پاکستانی وومن ڈے/طیبہ ضیا چیمہ

ایک زمانہ تھا جب خواتین کا کوئی ایک دن نہیں منایا جاتا تھا بلکہ ہر دن خواتین کا ہوا کرتا تھا۔ لڑکیاں نماز فجر کے بعد تعلیمی درسگاہوں کو روانہ ہو جایا کرتیں۔ تعلیمی اور اخلاقی میدان میں خود کو منوانے کے لیئے اپنی شخصیت نکھارنے کی کوشش کرتیں۔ گھر سے سیدھی سکول کالج اور چھٹی کے بعد سیدھی گھر لوٹ آیا کرتیں۔ یونیفارم تبدیل کرکے کھانا کھاتیں اور نماز ظہر ادا کرنے کے بعد پڑھائی لکھائی میں مصروف ہو جاتیں۔

متوسط طبقہ کو ٹی وی اور ٹیلی فون کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے فرصت کے لمحات میسر تھے جو باورچی خانہ میں گزارے جاتے۔ نمازوں کی پابندی کے علاوہ فارغ وقت بہن بھائیوں کے ساتھ گپ شپ اور معصوم شرارتوں میں گزارا جاتا۔ سہیلیوں کے گھروں میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ خوشحال گھرانوں میں ٹی وی سیٹ کی رونق میسر تھی، شام پانچ سے رات بارہ بجے تک ٹی وی پروگرام نشر ہوا کرتے، تمام وقت ٹی وی بند رکھا جاتا البتہ من پسند پروگرام دیکھنے کے شوق میں گھر کے کام نمٹانے کی جلدی ہوتی۔ جن گھروں میں ٹیلی فون کی سہولت میسر تھی، لڑکیوں کو فون اٹینڈ کرنے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی کسی سہیلی کا فون سننے کی اجازت ہوا کرتی۔ مائیں کہتیں کہ “تم لڑکیوں کاکالج میں باتیں کرکے دل نہیں بھرتا جو گھر میں فون آنے لگا ہے”۔

نماز عشاء کی فراغت کے بعد دوسرے روز سکول کالج جانے کی تیاری مکمل کرنے کے بعد بسترمیں گھس جاتے۔ نیند نہ آنے کی صورت میں بہنوں کو دن بھر کی دلچسپ ڈائری سنایاکر تے۔ رات کی خاموشی میں والدین کے کانوں تک سر گوشی سنائی دے جاتی تو ڈانٹ پڑتی کہ “چپ کرکے سو جاؤ، پھر فجر کے وقت تم لڑکیوں سے اٹھا نہیں جاتا”۔

باپ اور بھائی کے رعب کا یہ عالم ہوتا کہ کوئی غلط قدم اٹھانے کے تصور سے بھی جان نکل جاتی۔ اس زمانے میں غلط قدم یہ ہوا کرتے تھے کہ بلا اجازت سہیلیوں کے گھر یا بازار جانا، بلا اجازت کسی سہیلی کو فون کرنا، بلا اجازت کسی سہیلی کو مہنگا تحفہ دینا، دن کی روشنی میں گھر کی چھت پر ٹہلنا، چست لباس زیب تن کرنا، ماں یا بہن کے بغیر گھر سے باہر جانا، ڈرائیور یا خاندان کے کسی مرد (خواہ محرم رشتہ ہو) کے ساتھ گھر سے باہر جانا۔ کہیں ضروری جانا ہوتا تو باپ یا بھائی خود ڈراپ کرتے۔ اور اگر کوئی لڑکا گھررشتہ بھیج دیتا تو اس لڑکی کی شامت آجاتی کہ اس لڑکے کو یہ جرات کیوں کر ہوئی۔

غیر ذات برادری سے رشتے آنے کو سخت ناپسند کیا جاتا۔ شکل و صورت کے علاوہ لڑکی کے سگھڑ پن کو فوقیت دی جاتی۔ مذہبی و مشرقی اقدار کے بھرپور دور میں خواتین کو منوانے کے لیے کسی ایک دن کا انتخاب کرنا نہیں پڑا بلکہ سال کا ہر دن ان خواتین کو ماننے پر مامور تھا۔ اعلیٰ درسگاہوں سے جائے نماز اور باورچی خانے تک میں دیکھی جانیوالی خواتین کا زمانہ زیادہ پرانا نہیں۔

یہی کوئی دس پندرہ سال پہلے کی باتیں ہیں۔ چونکہ وقت اس تیزی کے ساتھ بدلا ہے کہ یہ باتیں اب زمانہ قدیم کی کہانیاں معلوم ہونے لگی ہیں۔ بیس بائیس سال میں لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تھی اور اکثر لڑکیاں تعلیم کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رکھا کرتیں مگر ان دس سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے انٹر نیٹ، میڈیا اور فون کالز کے تشویشناک استعمال نے لڑکیوں کو (خواتین) بنا دیا ہے۔ معصومیت فوت ہو چکی ہے۔

سولہ سال کی لڑکی بھی پختہ صورت دکھائی دینے لگی ہے۔ دلہن کو سجانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جاتا ہے مگر (روپ) انتقال کر چکاہے۔ لڑکوں کی ماؤں کو بیس بائیس سال کی معصوم لڑکی نہ ملنے کی شکایت رہنے لگی ہے مگر والدین کی (ڈیمانڈ) بھی احمقانہ ہے کہ لڑکی بیس یابائیس سال کی ہو اور تعلیم بھی اعلیٰ ہو۔ جہالت کی انتہاء ہے۔ پروفیشنل ڈگری لینے والی لڑکی پچیس سال سے کم عمر کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اور رہا لڑکی کی معصومیت کا مسئلہ تو وہ گھر اور باہر کے ماحول سے منسلک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بائیس سال کی عمر سے تجاوز کر جانے والی لڑکی کے لیئے “وومن” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک مشرقی معاشرے کا حسن اسی روایت میں پوشیدہ ہے کہ لڑکی کو (خاتون) بننے سے پہلے بیاہ دیا جائے۔ یوم خواتین منانا سوشل سٹیٹس بن چکا ہے جبکہ گھریلو خواتین کے مسائل کا حل لبرل کلاس کے پاس نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply