کوئٹہ کی بتول /سلیم زمان خان

(ایک سچی کہانی ،جسے بتول کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے)

ایک دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ گارڈ کا فون آیا کہ سر یہ کسی کالج کی لڑکی آئی ہے۔ کہتی ہے کسی سے بھی ملا دو مجھے کام ہے، کیا کروں ۔۔ میں نے کہا واپس بھیج دو، کہو سب مصروف ہیں۔ کچھ دیر بعد میری cctv کیمرہ اسکرین پر نظر پڑی تو وہ لڑکی گارڈ روم کے ساتھ نیچے بیٹی ہوئی تھی، میں نے گارڈ کو فون کیا کہ یہ گئی کیوں نہیں۔۔ تو وہ بولا ۔۔سر!  بہت شور کر رہی ہے کہ مل کر جاؤں گی ورنہ پانچ  بجے تک یہیں بیٹھوں گی۔

میں نے اپنی ریسپشنسٹ کو کہا اسے میرے کمرے میں لے آؤ، وہ لے آئی ۔۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے بچی نے اجازت طلب کی  ،تو میں احتراماً کھڑا ہوا، اسے بیٹھنے کو کہا ۔

اس پر ایک نظر ڈالی تو سفید یونیفارم میں تھی  اور وہ یونیفارم بھی پرانا ہونے کی وجہ سے پیلاہٹ مائل تھا، جوتوں پر بہت مٹی تھی   اور جوگر بھی شاید آخری مراحل میں تھے۔ دیکھنے سے لگتا تھا کہ بچی کافی پیدل چل کر آئی ہے۔ چہرے کی طرف دیکھا تو ہونٹ خشک اور ماتھے پر دوپٹے کے نیچے پسینے کے نشان شاید گرمی اور مٹی کی وجہ سے۔۔۔ بچی نہایت قبول صورت تھی، موسم کی تمازت سے اس کے گال  سرخ  ہو رہے تھے۔۔یا شاید دفتر میں اجنبی ماحول میں ہمت کر کے آ تو گئی تھی مگر گھبراہٹ کی وجہ سے ایسا تھا۔

میں نے اٹھ کر اسے ایک گلاس پانی دیا،جو اس نے شکریہ  کیساتھ  تھام لیا اور جلدی سے پی گئی ۔
جی بیٹا!  کیوں فساد کر رہی ہیں کیا بات ہو گئی ؟ میں نے پوچھا۔۔
وہ بولی سر!  مجھے پتہ چلا ہے کہ NGOs بچوں کی تعلیم کے خرچ اٹھاتی ہیں ، اس لئے آئی ہوں۔۔
میں نے کہا، ہر NGO نہیں، مخصوص ادارے ایسا کام کرتے ہیں۔ لیکن کیوں؟
وہ بولی مجھے پڑھنا ہے اور میرے بابا کے پاس پیسے نہیں ہیں ، مجھے ہر حال میں اپنا BBA مکمل کرنا ہے اور MBA کرنا ہے۔  مجھے پیسے چاہئیں ۔  مجھے اس NGO کا پتہ دیں جو پڑھائے اور فنڈ دے۔

ان دنوں بلوچستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ BEEF  کا قیام ہو چکا تھا اور اس کا سیکرٹری میرا ایک پرانا دوست تھا۔ لیکن مجھے نیچے کے اسٹاف کے حالات کا علم تھا،اس لئے میں اس بچی کو وہاں دھکے کھانے نہیں بھیجنا چاہتا تھا  ۔ تو میں نے اس بچی سے کہا کہ تم چائے پیو گی!  اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

میں نے چائے منگوائی وہ چائے اور بسکٹوں پر ٹوٹ پڑی۔ میں نے اس سے پوچھا تمہارے بابا کیا کرتے ہیں وہ بولی AG OFFICE میں ہوتے ہیں ابھی ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ کہتے ہیں میرے پاس جو تھا خرچ کر لیا اب بیٹیوں کو پڑھانے کے پیسے نہیں۔

میں سوچ میں پڑ  گیا کہ AG office کا بندہ اور ایسا کہے کوئی دونمبری ہو گی  اس بچی کی۔  ورنہ باپ ایسا کیوں کہے گا۔۔ دوسرا مجھے یہ سوچ آئی کہ یہ بچی جذباتی ہے شکر ہے یہاں آگئی ہے۔ کسی اور کے ہاتھ لگتی تو وہ شاید اسے آمدن کا کوئی اور ذریعہ سکھا دیتا اور اس کی ان چمکتی ہوئی روشن آنکھیں اب تک ماند پڑ چکی ہوتیں ۔ میں بہانہ بناتے ہوئے اٹھا کہ اپنے صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں کہ ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں۔  کچھ دیر بعد میں کمرے میں آیا  اور اس بچی سے کہا کہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ BBA  کی فیس مکمل کرا دیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ کل آپ کے ابو آئیں اور مجھ سے ملیں اور ساتھ ہی فریش فیس سلپ بھی لائیں۔ وہ تو خوشی سے کھڑی ہو گئی۔ ٹھیک ہے سر!  اس کی معصومیت مسکراتے ہوئے اور نکھر کر سامنے آ رہی تھی۔ میں نے اپنی  ریسیپشنسٹ  کو آواز دی کہ ۔۔۔شاہدہ ۔۔ یہ بچی کل آئے گی اس کو مجھ سے ضرور ملوا دینا  ۔اس کا کنٹیکٹ لے لو، یہ ایک پیمانہ تھا کہ اگر کل اپنے باپ کو لے آتی ہے تو ٹھیک ورنہ جو دل میں آئے کرتی پھرے۔۔

دوسرے دن میں 11 بجے آفس آیا تو میری ریسیپشنسٹ  نے بتایا کہ سر وہ بچی صبح دس بجے سے اپنے والد کے ہمراہ انتظار کر رہی ہے۔ میں نے کہا بلا لاؤ۔۔

اس کا والد ایک سلجھا ہوا پنجابی یا اردو اسپیکنگ بندہ تھا۔ تعارف پر پتہ چلا کہ وہ کسی عہدے پر AG آفس بلوچستان میں کام کر رہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کوئٹہ شہر میں بھی تخریب کاری کے ڈر سے اسکولوں میں ترانہ تک نہ پڑھایا جاتا کہ پاکستان دشمن اس اسکول پر کوئی شرارت نہ کر دیں۔ ۔لہذا ان حالات میں ایک آخرت کو ترجیح دینے والے نان لوکل بندے کا گزارہ بہت مشکل تھا  ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی مرتبہ وہ اور اس کا خاندان نان شبینہ کا بھی محتاج رہا۔ جلد ریٹائرمنٹ اس لئے بھی لی کہ بڑی بیٹی کی شادی کرنا تھی۔ بیٹے پڑھتے ہیں ایکMA  کر کے ایک ڈاکٹر کے کلینک پر مریضوں کو نمبر دیتا ہے مطلب چپڑاسی ہے جبکہ دوسرا BA کرنے کے بعد اب کوئی چھوٹی موٹی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے ( بچی کی طرف اشارہ کر کے) کہا کہ اب مزید نہیں پڑھا سکتا تو یہ ضد کر رہی ہے کہ یہ اپنے طور پر MBA کر کے دکھائے گی۔ یونیورسٹی کے سمسٹر کی فیس بھی نہیں  پوری ہو رہی۔۔ لیکن یہ کہتی ہے اسی یونیورسٹی سے پڑھوں گی۔ یونیورسٹی کی اسکالر شپ اس لئے نہیں لے سکتی کہ اس کا نہ تو ٹیوشن ہے ،نہ ہم کتاب خرید سکتے ہیں اور نہ ہی نیٹ ۔۔کہ جس سے یہ تیاری کر سکے GPA کہاں سے اچھا آئے کہ اس کو کوئی سہولت ملے  ۔میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے کہا ۔۔ آپ اس کی تعلیم سے بے فکر ہو جائیں ۔

اس بچی کے والد میرا شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔ میں نے اپنی receptionist کی ذمہ داری لگا دی کہ اس کی فیس وغیرہ ادا کر کے مجھے بتاؤ۔ درمیان میں ایک مرتبہ صرف MBA finance کے داخلہ فیس کے لئے وہ بچی آئی اور پھر ایک سال تک صرف اس کا میسج آتا اور ہم اس کی فیس ادا کر دیتے۔ ایک دن وہ بچی پھر آئی۔۔ پریشان تھی۔۔ میں نے پوچھا ۔۔ بیٹا خیر ہے  ! تم تو اتنی بہادر ہو کیوں پریشان ہو ۔۔ تو وہ بولی۔۔ سر !  سال ڈیڑھ سے میں اپنے باقی خرچے ٹیوشن پڑھا کر پورا کر رہی تھی۔ اور میرے نمبر بھی بہت اچھے آئے ہیں  لیکن۔۔اور پھر وہ رونا شروع ہو گئی ۔  میری اسٹاف نے اسے دلاسہ دیا تو بولی ۔ بابا نے تنگ آ کر لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا ہے تمام خاندان وہاں شفٹ ہو رہا ہے۔ وہاں میرا کون ہو گا جو مجھے پڑھائے گا۔ میں نے بابا سے کہا میں نہیں جاؤنگی ۔۔ یہاں ہاسٹل میں رہوں گی۔ اب نہ میرے پاس اور نہ بابا کے پاس ہاسٹل کے پیسے ہیں۔ اور وہاں اگر میں چلی بھی جاتی ہوں تو ٹیوشن نہیں  پڑھا سکوں گی۔ کیونکہ یونیورسٹی 9 سے 5 ہے اور باہر جاتے واپس آتے رات ہو جائے گی میرے پاس سواری بھی نہیں ۔ آپ میری ہاسٹل کی فیس بھی دیں گے؟؟ میں نے اسے خوش کرنے کو کہا ۔  ایک شرط پر دوں گا کہ جیسے نوکری لگے گی میری تمام فیس اور ہاسٹل کے پیسے واپس کرو گی ۔ وہ بچی مان گئی ۔  میں نےاس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا جب بیٹی کہا ہے تو تم بے فکر ہو کر پڑھو۔۔بس!

وہ چلی گئی۔۔ شاید دو سال بعد اس کی کال آئی سر آج رات ٹیلی ویژن پر میرا انٹرویو ہے ضرور دیکھیے گا ۔ میں نے پوچھا ۔۔اب کیا کر دیا تم نے۔۔ تو بہت ہنسی اور بولی سر گولڈ میڈل ملا ہے مجھے۔۔ مجھے خوشی ہوئی میں نے مبارکباد دی تو اس کی آواز بھرا گئی بولی سر بس اب میں چلی جاؤں گی لاہور۔  تمام عمر آپ کی مشکور رہوں گی۔  میرا بھی دل بھر آیا میں نے کہا بیٹیاں تو جانے کے لئے ہی انسان پالتا ہے۔ بس جہاں رہو مجھے دعا میں یاد رکھنا ۔  کچھ عرصہ قبل ایک نامعلوم نمبر سے مجھے کال آئی۔ جب اٹھائی تو وہی بچی تھی۔ بولی سر آپ کو پتہ ہے میری کل منگنی ہے۔ اور لڑکا مرچنٹ نیوی میں ہے۔ اور میری شادی کے بعد میں کراچی چلی جاؤں گی۔ مجھے واقعی خوشی ہوئی دعا دی اور فون بند کر دیا۔  یہ بچی کشمیری پنجابی فیملی سے تھی۔۔ لیکن قدرت کے کھیل کہ اس بچی نے اپنا جہیز خود محنت کر کے پرائیوٹ ملازمت کر کے بنایا  اور ایک اچھے سلجھے ہوئے محبت کرنے والے شاندار مستقبل رکھنے والے بندے نے اسے اپنی دلہن بنایا ۔  دونوں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے ۔ کراچی کے اسٹریٹ کریمنلز نے موبائل وغیرہ چھینٹے ہوئے مزاحمت پر اس نوجوان کو گولی مار دی ۔ یہ بچی اب بیوہ ہو چکی تھی۔۔ شاید اس کی عمر 25 یا 26 سال ہو گی۔۔ مجھے شدید صدمہ پہنچا۔۔ خیر میں زندگی کے معاملات میں الجھتا چلا گیا اور اس دوران 15 سال گزر گئے۔۔

اس فروری کی 12 تاریخ کو دوپہر کا کھانا کھا کر لیٹنے لگا کہ واٹس ایپ پر گھنٹی بجنے لگی۔۔ کال برطانیہ کا کوڈ دکھا رہی تھی ۔اتنے میں فون بند ہوا اور میسج آیا ،السلام علیکم ۔۔سر۔۔ میرا نام ۔۔۔۔۔ بتول ہے۔۔ کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں۔۔ میں چونک پڑا ۔۔ کیونکہ شاید ان 15 سالوں میں جب جب اس بچی نے مجھے یاد کیا ہو گا مجھے یہ یاد آتی رہی۔  ایک انجانی خوشی سے میں نے پوچھا ۔۔۔ کیا تم وہ ۔ ۔ بتول ہو جو کوئٹہ میں MBA کر رہی تھیں۔۔ تو کال آگئی۔۔ دوسری طرف سے ایک سلجھے ہوئے پُر اعتماد لہجے اور انتہائی خوشی سے بھرپور آواز میں وہ بولی جی سر۔۔ یہ میں ہوں۔۔ آپ کو پتہ ہے مجھے آپ بہت دنوں سے یاد آ رہے ہیں ۔ میں نے پہلے آپ کے دفتر فون کیا تو انہوں نے بتایا آپ کو نوکری چھوڑے کافی عرصہ گزر گیا ہے۔  پھر میں نے ان سے آپ کا کنٹیکٹ نمبر مانگا تو انہوں نے ڈھونڈ کر دے دیا ۔ سر آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔یہ سب وہ ایک سانس میں بول گئی۔میں نے پوچھا کہ اب تم کیا کر رہی ہو۔۔ بولی سر ۔۔ میں اس وقت انگلینڈ میں دنیا کی پانچویں بڑی آئی ٹی کمپنی میں ایک بہت اعلیٰ   عہدے پر کام کر رہی ہوں  ۔ میری شادی بھی ہو گئی ہے اور 11 سال کی میری بیٹی ہے۔۔ سر!  آپ کو پتہ ہے ۔۔۔ جب میں نے پوچھا تھا کہ آپ کو پیسے کیسے واپس کروں گی تو آپ نے مجھے ایک بات کہی تھی ۔۔ وہ اب بھی بات کرتے ہوئے بہت پرجوش تھی بالکل ایسے جیسے پہلے دن مجھ سے مل کر MBA کرنے کے لئے پرجوش۔۔

میں شاید بھول چکا تھا کہ میں نے اسے کیا کہا تھا۔۔ میں نے کہا بتول مجھے یاد نہیں۔۔ بولی سر آپ نے مجھے کہا تھا کہ جب پیسے آجائیں تو کسی اور بچے کو MBA کرا دینا ۔۔ سمجھنا مجھے مل گئے۔۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ مجھ جیسا عیاش انسان ایسی بات کر سکتا ہے؟؟ خیر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ ہو سکتا ہے اس وقت جذبات میں کہہ دیا ہو۔۔

وہ بولی سر!  آپ کو پتہ ہے میں نے ایک نہیں 5 نوجوانوں کو اعلیٰ  تعلیم بھی دلوائی ہے۔۔ اور انہیں IT سیکٹر میں آگے بڑھنے میں مدد بھی دی ہے۔۔ اور سر ! میں رہوں گی نہیں۔۔
میں نے اسے دعا دی کہ اللہ تمہیں کامیاب کرے اگر تم اجازت دو تو تمہاری کہانی لکھوں ۔۔تو وہ تھوڑا سا خاموش ہو گئی اور بولی سر۔۔ مجھے ایک ماہ قبل برین ہیمرج ہوا ہے۔۔ ورنہ میں آپ کو خود لکھ کر پوری زندگی کی باتیں بتاتی۔۔اب مجھے علاج کے لئے جانا پڑتا ہے اور لکھ اور بول زیادہ نہیں سکتی۔۔ میرے لئے دعا کریں۔۔

میں نے کہا تم ہمیشہ سے میری دعاؤں میں ہو میں تمہاری کہانی نہ لکھتا اگر جو تم نے غریب اور مستحق بچوں کے لئے کیا ہے وہ نہ بتایا ہوتا۔۔ تم نے ایک دیے سے 5 گھر روشن کر دیے۔۔ یعنی 5 خاندان ، تم واقعی ایک انمول لڑکی ہو۔۔

آپ سب پڑھنے والے دوستوں سے گزارش ہے ۔۔ ایسی انمول بچی ۔۔ بلکہ میری بیٹی کے لئے دعا کریں کہ خدا اسے ایک صحت مند اور با برکت زندگی نصیب کرے۔۔ اور اب جس جگہ وہ پہنچ چکی ہے۔۔ یہاں سے اس کی زندگی ایک پرسکون اور خوشحال گھریلو آسانیوں کی ہو۔۔ یا الہی آمین ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اللہ ہمیں کسی بھی انسان کی زندگی میں اس کی مدد کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائیں تاکہ یہ شمع سے شمعیں روشن ہوتی جائیں۔۔ اور ساقی کوثرﷺکے حوض پر ان کی محبت میسر آجائے۔۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply