• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تعلیم کی گونج، 22.88 ملین بچوں کا مستقبل۔۔۔شیرجان شوہاز

تعلیم کی گونج، 22.88 ملین بچوں کا مستقبل۔۔۔شیرجان شوہاز

ماریا مونٹیسری Maria Montessori کہتی ہیں “بچپن کی ابتدائی تعلیم معاشرے کی بہتری کی علامت ہے.”

پر ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں، خود کو دیکھتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار جنہیں باہر کی دنیا کی کوئی خبر ہی نہیں، کبھی ان کو دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کے ہم تو اس خاتون کے قول سے کوسوں دور تک رشتہ نہیں رکھتے. ہم کبھی تعلیم اور اس کی اہمیت کو سمجھنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے. بات تو یہ ہے کہ کوئی تعلیم ِ یافتہ ہی ان لفظوں میں قید راز کی گہرائی تک جاکر اس میں چھپی وہ استراحت اور چمکتی ہوئی روشنی کی کرنوں میں جومتی خوش حال زندگی کو دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے-

ہم ابھی تک اس اکیسویں صدی میں پیغمبروں کے زمانے کے خوابوں کی چادر اپنے آنکھوں میں سجا کے رکھے ہیں اور انہی خوابوں کو ابھی تک ایک رات میسر نہیں-

ہماری لاعلمی ہی ہماری سب سے بڑی کمزوری اور ہماری دشمن ہے جو ہمیں خود کو خود ہی سے ناآشنا کرتی رہی ہے-

بلوچستان میں سب بڑا مسئلہ جو میں سمجھتا ہوں جو دہشتگردی اور غربت سے بھی بدتر ہے وہ ہے “آؤٹ آف اسکول چلڈرن” Out of School Children اس کا سب بڑا سبب ہے ہماری حکومت جو تعلیم اور اسکول سے زیادہ سڑکیوں اور محلوں کی تعمیرات میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے-

پورے ملک میں 22.88 ملین بچے اسکول اور تعلیمی اداروں سے دور “چائلڈ لیبر” Child Labour کا شکار ہیں- ان میں سے 70 فیصد بچے بدقسمت بلوچستان سے ہیں جہاں ان کو تعلیمی اداروں سے کوسوں دور لاعلمی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے-

صوبے میں لگ بھگ 12،500 پرائمری اسکول ہیں اور ان میں سے تقریباً 7000 اسکول یعنی کے آدھے سے زیادہ ایسے ہیں جو بغیر چھت، بورڈ، ٹینٹ، دیوار اور اساتذہ کے گزر بسر کر رہے ہیں. جہاں اساتذہ گھر سے نکلتے ہی اسکول کی حالت دیکھ کر واپس راستہ لے لیتے ہیں-

صوبے میں 2،200 اسکول ایسے ہیں جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور بہت سارے ایسے بھی اسکول ہیں جو ایک استاد کی زیر ِ نگرانی پہ ہیں-

تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ہر انسان کو اپنے جائز حقوق مانگنے کا پورا حق ہے-

آؤٹ آف اسکول چلڈرن بلوچستان میں بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے جس کو ہماری حکومت اور ہمارے رہنما بالکل پوری طرح سے نظر انداز کر رہے ہیں. جس کے باعث ہمارے بچے جن کو تعلیمی اداروں میں اپنے خوابوں کی کشتی اپنے لگن کی سمندر میں چلانی چاہیے تھی وہ آج کسی ہوٹل میں مالک کے طعنوں کے نیچے ایک دھول اور آئل سے بھرے کپڑے کا ٹکرا لے کے کرسیاں اور ٹیبل صاف کرنے کی ایک چھوٹی سی رقم اٹھا رہے ہیں، جن سے وہ اپنے پیٹ کی نہ سننے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں-

اس کے علاوہ بہت سارے ایسے بچے ہیں جو لاعلمی کا شکار بننے کے بعد غلط کاموں کی طرف رجوع کرتے ہیں مثلاً نشہ میں مبتلا ہونا، چوری ڈکیتی کرنا وغیرہ.

اگر ہمیں ملک کو ترقی اور خوش حالی کی سمت لے جانا ہے تو ہمارا پہلا کام ہمارے تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا- اور یہ 22.88 ملین بچے جو اسکول میں میسر خواب کے مستحق ہیں ان کو داخل کرانے کی ذمہ داری گورنمنٹ کی ہے اور بلوچستان میں باقی جو کھنڈر اسکول ہیں ان کو بنانے کی درخواست کرتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

وزیر اعلٰیٰ جام کمال صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ہدایات جاری کریں تاکہ صوبہ بلوچستان کے بھی بچے باقی صوبوں کے بچوں کی طرح پڑھ سکیں، لکھ سکیں اور اپنے خوابوں کی دنیا بنا سکیں.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply