کتوں کے انسانی حقوق/شکیل زاہد

پندرہ فروری کے روزنامہ ڈان میں دو خبریں شائع ہوئیں جنھوں نے مجھےیہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا۔ پہلی خبر سندھ ہائی کورٹ کی تھی جہاں کے چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے اَندر بھی پچاس آوارہ کتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے Rabies Control Program Sindh (RCPS) کی پروجیکٹ ڈائرکٹر کو بلایا تھا۔ پروجیکٹ ڈائرکٹر نے کہا کہ حکومت نے فنڈ جاری نہیں کیے اِس لیے ریبیز (Rabies) کی ویکسین حاصل نہیں کی جاسکی۔ دوسری خبر قصور کی ہے جہاں ایک دِن میں کتے کے کاٹنے کے چوبیس کیس رپورٹ ہوئے۔ خبر میں جانوروں کی برتھ کنٹرول پالیسی 2021 کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اِس پالیسی کے تحت آوارہ کتوں کو خصی کیا جانا ہے اَور انہیں ویکسین لگائی جانی ہے۔ انہیں مارنے کے بجائے یہ کام کرنے ہیں۔
یہ دونوں خبریں یہ بتاتی ہیں کہ ہمارے ملک میں حالات کس طرف جارہے ہیں اَور اربابِ اِختیار کس طرح سوچتے اَور کام کرتے ہیں۔ جس ملک میں اِنسانوں کی آبادی قابو میں نہ آرہی ہو وہاں ہم آوارہ کتوں کی برتھ کنٹرول کرنے چلے ہیں۔ جہاں اِنسانوں کو پولیو کے قطرے پلانا عذاب بنا ہو وہاں ہم آوارہ کتوں کو ویکسین دیں گے۔ خبر کے مطابق کتوں کو پکڑنے کا کام میونسپل کمیٹی کا ہے اَور ان کی برتھ کنٹرول کرنے اَور ویکسین لگانے کا کام ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کا۔ آج تک ایک کتا بھی نہیں پکڑا گیا۔ لہٰذا ڈی ایچ اے نے سارا ملبہ میونسپل کمیٹی پر ڈال دیا ہے۔ کسی نے سوچا ہے کہ وہ کون ہوگا جو آوارہ کتوں کو پکڑے گا؟ کسی کو کتے نے کاٹا ہے کہ وہ یہ کام کرے؟ پکڑنے والا جانتا ہے کہ مجھے تو ویکسین ہی نہیں ملنی۔ میرا علاج کون کرے گا؟

آوارہ کتوں کے حوالے سے ہمارے ملک کے اربابِ اِختیار عجیب و غریب سوچ کے حامل ہیں۔ ہمارے خیال میں اگر آوارہ کتوں کے کاٹے کی ویکسین ملک میں وافر مقدار میں دستیاب ہو تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ کسی نے نہیں سوچا کہ اکیلے آدمی کو اگر تین چار کتے پڑ جائیں تو اس آدمی کی جان بھی جاسکتی ہے۔ اگر وہ کوئی بچہ ہے تو یقیناً ہلاک ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ کتے کے بھنبھوڑنے سے جو گوشت جائے گا اَور جس ہڈی کو کتا چبائے گا اس کا کیا ہوگا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کتے کے کاٹے کا صرف ایک ہی مطلب نہیں ہوتا کہ اِنسان کو ریبیز ہوجائے۔ اِنسان بہت بری طرح زخمی بھی ہوجاتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے یا ہمیشہ کے لیے اپاہج بھی ہوسکتا ہے۔ اَیسے واقعات آئے روز ہوتے ہیں۔ جس بےچارے پر کتا حملہ کردے اَور اس کے جسم کو بھنبھوڑ ڈالے اس کی تکلیف، اذیت، خرچے کا کسی نے خیال کیا ہے؟

آپ جاپان، یورپ، چین، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں جائیں۔ آپ کو کہیں آوارہ کتے نظر نہیں آتے۔ کیا وہاں کتے ہوتے ہی نہیں؟ یا اَیسا ہے کہ انہوں نے آوارہ کتوں کے مسئلے کا کوئی علاج نکالا ہے؟ وہ علاج ہم کیوں نہیں نکال پاتے؟

لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو لوگ پالیسی ساز ہیں وہ کسی دوسرے سیارے سے آئے ہیں۔ وہ ہوا میں معلق ہیں اَور انہیں زمینی حقائق کا کچھ علم نہیں۔ انہوں نے جو کتے دیکھے ہیں وہ ان کے گھروں میں پلے ہوتے ہیں جو ان کے لیے بالکل بے ضرر ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سمجھ لیا کہ سارے کتے ہی اَیسے ہوتے ہیں۔ ان کے ٹامی اَور آوارہ کتوں میں وہی فرق ہے جو چڑیاگھر کے جنگلے میں بند اَور افریقہ کے جنگلوں میں آزاد شیر میں ہوتا ہے۔ ان پالیسی سازوں نے غریب علاقوں میں جاکر دیکھا ہی نہیں کہ آوارہ کتا کس قدر خطرناک ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے ایئرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر پالیسی بنادی کہ کتوں کو پکڑ کر انہیں خصی کردو۔

جانوروں کے حقوق کے علم برداروں سے کوئی پوچھے کہ اگر شہر میں سانپوں کی تعداد میں اِضافہ ہوجائے تو کیا ہم تریاق (antidote) کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگیں گے یا ان سانپوں کو تلف کریں گے۔ جب شہر میں ڈینگی کی وباء پھیلتی ہے تو اِن لوگوں کو مچھروں کے حقوق کیوں یاد نہیں آتے؟ تب کیوں ہر طرف اسپرے کرکے مچھر تلف کئے جاتے ہیں؟ بات اَصل میں سیدھی سی یہ ہے کہ اِن پالیسی سازوں کے گھروں میں کتے پلے ہوتے ہیں اِس لیے انہیں اِس جانور سے پیار ہے۔ اِس کو مارنے کے خیال سے ہی اِنہیں تکلیف ہوتی ہے۔ ٹڈی دل کے حملے پر ان کو تلف کردینے سے اِنہیں کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ لوگ ٹڈیاں پالتے نہیں ہیں۔

اگر سندھ ہائی کورٹ میں گھومتے پچاس کتوں میں سے چار کسی جج پر حملہ آور ہوجائیں اَور جج کی بوٹیاں نوچ لیں تو کیا پھر بھی وہ یہ سمجھیں گے کہ ریبیز کی ویکسین کی آسان فراہمی اِس مسئلے کا حل ہے؟ پالیسی سازوں میں سے کسی کے بچے پر اگر کتے حملہ کردیں تب ہم دیکھیں گے کہ جانوروں کے حقوق کی لگن کب تک زِندہ رہتی ہے۔ غریب کے بچے یا بوڑھے کی تکلیف اَور اذیت کا یہاں کسے خیال ہے؟ آپ نے کتوں کو اِنسانی حقوق تو دے دِیے ہیں، اِنسانوں کو کتوں والے حقوق ہی دے دیں۔

آوارہ کتوں کا علاج صرف یہ ہے کہ ا نہیں مار دِیا جائے۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہمارے غریب یونہی مصیبت میں رہیں گے۔ کیا وجہ ہے کہ شہر کے بعض ماڈرن علاقوں میں آوارہ کتے نظر نہیں آتے؟وہاں ضرور کچھ اَیسا ہوتا ہے کہ وہاں سے آوارہ کتے غائب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے آوارہ کتے کو ماردِیا تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازِل ہوگا۔ اس آوارہ کتے کے کاٹنے سے جس اِنسان کی موت ہوگی اس پر آنے والے عذاب کا کسی نے نہیں سوچا۔ ہم نے کہانیاں سن رکھی ہیں کہ طوائف نے آوارہ کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اسے ولی بنادِیا۔ اَیسی بے سروپا کہانیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم آوارہ کتوں کو کھانا کھلانا ثواب کا کام سمجھنے لگے ہیں۔ اسے ماردینے کے خیال سے ہمیں جہنم نظر آنے لگتی ہے۔

براہِ مہربانی پاکستان اَور پاکستانیوں پر رحم کریں۔ وہ کام کریں، اَیسی پالیسیاں اَور قوانین بنائیں جس سے یہاں کے رہنے والوں کی زِندگیاں آسان ہوں۔ دوسروں ملکوں کی مثال دیکھیں اَور جانیں کہ وہاں کیسے اِس مسئلے سے نمٹا گیا ہے۔ کوئی ریاست اَپنے شہریوں کی زِندگیاں خطرے میں ڈال کر جانوروں کی حفاظت نہیں کرتی۔ جو جانور بھی اِنسانوں کے لیے خطرہ بن جائے اسے مار دِیا جاتا ہے یا کسی اَیسی جگہ چھوڑ دِیا جاتا ہے جہاں وہ اِنسانوں کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ اسے یوں سڑکوں، گلی محلوں میں دندناتے ہوئے پھرنے کے لیے چھوڑ نہیں دِیا جاتا۔

اگر آپ لوگوں کے پاس اِس مسئلے کا کوئی مناسب حل نہیں ہے تو ہمارے لیے کسی اَور ملک کا بندوبست کردیں۔ ہم وہاں چلے جاتے ہیں اَور آپ پاکستان کو کتوں کے حوالے کردیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply