ناول”چھٹکی”سے اقتباس(حصہ 25)۔۔۔عارف خٹک

مونٹریال کی تُند و تیز خُنک بےرحم ہوائیں جیسے میرا جسم چیرے جارہی تھیں۔ مگر مُجھے اُس لڑکی کا انتظار تھا،جو روز اس پارک میں چہل قدمی کرنے آتی تھی۔

سترہ سال کی اُس نازک اندام لڑکی کو دیکھ کر پتہ نہیں مُجھے کیا ہوجاتا تھا۔ میرے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے تھے۔میں اپنی اُس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے پارہا تھا۔کیوں کہ وہ مُجھ سے بیس سال چھوٹی تھی۔ایک دن اُس نے مُجھ سے پُوچھ لیا۔
“سر آپ اکیلے یہاں کینیڈا میں کیا کررہے ہیں؟آپ کی فیملی کہاں ہے؟”
میں زخمی سی ہنسی ہنس کر بولا۔
“میرے چار بچے ہیں۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔سب سے بڑا   بیٹا گیارہ سال کا ہے۔بیٹی بھائیوں سے چھوٹی تین سال کی ہے۔اُن کو ماں کے پاس چھوڑ کر میں اکیلا یہاں اپنا علاج کرانے آیا ہوں”۔
اُس کی نظروں میں تاسف اُبھر آیا۔
گُفتگو کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
“پاکستان میں تو بم دھماکے بہت ہوتے ہیں۔ روز مما بتاتی ہیں،کہ اتنے لوگ بازاروں اور مساجد میں بم دھماکوں کا شکار ہو گئے۔اگر اتنی ہی بدامنی ہے وہاں،توآپ اپنی فیملی کو یہاں کیوں نہیں لے آتے؟۔”
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
“اگر ہر بندہ ایسے ہی ملک چھوڑ کر بھاگتا رہا تو پاکستان میں کون رہے گا پھر؟”
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں اُس سے پوچھنے لگا۔
“آپ کے والدین کیا کرتے ہیں؟۔”
کہنے لگی ۔
“پاپا کی تو ڈیتھ ہوگئی ہے۔ میں نے اُن کو نہیں دیکھا۔مما ایک کالج میں ذوالوجی پڑھاتی ہیں۔ وہ پاکستان سے ہیں۔ پاپا میرے پشاور سے تھے۔ مما کے پاس اُن کی کوئی تصویر نہیں ہے۔اس لئے میرے ذہن میں باپ کی کوئی ہلکی سی شبیہہ یا خاکہ نہیں،کہ کیسے دِکھتے ہوں گے”۔
میرے ہاتھوں میں ارتعاش سا پیدا ہوا۔ میں اس بچی کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ میں خود بھی پشاور سے تھا۔مجھے اس بچی پر بے تحاشا پیار آرہا تھا۔دل میں شدت سے خواہش اُبھری،کہ میں اس بچی کے سر پر ہاتھ رکھوں اور اس کو بتاؤں کہ میں بھی آپ کے ابا کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں۔۔ مگر یہ کہنے کی ہمت خود میں پیدا نہ کرسکا۔مبادا بچی کچھ اور نہ سوچ لے۔
فقط اتنا کہہ پایا۔
“کیا میں آپ کو بیٹی کہہ سکتا ہوں؟”
اُس نے حیرانگی سے سر اُٹھا کر مُجھے دیکھا اور ہنستے ہوئے بولی۔
“سر آپ کی عمر تو اتنی نہیں ہے۔ آپ تو خود بہت ینگ ہیں”۔
میں نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“بیٹا میں بھی چالیس سال کا ادھیڑ عمر بندہ ہوں۔ سمجھ لو،ٹام کروز ہوں۔ بوڑھا ہونا سیکھا ہی نہیں ہے۔”
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
میری طرف اپنائیت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
“آپ میرے پاپا کے علاقے سے ہیں تو مجھے کچھ بتائیں گے؟کہ پشاور کیسا شہر ہے؟۔”
اُس کا اشتیاق بھرا استفسار سُن کر دل میں ایک ہُوک سی اُٹھی۔ میں نے اُس کا معصوم چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔
“بیٹا پشاور پہاڑوں اور نہروں کے بیچ گِھرا صرف ایک شہر نہیں بلکہ ایک پوری ثقافت کا نام ہے۔ سوات کے بُلند وبالا پہاڑ۔گرمیوں میں اُن کی سرسبز وشاداب اور سردیوں میں پوش اُونچی چوٹیاں،ہر دو موسموں میں بے انتہا حُسن اپنے اندر سموئے ہوئے۔سر اُٹھا کر جب بندہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے،تو گردن میں جیسے خم سا آجاتا ہے۔وہاں کے امن پسند اور ملنسار لوگ آپ کو ہر دم خوش آمدید بولنے کو تیار ملتے ہیں۔ وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین پر قدم رکھو،تو وہاں کے غیور باشندے بغیر کسی رشتے کے آپ کی عزت و آبرو کے لئے کٹ مریں گے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ حیرت سے یک ٹُک اپنے ابا کے  دیس کی باتیں سن رہی تھی۔جیسے ایک چھوٹی سی بچی کوئی الف لیلوی داستان سُن رہی ہو۔اور اُس داستان میں صرف پریوں کے دیس کا ذکر ہو۔اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا اِنہماک تھا۔ میں اُس کو اپنے دیس کے رنگ بیان کرتے ہوئے خود بھی جیسے اُن رنگوں میں ڈُوب رہا تھا۔
کہنے لگا۔
“کرک کے بیابانوں میں بستے غریب لوگوں کے پاس سوائے مسکراہٹ کے اور کچھ نہیں ہوتا۔مردان اور صوابی کے گندم، گنے اور جو کے لہلہاتے کھیتوں کے بیچ بستے ہوئے لوگوں کی نزاکت اور ملنساری آپ کو مدہوش کردے گی۔ وہاں محبت اور مہمان نوازی کے علاوہ اور کُچھ نہیں ملے گا۔”
وہ حیرت سے مُنہ کھولے جیسے یقین نہ کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
“میرے پاپا کا وطن اتنا پیارا ہے؟۔”
میں نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔
“یس آپ کے پاپا کا دیس ایسا ہی ہے۔”
لیکن کُچھ توقف کے بعد اپنی زبان پر آنے والے سچ کی کڑواہٹ چُھپا نہیں سکا،اور بولنے لگا۔۔
“مگر آج کل سوات کے بلندوبالا خوبصورت پہاڑ خون سے لال ہیں۔ وزیرستان کے وہ غیرت مند لوگ آج کل اپنی عزت و ناموس کےلئے روز مرتے ہیں اور دوبارہ مرنے کےلئے پھر سے جی اُٹھتے ہیں۔ آج کل آپ کے پاپا کا دیس خونم خون ہورہا ہے۔”
اس کی آنکھوں میں جلتے خوابوں کی لو جیسے بُجھنے لگی۔
کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔
“میں آج مما کو بتاؤں گی، کہ پاپا کے وطن کا باسی اس ہسپتال میں اپنا علاج کرانے آیا ہے۔”
پھر وہ بینچ پر بیٹھے بیٹھے میری طرف سرکی اور جھجھکتے ہوئے آہستہ سے کہنے لگی۔
“سر میں آپ کو انکل کہہ سکتی ہوں؟۔”
میں نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اُس کے سر پر رکھا۔
اور بولا۔۔
“مُجھے خوشی ہوگی بیٹا”۔
وہ تشکر آمیز انداز میں مُجھے دیکھنے لگی اور پوچھنے لگی۔
“آپ میری مما سے ملنا پسند کریں گے؟وہ بہت اچھی پنجابی بولتی ہیں۔۔۔۔”
میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا۔
“آپ کی مما پنجابی ہیں؟”
میری رضامندی جان کر وہ پُرجوش انداز میں بولی۔
“جی وہ فیصل آباد سے ہیں۔”
فیصل آباد کے نام پر میں نے اپنے اندر دُور تک پھیلتے ہوئے سناٹے محسوس کیے۔
سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اپنے اندر اُمید اور خوف کی ملی جُلی کیفیت محسوس کرتے ہوئے میں نے فوراً سے پوچھا۔
“کیا نام ہے مما کا؟۔” حالانکہ یہ میری انتہائی غیر اخلاقی حرکت تھی۔ میں اُس کی ذاتی زندگی میں دخل در اندازی کررہا تھا۔
اُس نے ماتھے پر آئی آوارہ لٹ کو ایک جانب جھٹکا سا دیا۔اور پُرجوش انداز میں بولی۔
“صائمہ خٹک نام ہے اُن کا۔ مما نے ماسکو سے پی ایچ ڈی کی ہے۔۔”
چائے کا کپ میرے ہاتھ سے  گر گیا۔ ہوائیں کچھ زیادہ ہی سرد اور بےرحم بن گئیں۔ میرے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔دل جیسے دھڑکنا بُھول گیا۔ایسا لگنےلگا جیسے دُنیا تیزی سے گھوم رہی ہے۔ اور میں اپنے حواس کھو رہا ہوں۔ میں بنچ پر ڈھے سا گیا۔اور ہوش و خرد سے  بیگانا ہوتا چلا گیا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply