تنہا تیرے ماتم میں نہیں یہ شام سیاہ پوش/عاصم کلیار

چہرے کے سب نقوش کسی روشن خواب کی شکستہ تعبیر کے گواہ ہیں۔ماتھے پر پڑی شکن اندیشہ ہاۓ امروز و فردا کی عکاس ہے۔دل گرفتگی کی علامت اس تصویر میں رحمنٰ صاحب کی آنکھوں میں بسی نمی کسی عزیز دوست کو سلامِ وداع کرنے سے گریزاں ہے۔
اس کتاب کا سرورق کسی وادیِ سکوت میں جلنے والے گھر کی راکھ سے اٹھتے ہوۓ سر مئی دھویں کیطرح میرے پیش نظر سارے ماحول اور مناظر میں اداسی کے رنگ بھرنے کا مؤجب ٹھہرا۔
اس کتاب کا آغاز موت سے ہوتا ہے۔رحمٰن صاحب کی مجھ سے ہمکلام ہونے والی یہ تصویر سعد سرفراز نے عاصمہ جہانگیر کے جنازے پر اتاری تھی۔
مگر!
موت ہمیشہ سے زندگی کے تعاقب میں ہے۔جس سے کون سر گرانی کر سکا ہے لیکن رحمٰن صاحب سے لوگ زندگی سے بڑے ہوتے ہیں۔وہ مسافر نواز ہونے کے علاوہ شجرِ سایہ دار ہوتے ہیں۔جن کے افکار کی گھنی چھاؤں لمبے عرصے تک نسل در نسل ایک تسلسل کے ساتھ بنی نوع انسان کے لیے  بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق کے حق کی آواز بلند کرتی رہتی ہے۔جو تنگ نظر لوگوں کو کشادگی کا درس دیتی ہے۔جو حسد کی بجاۓ رشک کو اپنانے پر بضد رہتی ہے۔جو بولنے کی بجاۓ سننے کو ترجیح دیتی ہے۔جو الجھنے کی بجاۓ سمجھنے کی تلقین کرتی ہے۔

کتاب کے پبلشر ایک مختصر سفر میں رحمنٰ صاحب کے ہمرکاب تھے۔اس سفر کے بعد ان کا رحمنٰ صاحب سے مسلسل تقاضا رہا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کو قلمبند کریں۔اس وقت رحمٰن صاحب زندگی کی 90 بہاریں دیکھ چکنے کے باوجود معاشرے میں سلجھاؤ کے لیے  پُر عزم ہونے کے علاوہ زندگی کے سفر میں ماہ و سال پر جمی گرد جھاڑنے کے  لیے  قلم کا سہارا لینے پر بے انتہا خوش تھے۔
سرحد کے اُس پار یکم ستمبر 1930 کو پیدا ہونے والے رحمٰن صاحب کے لیے 14 سال کی عمر تک نذر و نیاز کا سلسلہ جاری رہا۔کیونکہ وہ کمسنی میں فوت ہونے  والے کئی بہن بھائیوں کے بعد بچپن کی سرحد کو عبور کر کے لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھنے والے پہلے فرزند ارجمند تھے۔

بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے رحمٰن صاحب متوسط طبقے کے ایک کسان خاندان میں پیدا ہوۓ۔جو زیادہ تر رقبہ بارانی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ بارانِ رحمت کا منتظر رہتا،مگر قوانین فطرت انصاف کے علاوہ جینے کا بھی درس دیتے ہیں۔ایک سال دریا چڑھنے کے بعد اُترا تو وہاں کاشت کی جانے والی گندم کی پیداوار خوشحالی کی نوید لائی۔خاندان کیا اس زمانے میں پورے علاقے میں خواندگی کی شرح کم تھی۔رحمٰن صاحب کے والد وکیل اور ایک چچا سرکاری سکول میں استاد تھے۔

خاندان کو اکائی کی صورت زندگی گزارنے کا سبق دینے والی رحمٰن صاحب کی دادی نے بیوگی  کے دس سال گزارنے کے بعد انکار سے اقرار تک کی منازل طے کرنے کے بعد اپنے چھوٹے دیور یعنی رحمٰن صاحب کے دادا عبدالرزاق سے نکاح کی حامی بھری۔عبدالرزاق ایسے راست گو کہ ایک مقدمے میں اپنے وکیل بیٹے یعنی رحمٰن صحب کے والد کے خلاف عدالت میں بطور گواہ پیش ہوۓ۔
رحمٰن صاحب کے والد مہا بھارت کا میدان سجانے والے قصبے پلول میں وکالت کرتے تھے۔جو ان کے گاؤں حسن پور کے قریب تھا۔پلول سے حسن پور تک کا سفر رحمٰن صاحب بیل گاڑی،اونٹ یا گھوڑے پر کرتے۔بس سروس آنے کی صورت میں سفر کی صعبتوں میں کمی ہوئی۔

پلول میں رحمٰن صاحب کا کنبہ نواب اصغر علی کے مکان میں بطور کرایہ دار کے مقیم تھا۔نواب صاحب کے اجداد کو 1857 کی جنگ میں آزادی میں انگریز نے وسیع جائیداد سے نوازا۔پلول میں تھیٹر کمپنی آئی تو نواب صاحب اس میں کام کرنے والی اداکارہ پر ایسے فدا ہوۓ کہ پوری کمپنی ہی خرید لی اور حکم صادر کیا کہ یہ کمپنی صرف پلول میں ہی ڈرامہ پیش کرے  گی،مگر ہواؤں کو کون زنجیر باندھ سکا ہے۔وہ اداکارہ پلول سے جلد ہی کہیں اور کوچ کر گئی۔نواب صاحب کے اکلوتے سپوت علی اکبر کے فوت ہونے کے کچھ مدت بعد باپ بھی جلد خاک کا پیوند ہوا۔کانگریس جماعت کے ابتدائی رکن سید مطلبی فرید آباد اصغر علی کے داماد تھے۔جنہوں نے بیوی کو ملنے والی تمام جائیدا علی اکبر کے بچوں کو واپس کردی۔(سید مطلبی فرید آبادی کی عزیز دوست مشہور صحافی و افسانہ نگار مسعود اشعر سے بھی رشتے داری تھی۔جن کا ذکر وہ اکثر کرتے رہتے تھے)
رحمن صاحب نے اسی قصبے کے سرکاری سکول سے 1945 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔سکول میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ نظم و ضبط اور شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی۔کانگریس کی طرف سے ہندوستان چھوڑو کی تحریک کے دوران کالج کے پرنسپل کا بیٹا کرفیو کے اوقات کی خلاف ورزی کرتا ہوا انگریز کی گولی کا نشانہ بنا۔جب رحمٰن صاحب سمیت کچھ طالبعلم افسوس کے لیے  پرنسپل کے گھر گئے  تو استاد نے دروازہ کھولنے سے انکار کرتے ہوۓ کہا۔
It is an unmitigated tragedy. Grief is a very personal matter. Go home.
رحمٰن صاحب کے دادا نے نیکر اور بنیان پر طنز کرتے ہوۓ کہا میرا بیٹا اب لانگ ٹینس کے شوق میں فرنگی لباس پہنے گا۔ٹینس تو یہ جملہ سننے کے بعد انہوں نے ہمیشہ کے  لیے  چھوڑ دی مگر ہر شام گھر میں دوستوں کی جمنے والی چوکڑی میں وہ تاش ضرور کھیلتے۔یوں رحمٰن صاحب والدہ کے منع کرنے کے باوجود جلد ہی تاش کی گیم برج سیکھ گئے۔ابھی ان کی عمر چار سال ہی تھی کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔خانوادہ کے بزرگوں نے دو کمسن بچوں کی پرورش کے لیے  پینتیس سالہ نوجوان کی دوسری شادی کا بندوبست کیا۔رحمٰن صاحب کی سوتیلی والدہ کمال شفقت کے ساتھ دونوں بھائیوں سے پیش آتیں۔زندگی اور مکان نے گھر میں ڈھلنے کی پہلی ہی منزل طے کی تھی کہ سوتیلی والدہ بھی زچگی کے دوران راہی ملک عدم ہوئیں۔

آزادیِ ہند کے نعرے چار سو سنائی دے رہے تھے۔علاقے کے کئی سیاسی راہنما 1937 کے الیکشن کے دوران رحمٰن صاحب کے والد سے ملنے ان کے گھر آتے۔اسی زمانے میں رحمٰن صاحب نے جمعیت علما ہند کے سربراہ مولانا احمد سعید کی سربراہی میں عید میلاد نبی کے موقع پر رسول کریم کی انسان دوستی کے بارے تقریر کی۔جس کے بعد وہ تمام عمر رسول پاک کی سیرت کو مد نظر رکھتے ہوۓ فلاح انسانیت کے لیے  سر گرم عمل رہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران قرارداد پاکستان کی منظوری شکسہ دل مسلمانوں کے لیے راحت کے سامان سے کم نہ تھی۔لام اور تحریک آزادی کی خبروں کے معتبر ذرائع اخبارات اور ریڈیو تھے۔رحمٰن صاحب کی انگریزی زبان پر دسترس کی مشق اسی زمانے میں اخبارات کی سرخیاں اور متن پڑھنے سے شروع ہوئی۔

علی گڑھ ایک تحریک اور دبستان کے علاوہ مسلمانوں کے لیے کعبہ ہند کی حیثیت رکھتا تھا۔1945 میں رحمنٰ صاحب کا داخلہ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں ہوا۔تحریک آزادی اس زمانے میں اپنے عروج پر تھی۔علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا نظریاتی طور پر مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔رحمنٰ صاحب کے زمانہ طالبعلمی میں جب کانگریسی شو بواۓ مولانا ابوالکلام آزاد علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر رکے توان کو طالبعلموں نے جوتوں کا ہار پہنایا۔مسلم لیگ کے پرانے رکن کے لۓ 1945 کے الیکشن میں ٹکٹ کے حعصول کے لیے  طلبا کا وفد قائد اعظم سے ملنے دلی گیا تورحمنٰ صاحب بھی اس وفد کے رکن تھے۔اسی زمانے میں کاردار پنجاب سے کرکٹ ٹیم لے کر علی گڑھ پہنچے۔

ایک روز کباب بیچنے والا یونیورسٹی کے ہاسٹل آیا تو اس نے خبر دی کہ پلول میں ہندو مسلم فساد میں مسلمانوں کو بے رحمی سے ذبح کیا گیا ہے۔ڈاک کا نظام بند ہو چکا تھا رحمنٰ صاحب نے اضطراب کے ان دنوں میں قران کریم سے رجوع کیا اور اطمینان قلب کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔جب وہ کسی طور پلول پہنچنے میں کامیاب ہوۓ۔تو جس شخص اور کنبے کی بابت دریافت کرتے سب کے بارے ایک ہی جواب ملتا صاحب وہ بھی گیا۔

ایک روز وہ اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑے تھے کہ سفر کی گرد میں لپٹی ایک لڑکی نے کہا۔ مجھے وکیل صاحب کے گھر جانا ہے۔رحمنٰ صاحب کو بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا سارا خاندان فسادات میں مارا گیا ہے۔لڑکی کوکچھ روز بعد دِلی میں اس کے منگیتر کے خاندان کے پاس بھیج دیا گیا۔بسم  اللہ  نامی اس لڑکی کے بارے رحمنٰ صاحب ناول لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔
رحمنٰ صاحب کاخاندان بغیر کسی حادثے کے بھٹینڈہ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔وہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں مہاجرین کے نام پر انسانیت کی تذلیل پر مشتمل ان کہی داستانوں کو حافظے کی تختی پر لکھتے ہوۓ ملتان پہنچے۔ان کے والد الاٹمنٹ کے محکمے سے منسلک ہونے کے باوجود اپنے نام کوئی مکان آلاٹ کرانے سے گریزاں رہے۔

ملتان میں مختصر عرصے کے قیام کے بعد جب رحمنٰ صاحب لاہور آۓ تو ان کو محکمہ فوڈ میں عارضی ملازمت مل گئی جو ان کے مزاج کے خلاف تھی۔وہ نا ممکن کی جستجو میں آزادی کے نام پر بچھڑے ہوۓ کو دوبارہ زندہ سلامت دیکھنے کی آرزو میں صبح و شام ریفیوجی کیمپ جاتے۔جہاں نو جوان لڑکیاں راشن ڈپو کے افسر کے سامنے جسم کے خدوخال کی نمائش کرتے ہوۓ صرف ایک تھیلے آٹے کی طلبگار ہوتیں۔کچھ نوجوان حسینائیں ڈھلکتی ہوئی کوکھ سمیت ماں باپ سے نظریں ملانے سے کتراتیں۔ان سب دلخراش واقعات کو دیکھتے ہوۓ رحمنٰ صاحب نے ایک نظم لکھ کر احمد ندیم قاسمی کو بھیجی۔جس کو انہوں نے چھاپنے سے انکار کر دیا۔یوں رحمنٰ صاحب کی شاعر بننے کی خواہش ہمیشہ کے لیے  تمام ہوئی۔

ممتاز دولتانہ سے پہلے مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری سید خلیل الرحمان سے میل ملاقات کے دوران رحمنٰ صاحب کی نہ صرف ملکی سیاست اور بین الاقوامی معملات سے دلچسپی پیدا ہوئی بلکہ اسی زمانے میں انہوں صحافت کو بطور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کرتے ہوۓ پاکستان ٹائمز میں نوکری اختیار کر لی۔اس سے پہلے ان کا لکھا ہوا فیچر آفاق میں شائع ہو چکا تھا۔

طبقاتی تفریق کو جنم دے کر لاہور کی سماجی تاریخ کو مسخ کرنے میں گلبرگ کے قیام نے جو اہم کردار ادا کیا رحمنٰ صاحب اس کے چشم دید گواہ ہیں۔رحمنٰ صاحب ادبی جلسوں سمیت سینما کے بھی دلدادہ تھے۔وہ شام کو دوستوں کے ساتھ چاۓ خانوں پر وقت گزارنے میں مسرور رہتے۔لاہور سمیت پورے ملک کے تیز رفتاری سے زوال پذیر ہونے کے سب منظر رحمنٰ صاحب چشم نم کے ساتھ کم وبیش ساٹھ برس تک دیکھتے رہے۔

میاں افتخار الدین پاکستان ٹائمز کے مالک ہونے کے باوجود اخبار کی ادارتی پالیسی کے تابع تھے۔اگر انہوں نے کوئی خبر اپنی اخبار میں بھی شائع کروانا ہوتی تو ایڈیٹر سے کہتے ہوۓ جھجھکتے تھے۔اکثر اوقات ایڈیٹر ان کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیتے۔ایک بار میاں افتخار الدین کی پاکستان ٹائمز میں ملازمت کرنے والے مشہور فوٹو گرافر جرنلسٹ ایف۔ای چوہدری سے تلخ کلامی ہوئی تو انہوں نے کچھ دیر بعد چوہدری صاحب سے معذرت کرتے ہوۓ اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ایوب صاحب کے مارشل لا کے چند ماہ بعد پاکستان ٹائمز پر حکومتی سختیوں نے غیر جانبدار صحافت کا بادشاہِ وقت کے دل میں ہمیشہ کے لیے جس  خوف کو  جنم دیا،اس خوف نے زرد صحافت اور لفافہ صحافیوں کی ایک موج ظفر فوج پیدا کی۔جس کا خمیازہ ہمیں نجانے کب تک مزید بھگتنا پڑے گا۔

ایوب،یحییٰ اور ضیا کے مارشل لا کے علاوہ 1965 کی جنگ اور سقوط بنگال کے سانحات پر رحمنٰ صاحب ایک محب وطن شہری کے طور پر افسردہ بھی ہوۓ۔اور ایک بیباک صحافی کے طور پر انہوں نے ان عوامل پر اپنی راۓ کا اظہار بھی کیا۔

بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سحر کو انہوں نے اندھیروں میں بدلتے ہوۓ بھی دیکھا۔اور گم ناموں کومسند نشیں بھی دیکھا۔وہ اپنے مسلم تشخص اور بلوچ قبیلے کے فرد ہونے کے طور پر اس کی دانش پر ہمیشہ فخر کرتے۔عاصمہ جہانگیر کے ساتھ انسانی حقوق کے علمبردار رہے بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق کے انہوں نے انسانیت کی فلاح اور آزادیِ اظہار کا ساتھ دیا۔

میری خوش قسمتی کہ مجھے کئی برس رحمنٰ صاحب کی مجالس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔
وہ اپنے افکار کی مجسم تصویر تھے۔وہ کم بولتے اور دھیمے انداز میں مسکراتے۔وہ مظلوم اور سچ کے ساتھی تھے۔وہ شاہ اور اس کے مصائب کے محتسب تھے۔وہ انسانی مساوات کے قائل اور اسراف پسندی کے خلاف تھے۔وہ قلم کی آبرو کے محافظ اور لفظوں کی حرمت کے پاسبان تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رحمنٰ صاحب جس نسل سے تعلق رکھتے تھے۔وہ اب ناپید ہوئی  جاتی ہے۔جو ہم پر مسلط ہیں یا جو کال کوٹھڑی میں پابند و سلاسل ہیں۔وہ اپنے دھن میں اضافے کے علاوہ اپنی تعریف سننے پر بھی مائل ہیں۔اور جو صاحب قلم ہیں وہ بے آبرو ہو کر کر بھی اقتدار کی غلام گردشوں سے تعلق رکھنے پر سرفراز ٹھہرے۔
پاک سر زمین جھوٹ کی آماجگاہ میں تبدیل ہوئی۔وادیِ صحافت کی پُر پیچ راہ ہموار ہوئی۔قوم کو سچ کا بھاشن دینے والے ضمیر کو بیچ کر شاداماں ہیں۔جو آپ کی طرف دیکھتے ہوۓ ڈرتے تھے۔وہ اب نامور صحافی کے تمغے سجاۓ اپنے جہازوں پر آسمانوں سے باتیں کرتے پھرتے ہیں۔آپ فرد واحد ہونے کے باوجود اک سیلابِ بلا کو روکے ہوۓ تھے۔ہمیں ہمیشہ آپ کی ضرورت رہے گی۔
“Do you think the dear departed ever actually depart?”
“They don’t really depart in the sense that they remain in the minds of the people who remember them. They may not be around in your physical life any more but they’re in your mental life for ever.”
Margaret Atwood
اے کاش کہ آپ عدم آباد سے واپس آ سکتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply