بصارت اور بصیرت کا دھوکا ۔ محمد فیصل ۔ حصہ دوم

اب آئیے ہم الگ الگ زاویہ نگاہ اور تناظر کی بحث کو مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں:

دنیا میں جو انسان مذہب پر یقین رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی مذہب کے ماننے والے ہیں، ان میں سے 95 فیصد ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق ان کے مذہب سے پیدائشی ہوتا ہے … وہ جس خاندان،جس گھر اور جن والدین کے گھر جنم لیتے ہیں، انہی کا مذہب شعوری طور پر بھی اپنا لیتے ہیں… مذہب پر یقین رکھنے والے بمشکل پانچ فیصد دنیا میں ایسے اولعزم افراد ہوں گے جو سوچ سمجھ کر، تحقیق کر کےاپنی دانست میں سچے دین کے لیے اپنے پیدائشی دین کو چھوڑ تے ہیں… ہم میں سے بھی سب ہی الحمدللہ پیدائشی مسلمان ہیں… ہم اس بات کے ذکر کے ساتھ الحمدللہ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ ہم سچے دین کے پیروکار ہیں… اور اس لیے بھی کہ کم ازکم ہم ایسی صلاحیت اور اتنی جرات نہیں رکھتے کہ اگرخدانخواستہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے ہاں پیدا ہو تے تو تحقیق کر کے اسلام جیسی نعمت عظمیٰ تک پہنچ سکتے… اگر بالفرض ہم علم سےاسلام کو حق یقین کر بھی لیتے تو کیا وہ جرات بھی رکھ سکتے تھے جو اپنے پیدائشی دین، اپنے ماں باپ، اپنے بہن بھائی، بیوی بچے، خاندان کو یکلخت چھوڑنے اور اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہونے کے لیے چاہیے ہوتی ہے…؟ ثابت ہوا کہتمام گمراہیوں سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر چلنا صرف اور صرف عطائے خداوندی اور توفیق الٰہی ہے!

جب یہ چیز ایک مسلمان سمجھ لے تو پھر اس کے نزدیک اس کا کوئی عمل یہاں تک کہ اس کی مسلمانی بھی اسے اپنا کمال نہیں نظر آتی…اسی طرح کسی کافر کا کفر،یا کسی گمراہ کی گمراہی اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھنے نہیں دیتی!
اس بات کو سمجھنے کے لیے اسلاف میں سے ایک بزرگ ابو عبداللہ اندلسی رحمہ اللہ کا واقعہ بے حد عبرت انگیز ہے جو اکثر اہل عراق کے پیر و مرشد اور استاذ حدیث تھے۔ واقعہ تواتر سے بزرگوں نے نقل فرمایا ہے… حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ نے تفصیل سے اپنی کتاب “تکبر ام الامراض”میں اور ان کے بعد مفتی شفیع رحمہ اللہ نے ایک مستقل کتاب میں اس واقعہ کو نقل فرمایا ہے… واقعہ تو کافی تفصیل لیے ہوئے ہے، مختصر یہ کہ جب ایک بار شیخ اندلسی نے سفر کا ارادہ فرمایا تو تلامذہ اورمریدین کی ایک بڑی جماعت بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئی…ان میں حضرت جنید بغدادی اور حضرت شبلی رحمہم اللہ جیسے نامور شیوخ تصوف بھی تھے… دوران سفر ان کا گزر نصرانیوں کی ایک ایسی بستی سے ہوا، جہاں آفتاب پرست، یہودی اور بت پرست بھی رہتے تھے، قافلے والوں نے دیکھا کہ ان کے مذہبی پیشوا پادری اور بچاری وغیرہ اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف ہیں، کوئی آگ کو ڈنڈوت کر رہا تھا، کوئی آفتاب کو پوج رہا تو کوئی صلیب کو اپنا قبلہ حاجات بنائے ہوئے ہے۔ انہیں دیکھ کر شیخ اندلسی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ میرے دل میں تکبر اور اپنی بڑائی پیدا ہوئی کہ ہم مومن موحد ہیں اور انہیں دیکھو کم بخت کیسے جاہل اور احمق ہیں کہ بےحس و بے شعور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں؟
بس اسی وقت مجھے ایک غیبی آواز سنائی دی کہ یہ ایمان و توحید کچھ تمہارا ذاتی کمال نہیں بلکہ سب کچھ ہماری توفیق سے ہے، اور اگر تم چاہو تو ہم تمہیں ابھی بتلا دیں۔

شیخ اندلسی فرماتے ہیں کہ مجھے اسی وقت محسوس ہو گیا کہ میرے قلب سے ایک پرندہ نکل کر اڑ گیا، جو درحقیقت ایمان تھا! اس کے بعد شیخ کی سخت آزمائش کا دور شروع ہو گیا… اس میں کافی تفصیل ہے، پھر کس طرح ایک عیسائی لڑکی کی محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی، جس کی شدت اور غلبے نے ان سے اس عیسائی لڑکی کے باپ کے سور بھی چروائے!یہ انتہائی عبرت انگیز واقعہ حضرت شبلی قدس سرہ نےبیان فرمایا…ان کے شیخ اندلسی اپنے زمانے کے بڑے عارف، زاہد و عابد اور امام حدیث تھے مگر دوسروں کے لیے حقارت کے جذبہ اور اپنی بڑائی پر ان کو کیسی سخت تنبیہ ہوئی… تو یہ بات دل میں جمانے کی ہے کہ اگر ہم مسلمان ہیں اور صراط مستقیم پر ہیں تو اس میں ہمارا ہرگز کوئی ذاتی کمال نہیں، یہ محض توفیق الٰہی ہے…!

جب یہ محض توفیق الٰہی ہے تو وہ لوگ جنہیں پیدائشی طور پر یہ نعمت نہیں ملی اور وہ متعصب بھی نہیں، تو کیا ہمیں سوچنا نہیں چاہیے کہ وہ (یعنی غیر متعصب عامی )اپنے ماحول اور اپنے نقطہ نظر سے اپنے آپ کو ٹھیک سمجھ رہے ہیں… سو ان میں اور مقابلے پر آنے والے کفار اور ایسے گمراہ کن لوگ جن پر حق کھل گیا، مگر وہ جان بوجھ کر شیطان کے پیروکار بنے ہوئے ہیں… کے درمیان بہرحال ہمیں فرق کو سمجھنا چاہیے۔

عین یہی بات تمام اسلامی مسالک کے متبعین کے لیے ہے… اگر ہم خود کو حق پر سمجھتے ہیں کہ ہم اہل سنت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ علیہ السلام کے صحابہ کے طریقے پر ہیں تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں… مگر دوسرے مسالک جو ہمارے نزدیک گمراہ بلکہ دین سے خارج ہیں، کے عام لوگوں کو رعایت دیجیے، ان کے لیے دعاؤں کا معمول بنائیے، ان کے ساتھ دعوت کی نیت سے اچھے انداز سے پیش آئیے، ان کے ساتھ مکالمہ کیجیے… نہایت حکمت بصیرت کے ساتھ ان کو دعوت دے کر صراط مستقیم پر لائیے… مگر ہوتا کیا ہے … دعا تو دور کی بات، اس کے برعکس جب اور جہاں دیکھیے، یہی نظر آتا ہے کہ انہیں گالیاں دی جا رہی ہیں، ان کے لیے بددعائیں کی جا رہی ہیں، انہیں او مشرک، اے کافر اورجہنمی بدعتی کہا جا رہا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

پچھلے دنوں فیس بک پر کئی جذباتی نوجوانوں کی پوسٹس ایسی دیکھیں کہ آنکھوں پر یقین نہیں آیا… اتنی عدم برداشت اور نفرت!؟…یاد رکھیے کسی پرادنیٰ کفر کاحکم لگانابھی بہت بڑی جرأت اوربہت بڑی ذمہ داری ہے… فقہاء اس بارے میں اس قدراحتیاط کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا کوئی قول یا کوئی فعل نناوے پہلوؤں سے کفرمعلوم ہوتا ہو، صرف ایک پہلو سے دیکھا جائے تو وہ کفرنہ ہو، تو اسے گنجائش دیتے ہوئے ،وہ احتیاطاً کافرنہیں کہتے ۔ ہاں اگر وہ کفریہ پہلو پر اصرارکرکے اپنے لیے خود کوئی گنجائش نہ چھوڑے تو الگ بات ہے۔
آخری بات کہہ کر یہ طولانی مضمون ختم کرتا ہوں کہ بے شک بغض فی اللہ بھی ایمان کا حصہ ہے اور اشد علی الکفار بھی مومنوں کی ہی علامت ہے مگر جب کہ اپنے محل میں ہوں تو!… اپنے دل میں جھانکنا ہو گا کہ کیا جن سے آپ مخاطب ہیں، انہیں آپ واقعی پوری دیانت داری سے اسلام سے خارج سمجھتے ہیں، وہ بھی عام یہود و ہنود کی طرح نہیں بلکہ مقابلے پر آنے والے کفار کی طرح اور ختم نبوت میں نقب لگانے والے قادیانیوں کی طرح!
حق تو یہ ہے کہ جب موقع دعوت کا ہو تو مقابلے میں آنے والے کفار ہوگیا۔ تو آپ کو داعی کی صفات اپنانی ہی ہوں گی…
قصہ مختصر، یہ عرض کرتا ہوں کہ گمراہ اور گمراہ کن میں فرق کریں، سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں… بے شک علمی انداز میں ان کا تعاقب بھی کریں… مگر جو حضور کی” امت دعوت” کےعام امتی ہیں، وہ کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں… ان کو اپنے آپ میں سمونے کے لیے ان کے ساتھ الگ معاملہ کریں!…ہم انہیں حکمت کے ساتھ دعوت دے کر پھر ایک ایک کا نام لے کر دعا تو کریں… ہم اپنے بزرگوں کے حسن اخلاق سے ان کے ساتھ معاملہ تو کریں پھراثر دیکھیں… ہمیں حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کا کافر انگریزوں کو دعوت مبارزت دینا تو اچھی طرح یاد ہے مگر ہمیں شاہ جی کا ایک عیسائی بھنگی کے منہ میں اپنے ہاتھ سے نوالہ ڈالنا یاد نہیں رہتا!
(حوالہ: ایچر کی پینٹنگز کے حوالے سے ڈاکٹر انیقہ صاحبہ کے ایک مضمون سے فائدہ اٹھایا گیا!)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply