• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاستدانوں کو لاحق اسٹیبلشمنٹ فوبیا کمزور سیاسی سوچ کی دلیل ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

سیاستدانوں کو لاحق اسٹیبلشمنٹ فوبیا کمزور سیاسی سوچ کی دلیل ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

انتخابات ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ سیاستدان ابھی بھی پارلیمانی سیاست کی بجائے احتجاجی سیاست کو ترجیح دے رہے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان جماعتوں کے پاس پارلیمان میں نمائندگی بھی موجود ہے لیکن ان کے طرز سیاست سے وہاں بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے نزدیک پارلیمان کے اندر بھی احتجاج اور شور و غوغا زیادہ اہم اور آئینی و قانونی اور اصولی سیاست کم درجہ رکھتی ہے۔

انتخابات میں برملا دھاندلی کے الزامات فوجی اسٹیبلشمنٹ پر لگائے جارہے ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماضی کے کردار کے پیش نظر اس بیانیے کو عوامی اور عالمی سطح پر منوانے میں کوئی زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اب تو پاکستانی سیاست میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ عوامی مینڈیٹ کی بنیاد کا درجہ حاصل کر چکا ہے مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر لگائے جانے والے نئے الزام کو شواہد سے بری الزمہ قرار دے دیا جائے۔ تحریک انصاف کو ملنے والے مینڈیٹ کی زیادہ تر بنیاد یہی بیانیہ ہے لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف آج بھی پورا سچ بولنے سے قاصر ہے اور ماضی کے واقعات پر استدلال سے فوائد تو حاصل کر رہے ہیں مگر 2018 میں اسٹیبلشمنٹ سے حاصل کردہ سہولت کاریوں پر ان کو کوئی شرمندگی نہیں اور ابھی بھی ان کی ناراضگی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کو سہولت کاریوں کا سلسلہ بند کیوں کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ دہائی کی سیاست میں دخل اندازی کا  اصل مہرہ تحریک انصاف ہی ہے جو اب ایک کھلی کتاب ہے۔ جب باقی سیاسی جماعتوں نے اپنی حکمت عملیوں سے یہ راستہ بند کیا تو تحریک انصاف نے نہ صرف کھولا بلکہ اس کو تقویت بخشی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنی سیاسی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو خلا دیں جو آئینی طور پر تو کسی صورت بھی قابل جواز نہیں مگر واقعاتی سیاست میں ان کی مجبوری کو سمجھنا مشکل دکھائی نہیں دیتا۔

اب موجودہ انتخابات میں اگر دیکھا جائے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار سکیورٹی مہیا کرنے سے زیادہ نہیں تھا اور جو دھاندلی کے اشارے دیے جارہے ہیں جن میں انتخابات سے قبل نشان کا واپس لئے جانے سے لے کر نامزدگی کی درخواستوں پر مشکلات اور انتخابات کے بعد فارم 45 میں رد و بدل تک کا براہ راست کردار تو سول ایڈمنسٹریشن اور الیکشن کمیشن کا بنتا ہے مگر دھاندلی لگانے والوں کی طرف سے ان تمام واقعات یا اقدامات کے پیچھے اصل محرک فوجی اسٹیبلشمنت کو گردانا جا رہا ہے جس کی بنیاد زیادہ تر ان کے ماضی کے کردار پر استدلال ہی دکھائی دیتا ہے جس کی بنیاد پر اگر سیاستدانوں کی نفسیات دیکھی جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ فوبیا ہو چکا ہے جسے آئین و قانونی کی نظر میں ان کی سیاسی کمزوری سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دھاندلی کے الزامات کے بڑے دعوے داروں میں تحریک انصاف اور جے یو آئی ہیں جن کے پاس پارلیمان میں نمائندگی بھی موجود ہے مگر وہاں وہ اپنی سوچ و عمل سے قائد ایوان کی مفاہمتی سیاست کی آفر کے باوجود اپنے موقف پر اعتماد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ دھاندلی کی تحقیقات ہوں یا سیاست اور جمہوریت کو درپیش دوسرے مسائل ان کا آئینی و قانونی اصلاحات کی صورت میں اصل حل پارلیمان کے پاس موجود ہے۔

پاکستان کا آئین پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے اور اگر پارلیمان اس سے مستفید ہونے میں ناکام ہے تو اس کا یہ جواز مہیا کرنا کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کام نہیں کرنے دیا جاتا ،بہت ہی کمزور موقف ہے۔ جب کسی کے مدمقابل ہوں تو اپنی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کرنی ہوتی ہے اور آئینی طو پر اپنے سے کمزور کے سامنے خود ہی گھٹنے ٹیک دئیے جائیں یا اپنے ہی کچھ ساتھی ان کے ساتھ مل کر کمر لگوا دیں تو پھر مدمقابل کو دوش دینا انتہائی مضحکہ خیز عمل ہے۔

سیاستدانوں کی مفاہمتی سیاست میں اصل رکاوٹ ان کا سوچ و عمل ہے جس میں زاتی مفادات کی قومی مفادات پر ترجیح ہے جس کی جھلک ان کے قول و فعل میں تضاد، جھوٹ اور مبالغہ آرائی کی صورت میں ملتی ہے۔ جو اقتدار میں ہوتے ہیں وہ قومی مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی اقتدار کو محفوظ بنانے اور اسے طول دینے پر لگے رہتے ہیں اور جو حزب اختلاف میں ہوتے ہیں وہ تعمیری و اصلاحی تنقید کی بجائے حکومت کو ناکام بنانے اور ان سے اقتدار چھیننے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اداروں کی سیاست میں دخل اندازی کو آئینی اصلاحات اور جوابدہی کے ذریعے روکنے کی بجائے واویلا کرنا شعوری پیمانوں پر پورا اترتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔سیاست اور معاشرے میں مکالمہ اور دلیل کی سوچ ختم ہوکر ماحول انتشار کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔

پارلیمان کے اندر پہلے ایک ہفتے کی کاروائی کو اگر دیکھا جائے تو اس میں ممبران کی طرف سے وہ قائد ایوان کا خطاب ہو یا کسی ممبر کی طرف سے کسی نقطے پر اظہار خیال ان کی آواز سے زیادہ بلند باقی ممبران کی طرف سے شور سنائی دیتا ہے جس میں غالب تاثر حزب اختلاف کی طرف سے ہے۔ ان کے  تحفظات اور شکایات ان کا آئینی و قانونی حق ہے مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے اندر پارلیمانی طرز سیاست نظر نہیں آتی جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔

اس صورتحال کو ٹھیک کرنے میں سپیکر اسمبلی آئینی دفعات اور ان کی روشنی میں بنائے گئے رولز اینڈ  ریگولیشنز کا سہارا لیتے ہوئے پارلیمان کی کاروائی کو چلانے کے لئے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے لئے ان کو چاہیے کہ وہ ممبران کو ان کے بیانیے پر جوابدہ ٹھہرائیں، اگر وہ کسی کے خلاف الزامات لگاتے ہیں تو اسے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کو ریفر کیا جائے تاکہ ان سے اس کی حمایت میں ثبوت دریافت کر کے حل تلاش کیا جائے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کے خلاف رولز ریگولیشنز کو حرکت میں لائیں تاکہ انکی کی پارلیمان میں شرکت کو سنجیدہ بنایا جاسکے اور اگر ان کے الزامات میں ابتدائی شواہد موجود ہوں تو غیر جانبداری کرتے ہوئے ان پر تحقیقات کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

اب فوجی کمانڈرز کانفرنس میں انہوں نے دھاندلی کے الزامات کو نہ صرف یکسر مسترد کر دیا ہے بلکہ اس پر تشویش کا بھی اظہار کیا ہے جس کا مبینہ طور پر چیف آف آرمی سٹاف نے وزیر اعظم سے ملاقات میں بھی اظہار کیا ہے جو اہم اور انتہائی حساس معاملہ ہے جس سے نہ صرف ہماری ملکی سیاست، جمہوریت، امن اور سلامتی وابسطہ ہے بلکہ عالمی سطح پر ہمارے قومی تشخص اور عالمی برادری کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور تعلقات کا بھی معاملہ ہے لہذا اب یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر کوئی ایکشن لیتے ہوئے تحقیقات کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ اس الزاماتی سیاست سے جان چھڑائی جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں، صحافتی حلقوں، ملک کے اداروں جن میں پارلیمان، فوج اور عدلیہ شامل ہے کو اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس کو سیاسی بیانیوں کی نذر کرکے میڈیا میں اپنا مذاق بنوا کر ملکی امن اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنا کسی بھی صورت نہ تو سیاست کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملک و قوم کی خدمت کا عمل۔ اور ایسے الزامات سے چھٹکارہ تحقیقات کے بغیر کسی بھی صورت ممکن نہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اس کا اصل حل متعلقہ آئینی و قانونی فورمز ہی ہیں جن کے فیصلے فریقین کو پابند بنانے کی طاقت رکھتے ہیں اور ان پر عمل کروانے کا آئینی و قانونی طریقہ کار بھی موجود ہے اور اس کے پیچھے بھی کار فرما اصل چیز اداروں پر اعتماد ہی ہے جسے کسی نہ کسی صورت بحال اور قائم رکھنا ہی پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply