عورت مارچ کا آغاز پاکستان میں 2018 میں کراچی سے ہوا ہے۔ عورت مارچ کی ابتداء MeToo موومنٹ چلنے کے بعد 8 مارچ 2018 کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہوا تھا۔ عورت مارچ کا مقصد خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا تھا لیکن عورت مارچ منعقد ہوتے ہی پورے ملک میں ایک بحث چھڑ گئی۔ عورت مارچ میں لگنے والے متنازع نعروں اور پلے کارڈز نے نیا تنازع کھڑا کردیا۔ پورے ملک میں عورت مارچ ایک ہاٹ ٹاپک بن گیا۔
عورت مارچ میں خواتین میرا جسم میری مرضی، اپنا کھانا خود گرم کرو، اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو، عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں جیسے نعروں کے پلے کارڈز اٹھائے نظر آئیں۔ ان سلوگن کے بعد پورے ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ آیا خواتین کے حقوق ایسے لئے جائیں گے اور کیا خواتین کو پاکستانی معاشرے میں ایسے مسائل کا ہی سامنا ہے یا یہ خواتین کے حقوق کی آڑ میں کسی بیرونی ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
مارچ کے انعقاد کے بعد دو طرح کے گروہ سامنے آئے ایک طرف عورت مارچ کی حمایت اور دوسری جانب عورت مارچ کی مخالفت ۔ مختلف چینلز پر عورت مارچ پر بحث و مباحثہ بھی ہونے لگے۔۔ جیسے جیسے یہ بحث جاری رہی عورت مارچ بھی جاری رہا اور کراچی کے ساتھ ساتھ اسلام آباد لاہور ملتان سمیت دیگر شہروں میں بھی اسکا انعقاد کیا جانے لگا۔ عورت مارچ کو روکنے کے لئے مختلف اقدامات کی باز گشت بھی سنائی دی جانے لگی۔ عورت مارچ کو معاشرے میں بے حیائی اور عریانی کو فروغ دینے کا سبب بتایا جانے لگا اور اسکی مخالفت میں خواتین کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی جس نے اسے انکے حقوق کی غلط اور خود ساختہ تصویر بتایا۔۔ بہر کیف ہر سال عورت مارچ کے انعقاد کے ساتھ ہی اسے روکنے اور پابندی کا مطالبہ بھی سامنے آنے لگا۔
2022 میں اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے وزیر اعظم عمران خان کو عورت مارچ پر پابندی لگانے کے ساتھ 8 مارچ کو یوم حجاب کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی۔ اس سے قبل 2020 میں اسلام آباد میں مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے 8 مارچ کو حیا مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران حالات میں کشیدگی بھی دیکھی گئی جب عورت مارچ اور حیاء مارچ کے شرکاء نے ایک دوسرے پر پتھر برسائے۔
اسی طرح 2023 میں بھی سندھ ہائی کورٹ میں عورت مارچ پر باندی کے لئے درخواست دائر کی۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کے عورت مارچ میں لگنے والے نعرے ہمارے معاشرے کے خلاف ہیں لہذا عورت مارچ پر پابندی لگائی جائے۔ عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزار پر 25 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔ عدالت نے موقف اپنایا درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے، جن نعروں پر اعتراض کیا گیا ہے اس میں کوئی قابل اعتراض چیز نظر نہیں آئی، آئین پاکستان تمام شہریوں کو نقل و حرکت کی آزادی دیتا ہے۔
یہ سلسلہ یہی نہیں رکا ہر سال کی طرح 2024 میں بھی عورت مارچ کو روکنے کے لئے عدالت سے رجوع کرلیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں عورت مارچ روکنے کے لئے درخواست دائر کی گئی۔ درخواست گزار نے اس مرتبہ بھی یہی موقف اپنایا کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے نعرے اور بینرز قابل قبول نہیں لہذا عورت مارچ پر پابندی لگائی جائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس مرتبہ بھی عورت مارچ کو روکنے کی درخواست خارج کردی۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کے عورت مارچ کے شرکاء کو ایسے نعروں کی اجازت ہونی چاہیے یا انہیں معاشرتی اقدار کے اصول و ضوابط کا خیال کرنا چاہیے۔ یقیناً یہ کبھی نہ ختم ہونے والی بحث اور دونوں جانب سے فریق بھاری دلائل کے ساتھ میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ عورت مارچ کا انعقاد پاکستان میں انتظامیہ کے لئے بھی ایک آزمائش بن گیا ہے جہاں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے سکیورٹی ہائی الرٹ رہتی ہے اور سکیورٹی کے ادارے کسی بھی پُر تشدد واقع سے نمٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
اگر خواتین کے حقوق کی بات کی جائے تو یقیناً ایک اسلامی معاشرے میں خواتین کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسلام وہ مذہب ہے جس کے نا صرف خواتین کو وراثت میں حصہ دیا بلکہ آقائے دو جہاں نبی پاک ﷺ نے آخری وصیت میں بھی امت کو عورتو ں سے نیک سلوک کی وصیت کی ہے۔ عورت جو ایک خاندان بناتی ہے اس کے حقوق سے کوئی انکار تو نہیں کر سکتا لیکن یہ بات قابل بحث ہے ان حقوق کے لئے جدو جہد کیسے کی جائے؟ کیا مردوں سے ٹکر لے کے ہی عورتوں کے حقوق لئے جا سکتے ہیں ؟ کیا ہر سال عورت مارچ ایک تنازع بنا رہے گا یا عملاً بھی کسی سال خواتین کے حقوق کے لئے کچھ کیا جائے۔؟
عورت مارچ ہر سال اپنے ساتھ کئی سوال چھوڑ کر چلا جاتا ہے اورشاید یہ سلسلہ یونہی جاری ر ہے گا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں