ثاقب تبسم ثاقؔب : سفرِ پیہم کا شاعر/ یحییٰ تاثیر

جدید دور تنہائی، دوری، نارسائی، قطع تعلقی، درد و غم، شناخت کی گم شدگی،منافقت، اذیتوں، استحصالی رویوں، فرد کی کم مائیگی اور ایک سفر بے کراں کا دور ہے جس کی منزل کا کوئی تعین نہیں ہوا یا نہ ہوسکا۔ اگر ایک طرف جدید فرد ان تمام محرکات کو دور کرنے کی کوشش میں محو ہے تو دوسری جانب اسے محرومی اور نارسائی کا مسئلہ بھی لاحق ہے۔ اس لیے جدید فرد ایک ایسی منزل کی تلاش میں بھٹک رہا ہے جو اسے معلوم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سفر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور یوں ایک سفرِ بے منزل کی طرف وہ محو سفر ہے۔جدید شاعری چوں کہ اپنا خمیر جدید محرکات سے اٹھاتی ہے اس لیے یہ تمام مسائل اور کرب ناک عوامل جدید شعرا کے ہاں ملتے ہیں ۔کیوں کہ شاعر ایک معاشرے میں موجود محرکات کو جس شدت سے محسوس کرتا ہے اور کوئی محسوس نہیں کرسکتا۔شاعر کی مثال اُس نباض کی ہے جو معاشرے کی نبض کو چہارسو سے پرکھتا ہے۔ ثاقب تبسّم ثاقؔب کا شمار بھی جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ ثاقؔب ۲۴ مارچ ۱۹۷۷ء کو گجرانولہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں نگینہ تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں ثاقؔب تخلص اختیار کیا۔ وہ بہ یک وقت شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور محقق و ناقد ہیں۔ انھوں نے اپنے شعری مجموعے “یاد آئیں گے تمہیں” کی اشاعت سے ایک ایسے دور میں غزل کے اُفق پر قدم رکھا جو جدیدیت کے آٹے میں گوندھا ہوا دور تھا۔ثاقب تبسّم ثاقؔب کی فکری اساس محبت سے پھوٹی تاہم ان کے ہاں جدید فرد سے وابستہ محرکات اپنے بیش تر امکانات کے ساتھ موجود ہیں۔ جدید شعرا کے ہاں جدید فرد کے پیش نظر “سفر” کا استعارہ بہت آیا ہے۔ یہ سفر مختلف اس لیے ہے کیوں کہ یہ مسلسل جاری و ساری ہے اور اس کی منزل معلوم نہیں۔ جس طرح جدید فرد اپنی شناخت کی گم شدگی کی وجہ سے ایک سفر بے منزل پر چل رہا ہے اسی طرح کا سفر جدید شعرا کو بھی لاحق ہے۔
ثاقب تبسّم ثاقب بھی سفر بے منزل کے شاعر ہیں۔سفر ان کا مقدر ہے۔ انھیں اس بات کا بھرپور احساس ہے کہ میرے نصیب میں سفر لکھا گیا ہے۔ شاید وہ زندگی کا حاصل بھی اسی کو سمجھتا ہے کہ زندگی مائل بہ سفر ہو۔ ان کے خیال میں زندگی حرکت اور مسلسل تغیرات کا نام ہے۔ ثاقؔب ایک حساس شاعر ہونے کے ناطے آنکھیں بند کرکے زندگی گزارنے کا قائل نہیں بل کہ وہ زندگی کے بے رحم موجوں میں غوطہ زن ہیں۔ زندگی کی ان بے رحم موجوں کی اُچھل کود سے وہ تجربات اخذ کرتے ہیں:
مرے نصیب میں لکھّا گیا سفر پیہم
چُنا گیا مجھے ہر ایک امتحاں کےلیے

ثاقب تبسّم ثاقؔب کا کلام یہ تاثر دیتا ہے کہ شاعر کو کسی منزل کی تلاش ہے۔ پڑھتے ہوئے کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ منزل محبت کو پانے کی ہے، تو کبھی کبھی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ منزل احساس محرومی و نارسائی سے چھٹکارا پاکر آسودگی حاصل کرنا ہے اور بعض جگہوں پر یہ احساس بھی ابھرتا ہے کہ اس سفر کا مقصد شاعری کی چاہت اور خواہش اظہار ہے۔ کیوں کہ ثاقؔب شاعری کو محبت اور محبت کو شاعری سمجھتے ہیں۔ شاعر کا یہ سفر مختلف اوقات میں بندے کو مختلف تاثرات سے ہمکنار کرتا ہے۔ کبھی کبھی یہ سفر ایک ایسے احساس میں بھی ڈھل جاتا ہے جس کا ادراک کوئی نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کی یہ رائے ثاقؔب کے بارے میں یہاں سچ ثابت ہوتی ہے کہ ’’یہ دنیا اس کی نہیں ہے وہ کسی اور دنیا کا آدمی ہے‘‘(۱)ثاقؔب کی شاعری پڑھتے وقت یہ احساس بھی ابھرتا ہے کہ شاعر اپنی ذات کی تکمیل اور ادھورے پن کو دور کرنے کےلیے مسلسل تگ و دو میں محو ہے۔ان کی نظر میں زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔ انھیں اس ادھورے پن کا احساس ہے اس لیے انھیں ہر وقت ہونے نہ ہونے اور مکمل و نامکمل کی تشنگی لاحق رہتی ہے۔اس تشنگی کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں :
بہت ادھورا سا لگتا ہے زندگی کا سفر
ابھی تلک مرا ہر کام نامکمل ہے

