من موجی۔۔حسان عالمگیر عباسی

من موجی۔۔حسان  عالمگیر عباسی/حجرے میں موسمی ملاقاتوں کے بعد اچانک ہی ‘وکان من الغائبین’ کی تصویر بن گئے۔ ملاقاتوں کی عدم دستیابی کے باعث ذہن میں دوسرے کئی خیالات نے جگہ بنائی تو یہ خیال ذہن سے ہی جاتا رہا کہ غالباً لکھاری کچھ احباب کی تصاویر کھینچنے کا ارادہ باندھے ہوئے ہے۔ یوں ایک روز جب آپ کے حوالے سے گاؤں کے معروف ‘صاحب تحریر’ کی قلمی قلابازیوں کا آنکھوں نے سامنا کیا تو سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ آدھا سادھا سا کام ہو چلا ہے لہذا باقی کا کام بعد کے لیے چھوڑ چلتے ہیں۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا کے تعاون سے دیدار نصیب ہوا تو خیال نے جگہ بنائی کہ شاید اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایک عظیم شخصیت کو الفاظ کے چناؤ کی مدد سے سینچنے کی کوشش کی جائے تو شاید اسی بہانے صدیوں سے رکا قلم چل پڑے بلکہ یوں کہیں تو زیادہ موزوں ہے قلم تو چلنے کی چیز ہے، چلتا ہے اور چلتے رہنا ہے تو کیوں نہ لکھائی کے بہانے ریفرنٹ (موصوف) کی خدمت میں مبالغے کا تڑکا لگا کے الفاظ کا تحفہ ہی بھیج دیا جائے۔ ویسے سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ مبالغہ آرائی شاید آپ کو پسند نہیں ہے چونکہ پچھلی کئی تحاریر میں آسمانوں سے باتیں کرتے الفاظ پہ آپ کا تبصرہ ‘لکھے’ کی نفی میں تھا۔ آپ حقیقت پسندی کے قائل ہیں اور حقائق کے توڑ مروڑ کے شدت سے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک تلخ حقائق من گھڑت حقائق سے کہیں بہتر ہیں۔

یوں ایک روز جب آپ کے حوالے سے گاؤں کے معروف ‘صاحب تحریر’ کی قلمی قلابازیوں کا آنکھوں نے سامنا کیا تو سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ آدھا سادھا سا کام ہو چلا ہے لہذا باقی کا کام بعد کے لیے چھوڑ چلتے ہیں۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا کے تعاون سے دیدار نصیب ہوا تو خیال نے جگہ بنائی کہ شاید اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایک عظیم شخصیت کو الفاظ کے چناؤ کی مدد سے سینچنے کی کوشش کی جائے تو شاید اسی بہانے صدیوں سے رکا قلم چل پڑے بلکہ یوں کہیں تو زیادہ موزوں ہے قلم تو چلنے کی چیز ہے، چلتا ہے اور چلتے رہنا ہے تو کیوں نہ لکھائی کے بہانے ریفرنٹ (موصوف) کی خدمت میں مبالغے کا تڑکا لگا کے الفاظ کا تحفہ ہی بھیج دیا جائے۔ ویسے سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ مبالغہ آرائی شاید آپ کو پسند نہیں ہے چونکہ پچھلی کئی تحاریر میں آسمانوں سے باتیں کرتے الفاظ پہ آپ کا تبصرہ ‘لکھے’ کی نفی میں تھا۔ آپ حقیقت پسندی کے قائل ہیں اور حقائق کے توڑ مروڑ کے شدت سے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک تلخ حقائق من گھڑت حقائق سے کہیں بہتر ہیں۔

ابھی ڈیڑھ بجے والی آفیشل صلاۃ کے بعد میں اور میرے ہم زاد نے روشن دان سے دھوپ کی آتی چند لکیروں کے سائے میں نماز ظہر کی باجماعت ادائیگی فرمائی ہے۔ حسب عادت حضرت آدمی نے حضرت فرشتے سے علیک سلیک کے بعد جیب ڈھونڈی اور جناب فیس بک ٹٹولنے کا بابرکت آغاز ہوا۔ اس برکت کی بنیادی وجہ موصوف کی پوسٹ کا دیدار ہے۔ آپ نے ایک تصویر چسپاں کی تھی جو غالباً صورت سے کوئی مزدور صاحب نظر آتے ہیں جن کے چہرے پہ جھریاں ہیں اور مٹی نے آپ کے مٹیالے چہرے کو ڈھانپ رکھا ہے۔ اس تصویر کے کیپشن میں آپ لکھتے ہیں کہ سرخ ہے سرخ ہے, ایشیا سرخ ہے۔ سبز و سرخ حیثیتیں اپنی جگہ قائم و دائم آباد رہیں لیکن یہ وقت کالوں کے خلاف ایکائی بننے کا ہے۔ خیر سب کی خیر ہو!

روٹی کپڑا مکان آپ کا نعرہ ہے۔ بھٹو آپ کے نزدیک آج بھی زندہ ہیں۔ بی بی محترمہ تو میرے نزدیک بھی زندہ ہیں کیونکہ کل کی بات ہے آپ دونوں ہاتھوں کی مدد سے غریب فقیروں کو دہائیاں دے رہی تھیں۔ وہ منظر آپ کو مرنے نہیں دیتا۔ آپ آزاد خیال طبیعت کے مالک ہیں اور دل کی صفائی اور بڑائی پہ آپ کا ایمان ہے۔ کھلے ڈھلے ہیں۔ بچوں بڑوں بزرگوں مرد و خواتین سب کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔

آپ کے والد صاحب ایک نورانی، قد آور، رحم دل، اور خدمت گزار شخصیت ہیں جو عاجزی و انکساری و محبت و شفقت کے عملی پیکر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے عقیدت مند ‘پاک وطن’ کی لکیروں سے بھی آگے تک پائے جاتے ہیں۔ آپ کے والد محترم کے اوصاف آپ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آپ سے گفتگو میں نواز شریف اور اس کی لیڈر بیٹی سے آپ کا لگاؤ کسی حد تک شاید دیکھنے میں آیا ہے البتہ آپ کے اصل لیڈرز بی بی اور ان کے بابا ہیں اور عمران خان صاحب آپ کے نزدیک ‘تقریر الدین ایوبی’ اور ‘نواب آف سبز باغ’ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب کو آپ مانتے ہیں یا ان سے اپنا پیار چھپاتے ہیں معلوم نہیں لیکن ہمارے وہ سر آصف علی زرداری ہیں۔ چل چلو سیاست کے آپ ‘ابا’ ہیں اور سیاست دان آپ کو پیر مانتے ہیں۔ نظریہ ایک طرف رکھیں تو چل چلاؤ سیاسی معرکے لڑنا آپ اور مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلاول کے سر پہ بی بی کا ہاتھ رہا ہے لہذا وہ آپ کے نزدیک بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔

آپ دیانت دار، امانت دار، رحیم و شفیق، اور اوصاف انسانی کی بھاری اکثریت سمیٹے ہوئے ہیں۔ آپ عوام و خواص میں یکساں معروف ہیں اور نایاب روحوں میں شمار رکھتے ہیں۔ آپ کے ساتھ زندگی رہی تو ملاقاتیں طوالت لیے منتظر ہیں۔

ایک دن آپ کے حجرے میں جانا ہوا تو خلافت و ملوکیت اور سیاسی نظاموں پہ سیر حاصل گفتگو آپ نے کانوں کو تحفے میں دی۔ آپ کچھ طبقات کے شدید مخالف ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے جوتے کی نوک آپ کا تاج ہے جبکہ یزید سے دوستی امام حسین علیہ السلام کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے۔ وقت کے یزیدوں سے بھی آپ کی نہیں بنتی اور اسی لیے خاکی رنگ آپ کو پسند نہیں ہے۔ آپ کا ماننا ہے کہ سیاست دانوں کی پرورش میں یہ رکاوٹ ہیں۔ میرے نزدیک سیاست دان حضرت خاکی رح کا دایاں بایاں ہیں۔

آپ کے حجرے کو دیکھ کر سچا زمانہ یاد آتا ہے جہاں نمازی پکے اور مکان کچے ہوا کرتے تھے۔ آپ کا حجرہ دراصل آپ کے پکے گھر کے ساتھ ایک غریب کا گھر ہے۔ یہ آپ کے کوٹھی کے ساتھ ایک کچا کوٹھا ہے جہاں مٹی ہے، لالٹین ہے، بے نظیر صاحبہ کی پیکنگ میں مورتی ہے، چارپائی ہے، برسوں پرانے در و دیوار ہیں۔

یہ جان کے حیرانی ہوئی کہ آپ کے دوستوں میں نئے پرانے قدیم جدید سب ہیں۔ آپ عجیب و غریب ہیں۔ آپ کا مذہب انسانیت ہے لیکن حجرے کے ساتھ ایک مسجد بھی کھڑی ہے جہاں پانچ وقت کی نماز اور سالانہ میلاد بھی سجتا ہے۔ سنا ہے بھاری فائلز پہ آپ کے دستخط درکار ہیں لیکن آپ کی طبیعت اجازت نہیں دیتی کیونکہ آپ حق تلفی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش میں ہیں۔ آپ کے پاس سب کے لیے وقت ہے حالانکہ آپ کا وقت قیمتی ہے لیکن جب یہ چیز نظریے میں شامل ہو جائے کہ وقت بانٹا جانا چاہیے تو وقت نکالنا آسان ہے۔

سید مودودی رح اور حقیقی معنوں میں مثبت علمائے دین کے آپ حامی ہیں۔ مومنانہ فراست و حکمت رکھتے ہیں۔ اختلافات میں آگے آگے ہیں۔ آپ میں سنجیدگی کا عنصر اپنی جگہ لیکن آپ ایک چلتی پھرتی ‘انٹرٹینمنٹ’ ہیں۔ لطیفے بھی آپ کو آتے ہیں۔ لطف بھی آپ سے جڑا ہے۔ ہنسنا مسکرانا قہقہے بھی آپ کی جیب میں ہیں۔ آپ کو صرف سننے کا من چاہتا ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ آپ کو ایک ایک ماضی کا واقعہ از بر ہے۔ آپ ناسٹیلجک طبیعت کے مالک ہیں۔ سوچا تھا صرف حجرہ ہی ناسٹالجائی خطوط پہ استور ہے لیکن یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آپ کی اعمال و افعال و اقوال سب ماضی سے وابستہ ہیں۔ مائیں بچوں کو پراٹھے بنا کر کیسے کھلاتی تھیں اور بڑا بھائی چھوٹے کو کیسے دبوچتا تھا سے لے کر سلیٹ سلیٹی اور سکول آنے جانے تک سب آپ تڑکے لگاکر سٹوریز بنا بنا کے سناتے ہیں تو دکھوں اور حالیہ مجموعی تلخیوں کا مداوا و ازالہ ہونے لگتا ہے۔

ایک دن آپ کے حجرے میں جانا ہوا۔ آدھ پون گھنٹہ گزرا تو آپ غائب ہو گئے۔ واپسی پہ چار آم لائے لیکن چھری وہیں کہیں بھول آئے۔ سوچ میں پڑ گیا تو پوچھ لیا کہ انھیں کیسے کھائیں؟ کہتے ہیں: ایسے! آپ نے کہا اس کا جوس تو بننے سے رہا لہذا چوسیں۔ لوگ پوچھتے ہیں ‘چس’ کسے کہتے ہیں۔انھیں خبر ہو کہ یہی تو ‘چس’ ہے۔ یقین نہیں ہے تو غالب صاحب سے پوچھ لیں۔

آپ کا اسم گرامی مجیب الرحمٰن ہے۔ پیار والے، بڑے اور ہم جماعت پیار سے ‘موجو’ بھی کہتے ہیں۔ ویسے بھی آپ موج مستی کے قائل اور من موجی ہیں! آپ کے حوالے سے الفاظ کی کمی نہیں ہے لیکن عصر کی اذان خدا نے ہمارے نام کر رکھی ہے۔ خدا سے سودا کر لیں تو اسے اپلوڈ فرمائیں گے اور دعا بھی کریں گے کہ آپ اور آپ کے چاہنے والوں کو یہ کاوش پسند آئے۔ آمین!

Advertisements
julia rana solicitors london

نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply