کیا یہ آخری زینب ہے؟۔۔ محمد فاتح ملک

قصور میں ایک اور زینب انسانی ہوس اور درندگی کا شکار ہو گئی۔ نہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا نہ پاکستان کی تاریخ میں۔ بلکہ قصور میں ہونے والا بھی یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا۔گزشتہ سال بچوں سے جنسی زیادتی کے تقریباً 12 واقعات صرف قصور میں ہی سامنے آئے۔ ۔ زینب جو کہ سات سال کی ایک معصوم سی بچی تھی۔ جس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ لڑکے اور لڑکی کی جنس میں کیا فرق ہے۔ اس کے ساتھ جب ایسا واقعہ ہوا ہو گا۔ تو شاید آسمان بھی ایسا ہی رویا ہو گا۔ جیسے زمین پر انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے لوگ رو رہے ہیں۔

زینب گھر سے قرآن پڑھنے نکلی تھی لیکن آفرین ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اس سے یہ سلوک کیا انہوں نے قرآن پڑھنے جاتی ہوئی اس چھوٹی سی بچی کو بھی نہیں بخشا۔ زینب کے والدین ایک مقدس عبادت عمرہ ادا کرنے مکہ گئے ہوئے تھے۔ جاتے ہوئے وہ اپنی ننھی سی کلی کو اپنے عزیز رشتہ داروں کے سپرد کر گئے تھے۔ بعض لوگ اس میں والدین کی کوتاہی قرار دیں گے کہ والدین اپنے بچوں کو چھوڑ کر کیوں عمرہ کی ادائیگی کے لئے چلے گئے۔ اور بعض لوگ اس میں ان عزیز رشتہ داروں کا قصور قرار دیں گے جن کے سپرد زینب بطور امانت کے تھی۔ لیکن اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو اس میں نہ والدین کا قصور ہے نہ ہی ان عزیز رشتہ داروں کا۔ ہر والدین اپنے بچوں کی حفاظت چاہتے ہیں اور یقیناً انہوں نے کافی سوچ سمجھ کر ہی اپنی بیٹی اپنے رشتہ داروں کے پاس چھوڑی ہوگی۔ کیا زینب کے والدین کوئی پہلے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو ایسے چھوڑ کر عمرہ کے لئے گئے؟ نہیں بالکل نہیں۔

ہمارے ملک میں عام طور پر والدین اپنے بچے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے سپرد کر کے جاتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حفاظت میں یہ لوگ کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔ اور پھر کتنے ہی ایسے والدین ہیں جو اپنے بچے چھوڑ کر جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو ان کے بچے بالکل صحیح سلامت موجود ہوتے ہیں۔
زینب کے ساتھ ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کا نہ پہلا واقعہ ہے نہ ہی آخری واقعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ کچھ کا پتہ لگ جاتا ہے اور کچھ کا پتہ نہیں لگتا۔ کچھ لوگ ا پنی خاندانی عزت بچانے کے لئے ایسے واقعات کو دبا جاتے ہیں اور کچھ لوگ خوف اور ڈر کی وجہ سے یا پھر ملزموں کے طاقتور ہونے کی وجہ سے واقعہ کی اصل حقیقت کو ہی بدل جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم اس کی روک تھام نہیں کر سکے۔ آئے دن ایسے واقعات کی کہانیاں ہم سنتے رہتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ وجہ ہماری معاشرتی بے حسی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کو کڑی اور عبرت ناک سزا دینے کا معاملہ ہو تو ہیومن رائٹس والے ایسی سزاؤں کے خلاف آوازیں بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میرا سوال ان سے یہ ہے کہ جب وہ لوگ انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کر سکتے ہیں تو کیا عبرت کی خاطر ان کو وہ سزا بھی نہ دی جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ اور جس کو دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کریں اور ایسے جرائم سے بعض رہ سکیں؟ اسلامی سزا کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ سزا ایسی دی جائے جیسا جرم ہے، اور باقی لوگ اس سزا کے خوف سے بھی اس جرم سے بعض رہیں ۔

زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ اس کے بیان سے بھی انسانیت شرم کھاتی ہے۔ ان درندوں نے وہ فعل کیا جو حیوان بھی نہیں کرتے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا گارنٹی ہے کہ ایسا فعل دوبارہ نہیں ہوگا؟ مجرم کیفر کردار تک بھی پہنچیں گے اور لوگ آئندہ ایسے فعل سے بعض بھی رہیں گے؟ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں روزانہ کوئی نہ کوئی لڑکی زینب بننے والی ہوتی ہے۔ لیکن ہم لوگ سوائے مذمت کرنے اور بلند و بانگ دعوے کرنے سے آگے نہیں بڑھتے۔
اصل سوال تو یہ ہے کہ قصور میں ہونے والے اس بہیمانہ واقعہ میں قصور کس کا ہے؟میرے خیال میں قصور معاشرے کا ہے۔ ہم کبھی وہ معاشرہ ہی پیدا نہیں کر پائے جس میں حقیقی طور پر عورتیں آزاد ہوں۔ جو حقیقی رنگ میں انسانی معاشرہ ہو۔ اگر ہمارے ملک کے بچے ہی محفوظ نہیں تو ہم کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی ہے۔ ہم اسلامی معاشرہ تو دور کی بات انسانی معاشرہ قائم کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ اسلام کے نام پر تو لاکھوں مظاہرے ہوتے ہیں۔ سڑکوں سے لے کر اسمبلی تک میں شور مچایا جاتا ہے لیکن کیا انسانیت کے لئے ہم ہمیشہ چپ بیٹھے رہیں گے؟

انسانیت جو سب سے اعلیٰ مذہب ہے اس کے لئے کیوں ہم شعور پیدا نہیں کر پا رہے؟ کوئی مذہب کوئی قانون اس درندگی کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر آج بھی اس ظلم کے خلاف آواز نہ بلند کی گئی، اس کی کراہیت دلوں میں پیدا نہ کی گئی تو واقعہ آخری نہیں ہوگا۔ کل کو ئی اور اس ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ کوئی اور زینب بن جائے گی اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آج سات سالہ زینب کی چیخیں معاشرے کی آواز بننے کا انتظار کر رہی ہیں۔ ہر ایک چیخ ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم صرف آواز ہی بلند نہ کریں بلکہ عملی اقدام بھی کریں۔ اگر ایک بچی کی چیخیں بھی بحیثیت قوم ہمیں جھنجھوڑنے میں ناکام رہیں تو کبھی بیداری پیدا نہیں ہو سکے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ صرف حکومت کا کام نہیں کہ ملزموں کو پکڑے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کا کام ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ لوگوں میں اس حیوانی فعل کی کراہیت پیدا کریں۔ شعور پیدا کریں۔ تاکہ ہمارے معاشرے میں سے کوئی بھی کبھی بھی دوبارہ زینب نہ بن سکے۔ زینب کے ساتھ ہونے والی اس درندگی کو جگر مراد آبادی کی زبان میں یوں ہی بیان کر سکتا ہوں کہ ۔۔
انسان کے ہاتھوں ، انسان کا یہ حشر
دیکھا نہیں جاتا ، مگر دیکھ رہا ہُوں!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا یہ آخری زینب ہے؟۔۔ محمد فاتح ملک

Leave a Reply