شاعر اگر سفرِپیہم کا شکار ہے اور ایک ایسے منزل کا مسافر ہے جس کا تعین نہیں ہوا تو وہ اس راستے پر مایوسی کا مظاہرہ نہیں کرتےبل کہ اپنے سفر کو امید و رجا کے ساتھ جاری رکھتے ہیں۔ یہاں سے ان کے ہاں حرکت و عمل اور کوشش کا تصور بھی ابھرتا ہے کہ زندگی مسلسل سفر کا نام ہے۔ثاقؔب ایک متحرک شخصیت کا نام ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ کامیابی حرکت و عمل میں پوشیدہ ہے۔ وہ سفر کو وسیلۂ ظفر سمجھتے ہیں۔اس کا اظہار وہ شاعری میں جا بہ جا کرتے ہیں:
ہم نگینہؔ جو رک گئے تھک کر
اپنی منزل کبھی نہ پائیں گے

ثاقؔب کی شاعری میں ’’سفر‘‘ کا استعارہ کسی ایک سمت کی طرف اشارہ نہیں کرتا بل کہ مختلف اوقات میں مختلف تصورات دیتا ہے۔یہ ان کے ہاں ایک کثیرالجہت استعارہ ہے :
جب ہار دیں ہمّت تو مقّدر نہیں ملتا
جنگل میں بھٹکنے سے کبھی گھر نہیں ملتا

اگر زندگی میں مصائب اور آلام نہ ہو تو زندگی کا مزہ بھی نہیں ہوتا۔ زندگی بدلتے رجحانات اور تغیرات کا نام ہے۔ وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جو ان تغیراتِ زمانہ کو سر کرے :
پہنچنا ہے ہمیں منزل پہ اپنی
ہمیں حالات سے لڑنا ہوگا

مسلسل محو سفر رہنا اور منزل کا نہ پانا، نارسائی اور ایک نہ ختم ہونے والی محرومی کا احساس بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ثاقب تبسّم ثاقؔب نارسائی اور محرومیوں کے شاعر بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں سفر کا استعارہ ان کی محرومی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔بقولِ سعد اللہ شاہ ’’ یاد آئیں گے تمہیں‘‘ اس ناآسودہ خواہش اور مقسوم محرومی کا اظہار ہے جس میں داخلی کیفیت زیادہ ہے۔ ‘‘(۲) شاعر کے ہاں یہ محرومی اور نارسائی محبت کے معاملے میں سامنے آئی ہے۔ شاعر محبت کو زندگی کا تکملہ سمجھتے ہیں ۔ اس لیے محبت کو پانے کےلیے بھی وہ سفر پیہم کا راستہ چُنتے ہیں۔ محبت پانے کی کوشش کرتے ہوئے آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر ناکام عاشقوں کی طرح جمود میں مبتلا ہونے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ محبت کے معاملے میں بھی وہ سفر میں آسودگی اور جمود میں ناآسودگی کی کیفیت محسوس کرتے ہیں :
زندگی کچھ ادھوری لگتی ہے
اک تری ذات کی کمی ہوگی

اگر شاعر کا تخیل زرخیز ہو تو شاعری اتنی ہی پرتاثیر ہوتی ہے۔ ثاقؔب تخیل میں بھی اپنے سفر کا اظہار خوب صورت اور رومانوی انداز میں کرتے ہیں :
کوئے محبوب لاکھ دور سہی
ایک لمحے میں گھوم آتے ہیں

آخرالذکر شعر سے احساس محرومی کے معاملے میں ضبط اور قناعت کا تاثر سامنے آیا ہے۔قناعت چوں کہ شاعر کی ذات اور شخصیت کا خاصا ہے اس لیے ان کے ہاں محرومی اور مسلسل سفر کی حالت میں باوجود عدم منزل، قناعت پسندی اور امید کی کسک نظر آتی ہے۔ دیکھیے :
جو مل نہ سکا اس کا میں غم کس لیے کرتا؟
انسان جو چاہے اسے اکثر نہیں ملتا

ثاقؔب کی شاعری میں وصل کے برخلاف ہجر کا مضمون زیادہ آیا ہے۔ ہجراں زدہ شاعر کے ہاں محبوب کے گلی کا بیان زیادہ ملتا ہے۔ شاعر نے بھی محبوب کے کوچے کے اتنے چکر کاٹے ہیں کہ راستے ان کے ہم سفر بن گئے ہیں:
تلاش کوئے یاراں میں پھرا ہوں دربدر ہوکر
رہے ہیں ہر گھڑی یہ راستے ہی ہم سفر میرے

Advertisements
julia rana solicitors london

ثاقب تبسّم ثاقب منزل کی تلاش میں اب بھی سرگرداں اور متحرک ہے۔ اللہ کرے کہ ان کا یہ سفر جو شاعری کی صورت میں جاری ہے ہمیشہ یوں ہی جاری رہے ۔(آمین)
حوالہ جات
١) ڈاکٹر اجمل نیازی، فلیپ، یاد آئیں گے تمہیں از ثاقب تبسّم نگینہ،لاہور، حسن قلم پیلی کیشنز، اشاعت اول، 24 مارچ 2011
٢) سعد اللہ شاہ، فلیپ، یاد آئیں گے تمہیں از ثاقب تبسّم نگینہ،لاہور، حسن قلم پیلی کیشنز، اشاعت اول، 24 مارچ 2011

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply