نیند، تہذیب کا تحفہ ہے۔۔ادریس آزاد

ماہرینِ ارتقأ کا کہناہے کہ نیند تہذیب کا عطاکردہ تحفہ ہے۔ جنگلوں اور غاروں میں رہنے والا انسان ایک آنکھ سے سوتا اور دوسری سے جاگتا رہتاتھا۔ بالکل جنگلی جانوروں کی طرح۔ وحشت کی زندگی میں دہشت ہی دہشت ہوتی ہے۔ ہم کسی جانور کو سوتا ہوئے دیکھیں، تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت ہی کچی اور ادھوری سی نیند سوتے ہیں۔ مثلاً کُتا، اپنی انگلی دونوں ٹانگیں پھیلا، اُن پر سر رکھ کر سوتاہے، لیکن ذرا سی آہٹ پر بار بار اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ حشرات الارض سے لے کر ہاتھی جیسے بڑے بڑے جانوروں تک کوئی گہری نیند نہیں سوتا۔ ماہرینِ ارتقا کا کہنا ہے کہ ماقبل تاریخ کا انسان بھی ایسا ہی تھا۔ اسے بھی ہر وقت، ہرلحظہ، ہرآن اپنے چاروں طرف خطرات ہی خطرات کا احساس رہتا تھا اور اس لیے وہ بھی کچی اور ادھوری سی نیند سوتا تھا۔
کچھ تحقیقات میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انسانوں میں آٹھ گھنٹے لگاتار سونے کی عادت بہت بعد میں نمودار ہوئی۔ بہت پہلے یعنی ماقبل تاریخی ادوار میں انسان بار بار سوجاتا تھا اور ہر بار وہ تھوڑا سا سوتاتھا۔ وہ دن میں کئی کئی بار جاگتا، اُٹھتا، تھوڑا چلتا پھرتا، حاجات سے فارغ ہوتا، کچھ کھاتا اور پھر سوجاتا۔ صبح کی بیداری کے بعد وہ نسبتاً زیادہ وقت کے لیے جاگتا تھا۔ ہومیوسیپیَنوں کے ماہرین نے لکھاہے، کہ افریقہ کے ساحلوں پر مچھلیوں کا شکار کرنے والے انسان سب سے پہلے فارغ وقت گزارنا شروع ہوئے۔ انہیں نسبتاً شکار جلدی مل جاتا تھا اور وہ کافی وقت کھلے آسمان تلے گزارتے تھے۔ یورپ میں البتہ زندگی مشکل تھی اور وہاں کی انسان نما نسلیں یعنی نینڈرتھل وغیرہ خالص شکاری تھی۔ برف کے موسموں میں شکار کم ہوتا تھا اور قدرے بہتر موسموں میں بھی پھلدار درخت زیادہ نہ ہوتے تھے، اس لیے ان کا مکمل انحصار شکار پر تھا چنانچہ وہ ماقبل تاریخ کے وحشی ترین قبائل تھے۔
کرومیگنان، آسٹریلوپتھی کس اور دیگر کئی نسلیں، بالخصوص ایشیأ اور برصغیر کے ’’گیدرَر‘‘ (دانہ کھانے والی نسلیں)، نسبتاً کم خطرات میں پروان چڑھیں۔ تہذیب کی ابتدأ گرم علاقوں میں ہوئی۔ خاک میں بس جانے، فصلیں اُگانے، بستیاں بسانے اور خانہ بدوشی ترک کردینے کے بعد انسان ماقبل تاریخ کے مقابلے میں محفوظ ہوگیا۔ یہی وہ دور ہے جب نیندکے اوقات اور گہرائی می اضافہ ہوا۔ تہذیب جوں جوں پروان چڑھتی گئی، نیند لمبی، گہری اور نظام الاوقات کی پابند ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی آگئی اور ڈاکٹروں نے اعلان کردیا کہ آٹھ گھنٹے کی لگاتار گہری اور اچھی نیند لینا انسانی صحت کے لیے ضروری ہے۔
لیکن پھر یوں ہوا کہ،
تمدّن اور تمدّن کے عذابوں نے انسانوں سے نیند چھین لی۔ تہذیب کی عطاکردہ نیند تمدّن نے چھین لی۔ انسان ذہنی دباؤ اور شعوری ابہامات کا شکار ہوگیا۔ ہارٹ اٹیک جیسے امراض بڑھ گئے اور نیند کی دیوی، واپس، جہاں سے آئی تھی شاید وہیں لوٹ گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply