو رخی نہیں صد رخی تلواریں، خنجر اور من پسند ہتھیار تخلیق کر رکھے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں جو ہتھیار آئے، وہ اسے بغیر ہچکچاہٹ اور نتائج و عواقب کی پرواہ کیے بنا استعمال کرتا ہے۔ خواص کے ہاتھ میں ہتھیار عوام کی بوٹیاں نوچنے کو تیار ہیں۔
اس سسٹم نے کتنے ہی مایوس اور ناامید تخلیق کیے ہیں جو یہ ہتھیار خود پر ہی استعمال کرکے معاشرتی سانحوں میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ ایک وزیر اعلی نے تو اس کا حل یوں نکالا ہے کہ رشوت لینے والے کے سر پر اینٹ ماری جائے۔ ایسے معاملات میں اینٹ کثیر المعانی لفظ ہے۔ شاید وہ معاملہ حل کروانے کے لیے کاغذی اینٹ کے استعمال کا مشورہ دے رہے ہیں۔ معاملہ سنگین بنانے کے لیے لفظی پتھر اور اینٹوں کا استعمال تو ازل سے جاری ہے۔ کچھ “پیر زائل” تو تعویذ کی صورت اینٹیں فراہم کرکے ذہنی اپاہج تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ اور اب تو سیاسی اپاہج کا ایک گروہ بھی تخلیق ہو چکا ہے اور تعلیمی اداروں پر چھایا ہوا ہے۔
ایچی سن کالج کا معاملہ بھی یک رخی فیس کا معاملہ نہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ کس طرح مریم نواز شریف کو وہاں آنے سے روکنے کے لیے طلبہ سے نعرے لگوائے گئے اور ان کی آمد کینسل کی گئی۔ ایک تعلیمی ادارے میں سیاست کی اس قدر زہریلی اور پر تعصب گروہ سازی سوالیہ نشان ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جہاں وزیر اعلی کی تعلیمی اداروں میں انٹری بین کی جائے وہ وزیر اعلی تعلیم کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کا کام مذہبی و سیاسی تعصب سے بالاتر کردار سازی ہے۔ اپنی پسندیدہ شخصیات کی تشہیر نہیں اور پھر ضمیر جاگنے کی کہانی الگ ہی دل چسپی کی حامل ہے۔
زبان خلق نقارہ خدا ہے لیکن کچے اذہان کی زبان پر اپنے نیم شعوری خیالات لادنے کا فائدہ۔ اپنی تشہیر اور کاروباری فائدہ کے لیے دوسروں کی روٹی سے اپنے صندوق بھرنے کا جواز کوئی وجود نہیں رکھتا۔ عبد الستار ایدھی بننا آسان نہیں جہاں نہ مالی طمع کی منظر کشی ہے نہ مذہبی منافرت، نہ سیاسی کشیدہ کاری ہے۔ نہ تعلیمی اداروں کی چین بنانے کی نیکی اور نہ ہی اہل اقتدار کی نیابت کا لالچ۔ اب نیکی تشہیر کی میزان پر سوار چیخ پکار کا بے سرا راگ ہے۔
پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کرکے چیخے گا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں