چل اِنشاؔ اپنے گاؤں میں/ عبدالباسط ذوالفقار

میں جب جب ’لوبیا‘ کھاتا ہوں مجھے آبائی گاؤں کے وہ گلی کوچے یاد آتے ہیں۔ جہاں مٹی میں اَٹے ہم دوڑتے پھرتے تھے۔ کچے مٹی کے مکان اور ان کی کچی ہی گلیاں، لکڑی کے دروازے، جڑی ہوئی چھتیں، کمر سے کمر جوڑے مکانات کا طویل سلسلہ۔ بستی محلہ کیا تھا پورا گاؤں ہی محلہ تھا۔ الگ قوم، نسل کے لوگ مگر سبھی لوگوں کے صرف مکان ہی نہیں دل بھی جڑے ہوئے تھے۔ کچے مکانوں کے مکینوں کے دل پختہ تھے۔ سادہ مگر نفیس لوگ تھے۔

گاؤں میں گنی چنی دکانیں، ایک گلی کی اس نکڑ پر، دوسری محلے کے پرلے کنارے، تیسری فلانے چاچے کی دکان ان کی بیٹھک میں اور ایک گلی میں ایک دکان جہاں سہولت کی کم تر چیزیں میسر تھیں مگر شاید تب سہولت کی وہی چیزیں درکار ہوتی تھیں۔ ایک گھر میں پکنے والی چیز ساتھ کے تینوں گھروں کے دسترخوان پہنچ جاتی تھی۔ غربت تھی مگر بھوک نہیں تھی۔ چیزیں کمیاب تھیں مگر ہوس نہیں تھی۔

جب جب ننھیال جاتے تو خالا کے ساتھ سویرے نور کے ویلے ڈبہ لے کر دودھ لانے اک دکان پر جاتے جس کا مالک دوکان میں ہی سویا ہوتا تھا۔ اکثر دروازہ بند ملتا شاید اس کا وہیں گھر تھا۔ ہم دروازہ بجا کر جگاتے اور دودھ لے کر واپسی راہ لیتے۔ پانی بھرنے بستی کے لوگ یا کنویں پر جمع ہوتے جس کے ساتھ بڑا سا ڈول باندھا ہوتا جس کا لکڑی کا چرخہ ہوتا تھا۔ یا پھر قریبی پمپ پر جایا جاتا۔ ہم پینے کا پانی وہیں سے بھر لاتے تھے۔

توت کے درختوں سے پتے توڑ کر چھوٹا سا دانتوں والا پتا بیج کے طور سینے پر لگا کر فخر محسوس کرتے۔ میں نے بیج لگایا ہے اور آج سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے وہ دراصل اپنی مٹی پر فخر کا ’بَیج‘ ہوتا تھا۔ پورے گاؤں کا ایک نائی جو ہر غمی خوشی کا جزو  لازم تھا۔ ہر گھر پیدا ہونے والے بچے کا سر مونڈتا تھا اور سنا ہے کہ ”مسلمانی“ کا خون بھی وہی بہاتا تھا۔ بھلا ہو ہمارے وقتوں تک یہ اختیار کمپاؤنڈر نے لے لیا ورنہ اسی استرے سے سر مونڈتا اسی سے ۔ ۔ توبہ توبہ توبہ سوچ کر ہی جھرجھری آگئی۔ اور جتنا بچپن میں اس نائی نے سر کی کھیتی کاٹی ریکارڈ توڑ دیا۔

محلے کے جس گھر میں ٹی وی، وی سی آر ہوتا سبھی وہاں جمع ہو کر ڈرامے دیکھتے۔ محلے میں ڈرامے ہوتے تو سبھی مستفید ہوتے تھے۔ تب گھروں میں ڈرامے کم ہوا کرتے تھے۔ رشتوں کے درمیانی بندھن مضبوط تھے۔ ایک ہی گھر پی ٹی سی ایل ہوتا جہاں سبھی کے فون آتے۔۔اور ایسا گھرانہ خاصا امیر سمجھا جاتا تھا۔ بچے ان گھروں کے بھی وہی کھیلتے، کودتے بڑے ہوتے تھے۔ تفریق نہیں تھی۔ نہ مذہبی منافرت کے دورے تھے۔

معصومیت میں رچی بسی سادگی سے معمور زندگی تھی۔ ایک کا چاچا سبھی کا چاچا قرار پاتا تھا۔ اور بزرگ فوجی کاکا سبھی کا فوجی کاکا رہتا تھا۔ ماسی سب کی خالا کہلاتی تھی اور بڑے چھوٹے احترام سے گزر بسر کرتے تھے۔ تب تک بھوک نے گاؤں کے کھیتوں میں اگنا نہیں شروع کیا تھا۔ اکا دکا کسی کا بیٹا ، بھائی، باپ شہروں میں نوکریاں کرتے تھے۔ کہرے سے اٹے ہوئے کھیت ہوتے تھے جس کی پگڈنڈیوں پر دوڑتے، نہروں کے پانی میں کودتے، اچھلتے ہم آنا جانا کرتے تھے۔

صبح و شام قاعدہ پڑھنے سبھی مسجد جاتے جہاں باریش مولوی منتظر ہوتا۔ وہیں اسکول کی کچھ کلاسیں بھی لگا کرتی تھیں۔ اولاً مجھے وہیں دو لڑکیاں دوست ملی تھیں۔ بچپن کا عشق کہہ لیں۔ ذہن کچا تھا پر نام اور کومل سی صورتیں اب بھی کسی گوشے براجمان ہیں اور دماغ کی تختی پر وہ پیکر نقش ہیں۔ چھٹی کے بعد سیدھے گھر جاتے درمیان میں موصوف اور سائڈوں پر بہتی ناک اور دو پونیوں والی دو لڑکیاں۔ پھر کچھ حصہ دماغ کا تاریک ہے۔ اگلا منظر پھر وہی گلی میں کھیلنے کا ہے۔

انہی کچی گلیوں میں کچھ لڑکے بالے ابلے ہوئے چھولے، لوبیے کے تھال لے کر بیٹھتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ کسمپرسی کا عالم تھا۔ تب بچے چھٹیوں میں کچھ نہ کچھ کام کرتے تھے کہ چار آنے آگئے تو کیا برائی ہے۔ تب ہر کچھ قدم پر ایسی ٹولیاں بیٹھی ہوتی تھیں۔ ایک آدھ کے پاس کابلی ککر ہوتا تھا جب میں ابلا ہوا لوبیا۔ سلور کی کٹوریاں اور چمچ۔ نجانے کتنے روپے دے کر ہم ایک کٹوری خریدتے، یاد نہیں مگر زبان پر اس کا جو ذائقہ ہے وہ آج بھی لوبیا کھاتے یاد آجاتا ہے۔

خدا معلوم اس میں کیاتھا۔کیسی لذت تھی کہ آج سالوں گزرنے کے بعد بھی وہ ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ تب چیزوں میں ملاوٹ تھی نہ لہجوں میں، نہ نسلیں خراب تھیں نہ ہی نظریں۔ تب دلوں میں خوف تھا نہ ہی کوئی پہرا تھا وہ وقت کیسا سنہرا تھا۔ اب وہ لوگ بھی مٹی ہو گئے وہ فضائیں بھی بدل گئیں ، بلکہ اب تو گاؤں بھی بدل گئے۔ ”کنکریٹ“ کے اژدھا نے ایسا پھن پھیلایا کہ سب کچھ نگل لیا۔ دلوں پر بھی سیمنٹ لگ گئے اور دروازوں پر بھی۔ چھتیں پکی ہوگئیں۔ وہ گلیاں چوبارے بھی ڈھے گئے۔ رہ گئی تو صرف یادیں جو میرے اور آپ کے دامن سے جڑی ہیں۔

انشا جی کی اک نظم ہے:

چل انشا اپنے گاؤں میں
یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت
پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا
جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت

چل اِنشاؔ اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں

کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مُفلس ہونا گالی ہے

چل اِنشاؔ اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں

جہاں سچّے رِشتے یاریوں کے
جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جَھرنے کومل سُکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے

Advertisements
julia rana solicitors london

چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply