کتاب چھپوانے کا سفر – ایک روداد ( قسط سوم)-عاطف ملک

نوٹ: کسی فرد یا ادارے سے مماثلت کو زمان و مکان یا اعمال کااتفاق جانیے گا۔

کتاب تیار تھی  اور اشاعت کا معاملہ تھا۔

ایک دوست نے ایک  اور اشاعت گھر سے متعارف کروایا۔ بات ہوئی تو کہنے لگے آج سے ہم آپ کے سنگی ہیں۔ جیسے آپ چاہئیں گے ویسی کتاب شائع ہوگی۔    ہمارا کتابیں شائع کرنےکا تجربہ بہت اونچا ہے کہ  ابھی بھی پچاس کتابیں اشاعت کےمرحلے ہیں۔ اونچے تجربے پر  پھر    یوں روشنی ڈالی  کہ ہم اعلی عہدوں پر فائز رہنے والوں کی داستانِ حیات چھاپتے ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ، جرنیل،  بینکر،  کئی ہم نے مصنف بنائے ہیں، دام دیجیئے صلائے عام ہے۔  پوچھا کہ یہ مصنف کیسے بنائے جاتےہیں۔ بولے کہ ہم ان کے انٹرویو   کرتے ہیں، اسے ریکارڈ کرتے ہیں، پھران کا کہا ہم  لکھتے ہیں، پھر مصنف کی کتاب شائع  ہوجاتی ہے۔  پتہ لگا کہ رقم ہو تو دل پر گذرتی بھی کوئی اور  رقم کردیتا ہے، اور   پرورشِ اطفال ہی نہیں بلکہ پرورشِ لوح و قلم    بھی مناسب کرائے پر دستیاب ہے۔ سروگیٹ مدر یعنی کرائے کی ماں کے ساتھ اب سروگیٹ مصنف بھی دستیاب ہیں، فرینڈز ناٹ ماسٹرز سے ان دا لائن آف فائر  ، پٹاری سے کیا کیا نہیں نکل سکتا۔

خیال آیا کہ  اوراقِ منتشر کے ایک مضمون میں  اعلی عہدوں سے ریٹائرڈ ہونے  والوں کے بارے میں لکھا تھا ،  ” جیسے جیسے کہانی سنانے والے کا عہدہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے، اس کی کہانیاں تیزی سے اپنے جانب آتی ہیں، اور پھر وہ مقام آتا ہے کہ کہانی سنانے والا اپنے ہی گرد والہانہ رقص کر رہا ہوتا ہے، دیوانہ وار ناچتا ہے۔ یہ چھب دکھاتی طوائف نہیں ہوتی بلکہ وقت کا مارا، حقیقت سے فرار مانگتا ناچار نچیا ہوتا ہے۔ ایسا ناچنے والا جو اپنا تماشبین بھی خود ہی ہے۔ یہ زندگی کا رقص نہیں بلکہ حسرتوں کا ناچ  ہے۔ مور کا سنا ہے کہ پنکھ پھیلائے ناچتے اپنے پیروں کو دیکھ کر روتا ہے، یہ نچیا اپنے ماضی کو یاد کر کر کے روتا ہے، ہائے گئے وقت نچایا کرکے تھیا تھیا”۔

ہم نے عرض کی کہ جناب ہم تو  کتاب خود لکھنے کے گناہگار ہیں۔  کہنے لگے  ، چلیے، ایک تجربہ یہ بھی کر لیتے ہیں ورنہ تو ہم صرف  عہدیداروں کی پرہیز گار سوانح ہی چھاپتے ہیں ، ہم نے پوچھا سوانح پرہیزگار ہونی چاہیئے، عہدیدار کا تو پرہیز گار ہونا شرط نہیں۔   کہنے لگے، آپ  پرہیزگاری کے پیمانے پر پریشان نہ ہوں۔ آپ کی کتاب چھاپ دیں گے کہ آپ ایک تعلق سے آئے ہیں۔ ہم نے  سوچا   وقت پر پتہ چل جائے گا  کہ ” راہ پیا جانے ، تے واہ پیا جانے”۔

اگلے کچھ ماہ ان سے  معاملات طے کرنے میں لگ گئے۔ کاغذ  کی قسم کون  سی ہوگی، سفید ہوگا کہ پیلاہٹ آمیز ہوگا، کتاب کا کور ہارڈ ہوگا کہ سوفٹ وغیرہ ۔ زبانی بات کرتے تھے، ایک دو دفعہ سارے معاملات ای میل پر بھیجے ، اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ کتاب کا مسودہ  انہیں پہنچایا ۔ قیمت کے متعلق بات چیت ہوئی۔ کہنے لگے  آپ سے کتاب چھاپنے کے پیسے نہیں لیں گے،  ایک ہزار کتاب ہم خود چھاپیں گے  ۔ آپ کو رائیلٹی نہیں ملے گی، اس کے بدلے میں آپ کو دو سو کتابیں دے دیں گے۔  ہم نے پوچھا کہ کتاب کی قیمت کیا ہوگی؟ بتایا کہ دو ہزار روپے سکہ رائج الوقت قیمت رکھیں گے۔

اس سے قبل   جس اشاعتی ادارے سے بات کرتے تھے، وہ کہتا تھا کہ آپ نئے مصنف ہیں، آپ کو کون جانتا ہے۔ سو کتاب کی اشاعت کے پیسے آپ لگائیں۔ یہ پہلی دفعہ کسی نے کہا کہ ہم آپ سے پیسے نہ لیں گے تو ہم نے سوچا کہ چلیں ٹھیک ہے۔  وقت گذرنے لگا، مسودے کی تین چار مرتبہ پروف ریڈنگ ہمارے ذمہ رہی۔  مسودہ ہم نے خود مائیکروسوفٹ ورڈ میں ٹائپ کیا تھا۔  مائیکروسوفٹ ورڈ میں الفاظ ایک دوسرے میں رشتہ داروں کی طرح بے وجہ در آتے ہیں، مثال یوں لکھا کہ “وہ سوسائٹی کا  رکن تھا”، یعنی کسی سوسائٹی کا ممبر تھا   مگر ورڈ کی وجہ سے کارکن پڑھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے پروف ریڈنگ بہت تکلیف دہ تھی۔  ہر دوسری سطر میں اس بنا پر نشان لگانے پڑے۔ املا کی غلطیاں مقابلتاً کم تھیں۔ مسودے کو پرنٹ کیا، اس پر اغلا ط کی نشان دہی کرکے مسودہ ان کے پاس آسٹریلیا سے بھجوایا۔ وقت گذرتا گیا، کبھی  بتاتے کہ خاندان میں وفات ہو گئی ہے چھ ماہ اس   افسوس میں گذر گئے۔  سمجھ نہیں آتی تھی کہ   ہم تو نئے مصنف ٹھہرے ، وہ دعوی کردہ   عہدیداروں کے  پچاس مسودے کس ماتم میں  سرکشیدہ پڑے  ہیں۔  اسی وقفہ ِ وفات، پیدائش، پروف ریڈنگ میں دو سال گرد ہوئے۔ قبلہ سے پوچھا، حضرت  ، کچھ تو بتلاو۔ کہنے لگے آپ تو پہلے بتلائیں ، ہم نے پوچھا کیا؟ کہنے لگے ، آپ کے احباب میں سے  کوئی ہوں گے  کہ دو سو کتابیں خرید کر عطیہ کردیں۔  کہا کہ بھائی، یہ جو آپ چار لاکھ روپے کی آسامی ہم سے چاہتے ہیں،  ہم تو نہیں لاسکتے۔ اسی دوران میں مسودے کی اغلاط کی بات  بھی ہو ئی۔  ہم نے کہا ، کہ مسودے کو ان پیج کے سوفٹ ویئرمیں  لکھوالیں کہ  اردو کی اشاعت کے لیے سب سے بہتر  ہے۔ کہنے لگے، یہ نہیں ہو پائے گا، آپ سے کمپوزنگ کی بات نہیں ہوئی تھی۔ ان پیج  لکھوانے میں تو پیسہ خرچ ہوگا۔   ہم نے کہا، ایسی اپلیکشنز ہوں گی جو ورڈ کو ان پیج میں بدل دیں گی۔  اس کے بعد اس کو پڑھ لیں گے اور اگر کچھ درستگی کرنی ہو گی تو کر لیں گے،   اس سے کتاب بہتر ہو جائے گی کہ ورڈ میں  الفاظ کے  مل جانے والی  ناگواری ختم ہوجائے گی۔ اسی بحث میں پیغام آیا کہ آپ کی کتاب  فیور کے طور پر چھپ رہی ہے ۔ انگریزی میں گالی اتنی بری نہیں لگتی ، مگر ہمیں فیور کا لفظ  پنجابی کی  گالی سے کم نہ لگا کہ کسی کا احسان کیوں لیں۔  کسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ” وحشی” پڑھا تھا، افسانے کا بنیادی کردار ایک ادھیڑ عمر  کسان عورت تھی جو ایک بس کے سفر میں اپنے پاس کرائے  کے لیے  ناکافی پیسے  ہونے کے باوجود کسی اور کی  چند پیسوں کی فیور لینے کو تیار نہیں ہوتی  اور چلتی بس سے چھلانگ لگا کر اتر کر کئی میل پیدل جانے کو ترجیح دیتی ہے۔   اُس وحشی عورت کے کردار سے  ہمیں وہ افسانہ پڑھتے ہی محبت ہو گئی تھی۔  ان کے اس دو سال لٹکائے رکھنے  سے ویسے ہی طبیعیت مکدر تھی  سو  جب یہ قولِ  فضول سنا ، تو دل اُن حضرت کے ساتھ ایک وحشی کردار ادا کرنے کو تیار تھا، مگر  جس تعلق نے بھیجا تھا، ان کا خیال آڑے رہا۔   ہم نے اُسی وقت اشاعت کے اس رینگتے کچھوے سے چھلانگ لگادی، سوچا کہ جب اشاعت  خود ہی کروانی ہے تو پھر اے سنگی تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو۔

اس تمام یک طرفہ تماشے میں اب تین سال گذر گئے تھے۔ ایک اور کام مگر پایہ تکمیل کو پہنچا تھا کہ  نئے مصنف نے سوچا کہ کچھ  آراء کتاب  کے متعلق مل جائیں تو  پتہ لگے کہ تحریروں کا کیا معیار ہے ورنہ اپنا بچہ تو سب کو جہاں میں سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔    ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور کچھ احبابِ اردو تک  درخواست لے کر پہنچے، مگر یہاں بھی نیا مصنف  ہونا آڑے رہا۔  یاد آیا کہ دو ہزار پندرہ کے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے مقابلے میں اپنا  افسانہ  ” پینسل تراش” منتخب ہوا تھا جو بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کتاب “کوزہ” میں شائع  بھی کیا ۔ آکسفورڈ  یونیورسٹی پریس والوں نے اطلاع دی  کہ آپ کا افسانہ کتاب “کوزہ” میں شائع ہوا ہے، اپنی جیب سے کتاب خرید لیں۔ یہ ہمارا کسی اشاعتی ادارے سے  پہلا واسطہ تھا، مگر فنون کو  ماننا پڑتا ہے کہ جب بھی ہمارا  کوئی افسانہ شائع کیا ، ایک اعزازی شمارہ  ہم سے گم نام مصنف کو بھی بغیر قیمت  بھیجا۔ افسانوں کے   مقابلے کے کچھ دنوں بعد ایک یونیورسٹی کی تقریب میں ایک  صاحب ِکتب سے ملاقات ہوئی ۔ انہیں  اس افسانےکے چناو کا بتایا تو آگے سے پوچھنے لگے کیا آپ لوگوں کو جانتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم نے کبھی لوگوں کو جاننے اور پہچاننے کا دعوی نہیں کیا، سنا ہے  کہ پہچان  ولیوں کا کام ہے، اور ہم تو  میاں محمد بخش کے کہے کے مطابق ” میں گلیاں دا    روڑا کوڑا”۔کہنے لگے، میاں، کسی ادبی گروپ یا لکھاریوں کی گروہ بندی کے ساتھ  ہو۔  ہم نے کہا ،  کسی گروہ بندی کے ساتھ تو نہیں مگر ماں باپ نے ایک بندی سے بیاہ دیا تھا، صبر و شکر کے ہمراہ  اس بندی کا ساتھ ہے، جس میں یقیناً اس کا زیادہ کمال ہے۔ کہنے لگے، میاں پھر یہ افسانہ کیسے منتخب ہو ا؟

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب اوراقِ منتشر پر آراء   درج ذیل لنک پر  پڑھی جاسکتی ہیں ۔
https://www.facebook.com/AuraqEMuntashir

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply