• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسٹبلشمنٹ کے مفادات اور ریاستی پالیسی/کامران طفیل

اسٹبلشمنٹ کے مفادات اور ریاستی پالیسی/کامران طفیل

عمران حکومت نے جاتے جاتے معیشت پر جو کود کش حملہ کیا تھا، اس کے بعد پاکستان کا ڈیفالٹ سے بچ جانا بہت ہی عمدہ م مینجمنٹ  سے ہی ممکن ہوسکتا تھا،اس کا کریڈٹ کس کو دینا ہے یہ فیصلہ آپ خود کر لیں لیکن میں اس کا بیشتر کریڈٹ مفتاح اسماعیل کو دیتا ہوں،یہ اور بات ہے کہ پاکستان کی زیادہ آبادی جگلری اور لفاظی کی فین ہے اور سیاسی جماعتیں چونکہ پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیز ہیں اس لئے ان میں اگر کوئی باہر کا ڈائریکٹر آنے کی کوشش کرے تو یہ فیملی بزنس اپنی پوری طاقت سے ریجیکشن کی اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتی ہیں۔

مجھے قطعی حیرت نہیں ہے کہ شبر زیدی پاکستان کو بار بار ایک نان گوئنگ کنسرن کہہ رہا ہے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کا سیاسی انتظام کسی لانگ ٹرم پلان کا متحمل نہیں ہوسکتا اور شارٹ ٹرم حل موجود ہی نہیں ہے۔

شوکت ترین کے دور میں مجھے یقین ہوچلا تھا کہ اگر عمران حکومت نہ ہٹائی گئی تو ہم ترکی کے ساتھ انفلیشن اور ٹریڈ ڈیفیسٹ میں شانہ بشانہ چلیں گے۔
ترکی میں اس وقت انفلیشن ریٹ سرسٹھ فیصد اور انٹرسٹ ریٹ پچاس فیصد ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا جہاز اس وقت ٹربلینس سے باہر آگیا ہے لیکن اس کا ایک ہی انجن کام کر رہا ہے۔امپورٹس اور ایکسپورٹس کے توازن میں بہتری ہے اور ٹیکس کلیکشن بہتر ہو رہی ہے۔اگر تو ٹیکنالوجی کو تدریجی طور پر ٹیکسیشن میں استعمال کیا جاتا رہا تو پانچ سال میں مریض کے کم از کم چل کر خود بیت الخلا جانے کی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔

اسٹبلشمنٹ نے فارم سینتالیس کے ذریعے نون لیگ کے قائد کو جو کمک فراہم کی ہے اس کے عوض وزارت خزانہ ایک عطائی سے چھین کر پروفیشنل کو دی گئی ہے،جس کا مطلب ہے کہ سیاسی مفادات بہرحال ریاستی مفادات کے تابع رکھنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

نون لیگ کی حکومت کے پیچھے اس وقت عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی کھڑی ہے اسی لئے آنے والے دنوں میں سعودی عرب ریکوڈک،یو اے ای ایگری اور رئیل سٹیٹ سیکٹر میں پیسہ لگاتا نظر آرہا ہے اور کم از کم جون تک پاکستانی کرنسی میں استحکام بلکہ بہتری نظر آ رہی ہے۔

مرکزی حکومت کو جو مالی استحکام درکار ہے وہ صوبوں سے کٹوتی کیے  بنا ممکن نہیں اور یہ بات ایک ممکنہ سیاسی میدان جنگ بنتا نظر آ رہا ہے۔

ورلڈ بینک بجلی کی تقسیم میں چوری روکنے کے لئے بہت سی مالی امداد دے رہا ہے جس میں اگر سیاسی رکاوٹیں نہیں آتیں  تو پاکستان پانچ سال میں بجلی کی قیمت بھی کم کر سکنے اور اس کے نتیجے میں ایکسپورٹ وائبل بنانے میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے۔

اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کو چلا لے گی جس میں سیاسی مفادات پر بہت سے تنازعات جنم لینے کے واضح امکانات موجود ہیں اور دوسری طرف واضح دھاندلی کے بعد عوام کی اکثریت میں ایک شدید غصہ اور ردِعمل کے ساتھ ساتھ سسٹم سے لاتعلقی جنم لے رہی ہے۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس حکومت کے ڈیفیکٹو سربراہ کو ایک ایکسٹینشن درکار ہوگی اور ایک بار پھر تمام بوٹ پرستوں میں قومی اتفاق رائے ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان کے لئے بہتر راستہ یہی ہوگا کہ وہ نواز شریف اور زرداری کی طرح ذرا دیر کے لئے شیلف ہو کر جیل میں اپنی خوراک پر توجہ دیں تاکہ جب اسٹیبلشمنٹ ان کو آواز دے وہ ووٹ کو عزت دو ٹائپ نعروں کو فلش کرکے ڈنڈ بیٹھکیں لگا سکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply