• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہ عاشق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں/نذر حافی

یہ عاشق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں/نذر حافی

یہ دِن بھی آنے تھے۔ سپریم کورٹ نے ۶ فروری 2022ء کو ایک قادیانی کی رہائی کا فیصلہ سُنایا۔ فیصلے کے روز کسی مذہبی جماعت نے اس پر واویلا نہیں کیا۔ سارے عاشقانِ رسولؐ کہلانے والے خاموش رہے۔ دو تین دِن پہلے تک مکمل خاموشی رہی۔ پھر اچانک جیسے کسی نے کھڑے پانی میں پتھر پھینک دیا ہو۔ یکدم سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کیلئے ایک قادیانی کی رہائی کی خبر سب سے بڑی خبر بن گئی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اپنے ہاں ڈیموکریسی ہو یا اسلام، ہر چیز کنٹرولڈ ہے۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی طرح مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی کسی کی کوئی دلیل نہیں چلتی۔ مذہبی شِدّت پسندوں نے اسلام کو اتنا کنٹرول کر رکھا ہے کہ ہمارے ہاں فرقے تو ہر جگہ ملتے ہیں لیکن اسلام کہیں نہیں ملتا۔ حتی کہ آپ کو جابجا مساجد بھی فرقوں کی ہی ملیں گی۔ اب ایسے سماج میں چیف جسٹس صاحب نے کسی فرقے سے لو لگائے بغیر اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ ورنہ اگر اپنے فیصلے میں وہ مذہبی اکابرین میں سے کسی اکابر کی یا سلفِ صالحین میں سے کسی سلفِ صالح کی تعریف کر دیتے اور ان کا حوالہ دے دیتے تو مزاحمت کے بجائے اُن کی واہ واہ ہو جانی تھی۔

انہوں نے اکابرین کے حوالے دینے کے بجائے اپنے فیصلے میں سورة البقرة کی آیت نمبر ۲۵۶، سورة الرعد کی آیت نمبر ۴۰ اور سورة یونس کی آیت نمبر ۹۹ کے حوالے دے دیئے ہیں۔ اُن کی بات اگرچہ ٹھیک ہے کہ “دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں” لیکن ہمارے ہاں دین کی ملکیّت میں تو کچھ رہا ہی نہیں۔ مساجد، مبلغ، مفتی، نکاح، جنازے، منبر اور علماء، یہ سب دین کے نہیں بلکہ فرقوں کے ہیں۔ ان فرقوں کی جان مختلف مذہبی کلٹس (Cults) کے اندر ہے۔ کلٹس (Cults) یعنی کسی شخصیت کے گرد جمع ہونے والے افراد کا ٹولہ۔ کلٹس (Cults) کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تجزیہ و تحلیل نہیں کرتے۔ سوچنے اور پرکھنے کے بجائے صرف اپنے مُرشد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، جو مُرشد نے کہا بس وہی حق ہے۔ کورٹ نے جو کہا ہے اس سے کلٹس کو تو کوئی غرض نہیں۔ البتہ ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں مکتوب کیا ہے کہ رسول اللہؐ تک کو خالق نے یہ کہا تھا کہ ان کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ عقیدے کی آزادی اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے لیکن افسوس ہے کہ دینی امور میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور قرآنی فریضہ بھلا دیا جاتا ہے۔

قارئین کی دلچسبی سے یہ امر خالی نہیں ہوگا کہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کے اس اصول کو، کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، آئین میں ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۰ کی شق اے طے کرتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا۔ دفعہ ۲۰ کی شق بی کہتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔ آئین کی دفعہ ۲۲ یہ لازم اور مقرر کرتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جس کا انتظام کلی طور پر اس گروہ یا فرقے کے پاس ہو، اس گروہ یا فرقے کے طلبہ کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ آئین میں درج ان بنیادی حقوق سے انحراف یا گریز نہیں کیا جاسکتا۔

فاضل جج نے قرآنی تعلیمات اور آئین پاکستان دونوں کی روشنی میں اپنا فیصلہ سُنایا ہے۔ محترم چیف جسٹس کے اس فیصلے پر جرح و تعدیل کی گنجائش سے ہمیں انکار نہیں۔ تاہم قانونی طور پر اس فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو مشتعل کرنا ایک خاص چال ہے۔ اس چال کے پیچھے ہمارے مذہبی شدت پسند ہیں۔ دراصل یہ بےچارے ان دنوں شدید زخمی حالت میں ہیں۔ ابھی انتخابات میں عوام نے انہیں یکسر مُسترد کردیا ہے۔ اب دوبارہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کئے بغیر یہ اپنی طاقت کو بحال نہیں کر سکتے، چھپکلی مر گئی ہے لیکن ابھی اُس کی دُم زندہ ہے، مزید زندہ رہنے کیلئے انہیں عوامی حمایت کا تازہ خون چاہیئے، موجودہ انتخابات میں انہیں کاری ضرب لگی ہے، پورے ملک میں کوئی ایک بھی تکفیری یا مذہبی شِدّت پسند انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ چنانچہ یہ سب اپنی اپنی شکست کا مداوا کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

قارئینِ محترم ! مانا کہ قادیانی اسلام کے دائرے سے باہر ہیں لیکن ان مذہبی شدت پسندوں نے تو اسلام کے دائرے کو اتنا تنگ کر رکھا ہے کہ انہوں نے اے پی ایس پشاور کے بچوں کو بھی مسلمان نہیں سمجھا، انہوں نے تو قوالی پڑھنے پر قاری سعید چشتی اور امجد صابری جیسوں کو مار ڈالا، ان کے نزدیک تو پاکستان بنانا ہی غلطی تھا، ان کے ہاں تو پاک فوج ناپاک فوج ہے۔ قابلِ توجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو آئینِ پاکستان سمجھانے والے یہ حضرات تو آئینِ پاکستان کو مانتے ہی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میدانِ سیاست کے بعد مذہبی میدان میں بھی ان شدت پسند ٹولوں کو مسترد کیا جائے۔ آئین پاکستان کی تفسیر کرنے کی عدالتیں ہی مجاز ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں پر عدالتوں میں ہی اعتراض روا ہے۔ اگر ان مذہبی کلٹس (Cults) کو آئینِ پاکستان کی تفسیر کی اجازت دے دی گئی تو یہ ریاست کا بھی وہی حال کریں گے جو انہوں نے اسلام کا کیا ہے۔ عوام کو یاد رکھنا چاہیئے کہ بے شک! پاکستان ختمِ نبوّت کا قلعہ ہے لیکن اس کے آئین کی تفسیر کا حق کسی بھی صورت میں مذہبی شدّت پسندوں کو نہیں دیا جا سکتا۔

بقولِ اقبال:
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply