بت پرستی سے شخصیت پرستی تک۔۔شہباز حسنین بیگ

تمام الہامی مذاہب نے خدا کی وحدانیت کا درس دیا۔شرک خدا کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ عمل ہے۔خدائے بزرگ و برتر نے انبیاء کرام کو توحید کا سبق  مخلوق کو ازبر کروانے کے لیے مبعوث فرمایا۔ظہور اسلام سے قبل عرب کا خطہ بت پرستی پر کامل یقین کے ساتھ کاربند تھا۔بت پرست اپنی پسندیدہ شخصیات کے بت اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ان کی تمام امیدیں بتوں  سے وابستہ تھیں ۔بتوں سے منسوب ہر ماورائے عقل بات کو حرزجاں  بنائے رکھنا ان کا ایمان تھا۔خدا نے انبیاء کرام کے سلسلے کے آخری نبی تاجدار دو جہاں ﷺ کو قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے  بھیجا  تاکہ انسانیت فلاح پا سکے ۔حضور اقدس خاتم النبین ﷺ نے انسانوں کے لیے اللہ تعالی کے پیغام کو پہنچا کر دین حق کی تکمیل فرما دی۔
آج کے دور میں اسلام کو بطور دین اختیار کرنے والے مسلمان مگر نجانے کیوں بت پرستی کو ترک کر کے شخصیت پرستی میں مبتلا ہو چکے  ہیں ۔شخصیت پرستی  کے شکار مسلمانوں نے بھی اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے بت تراش رکھے ہیں ،گو یہ بت مجسم شکل میں  موجود نہیں مگر طرزعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ  دل کے نہاں خانوں میں سب کا الگ الگ صنم کدہ موجود ہے۔سب اپنی اپنی شخصیت کے اسیر ہیں ۔ خدائے واحد کے پیغام کو فراموش کر کے شخصیات کے آدرش ان کے لیے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں  ۔دینی اور دنیاوی ہر معاملے میں شخصیت پرستی کی یکساں  صورتحال نظر آتی ہے۔اور زندگی کے تمام معاملات میں چاہے وہ سیاست ہو یا مذہب اکثریت کا یہی چلن عام ہے ۔خاص  طور پر برصغیر میں بسنے والے مسلمان اس علت  کا زیادہ شکار ہیں ۔

 یہ پڑھیں:  ہیرو، ہیرو پرستی اور ہمارے معیار

شخصیت پرستی نے معاشرے میں شدت پسندی اور انتہا پسندی اور جذباتیت کو فروغ دیا ہے۔معاشرے میں عدم برداشت خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے۔دین فرقوں میں بٹ چکا ہے ۔ایسی ایسی مضحکہ خیر تشریحات مذہب کے نام پر کی جاتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ابھی چند دن پہلے ہی برادرم قمر نقیب  خان نے ایک واقعہ بیان کیا ” اکثریت جانتی ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مسالک بھی انتہائی معمولی اختلاف سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،بنیادی طور پر بریلوی مسلک کے پیروکار حضور اکرمﷺ   کو حاضر و ناظر  مانتے ہیں  جبکہ دیوبندی مسلک اس کا قائل  نہیں اور اس بابت کلی اختلاف رکھتا ہے “۔تو قمر نقیب خان رقم طراز  ہیں  کہ
” ایک دن انہوں نے کسی اکابر  شخصیت سے منسوب واقعے  کہ دیوبند مسلک کی اکابر شخصیت روضہ رسول پر حاضر  ہوئی اور عرض کیا کہ حضور میری خواہش ہے کہ آپ کا دست اقدس قبر مبارک سے باہر نکلے اور میں مصافحہ کر سکوں۔تو بزرگ فرماتے  ہیں کہ حضور اکرمﷺ کا دست اقدس قبر مبارک سے باہر آیا اور میں نے مصافحہ کیا،تو اس واقعہ  کے متعلق انہوں نے فتوی کے لیے دیوبند  مسلک  کے نہایت منظم ادارے سے رجوع کیا ، جہان  ان کی طرف سے جواب آیا کہ چونکہ یہ واقعہ ایک انتہائی اہم اور پارسا  شخصیت سے منسوب ہے ۔لہذا اس کو درست مانا جائے،جبکہ یہ فتوی مسلک  کے عقیدے سے یکسر مختلف  ہے ۔مگر شخصیت پرستی کی وجہ  سے وہ اس کو درست تسلیم کر رہے ہیں ۔ہر مسلک کی اپنی اپنی شخصیات ہیں ۔ان کے اقوال  پیر و کاروں کے نزدیک حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں ۔دین کی  حقیقی تعلیمات سے رو گردانی   گوارہ ہے  مگر اکابر شخصیات کے متعلق معمولی اختلاف پر واجب القتل اور کفر کے فتوے دینا معمولی بات ہے۔

 یہ پڑھیں : مسلمانوں کا شعوری سفر کیوں رک چکا؟۔مرزا شہباز حسنین بیگ

مذہب  کے بعد یہی شخصیت پرستی سیاست میں بھی آ چکی ہے۔ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے رہنما کی ہر  قسم کی بونگیوں کا دفاع کرنا عین  فرض   سمجھتا ہے۔کوئی کارکن اپنی عقل کو استعمال کرنے کی زحمت نہیں  کرتا۔جبکہ فقط اتنی معمولی بات سمجھنے سے  نجانے کیوں قاصر ہے ۔کہ لیڈر بھی محض انسان ہے فرشتہ ہر گز نہیں ۔غلطی کبھی بھی کسی سے بھی سر زد ہو سکتی ہے۔مگر یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار شخصیت پرستی کے اس حد تک شکار ہیں کہ اپنے اپنے رہنماؤں کی ہر خطا کا دفاع کرتے وقت اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں،اور رہنما ان جاہلوں کے  دست و گریباں ہونے سے لطف اٹھاتے ہیں ۔بنیادی اصول تو یہی ہے کہ اگر کسی اکابر سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔مگر  یہاں اس غلطی کو غلطی تسلیم کرنے کی بجائے شخصیت پرستی کے اسیر اپنی تمام توانائیاں اس غلطی کی تاویلات تلاش کرنے میں  ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں  صَرف کردیتے  ہیں ۔
شخصیت پرستی نے معاشرے کو اپنی  گرفت میں لے رکھا ہے۔شخصیت پرستی کے فروغ  میں  معاشی مفادات نے اہم  کردار ادا کیا ہے۔معاشی اور سماجی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم  کچھ لوگ شخصیات کو ماورائی مخلوق بنا کر پیش کرتے ہیں ۔شخصیت پرستی نے معاشرے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو   زنگ  آلود  کر دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں بہتری کیسے ممکن ہے ؟ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کیوں قرار دیا۔انسان اور دوسری مخلوقات میں بنیادی فرق عقل ہے۔خدا نے انسان کو آگاہ کیا کہ ہم نے تم کو عقل سلیم اور شعور سے نوازا  ۔چنانچہ خدا کی عطاء کردہ نعمت یعنی  عقل کو استعمال کرنے میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں ۔شخصیات کے فرمودات کو حرف آخر ماننے کی بجائے  قدرت کی  عطا کردہ عقل کو استعمال میں لایا جائے ۔ انسانی ذہن پر اثرانداز ہونے والی بنیادی چیز دلیل ہے ۔دلیل اور منطق کی بنیاد پر استدلال کرنے میں ہی ہم سب کی فلاح اور بقاء کا راز پوشیدہ ہے۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بت پرستی سے شخصیت پرستی تک۔۔شہباز حسنین بیگ

Leave a Reply