• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پی ٹی آئی پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے/ارشاد محمود

پی ٹی آئی پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے/ارشاد محمود

حضور! وقت برباد کرنے سے کیا حاصل۔ بہتر ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگادی جائے۔دفاتر سیل کردیئے جائیں۔ جو لیڈرابھی تک پارٹی اور عمران خان کا دم بھرتے ہیں انہیں ڈاکٹر یاسمین اور شاہ محمود قریشی کی طرح جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ بلکہ زیادہ بہتر ہے کہ مصر کے فوجی صدر جنرل سیسی کی طرح ہر اختلافی آواز کو قتل کردیا جائے، یا پھر زندان میں ڈال دیا جائے تاکہ نہ بانس رہے نہ بجے بانسری۔

حضور! اس سے بہتر موقع اور کون سا ہوگا اپنی دھاک جمانے کا؟ ایسے سازگار حالات اور ماحول تو جنرل ضیا ءاور پرویز مشرف کو بھی دستیاب نہ تھے۔ ماشا اللہ الیکشن کمیشن آپ کی جیب کی گھڑی ہے اور سپریم کورٹ ہاتھ کی لاٹھی۔ دونوں آپ کے سکرپٹ کو پوری ایمان داری کے ساتھ فالو کرتے ہیں۔ قاضی القضا عمران خان سے پہلے ہی خار کھائے بیٹھے ہیں۔ آپ کے حکم پر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو بے دست وپا کرنے کے لیے اس کے انتخابی نشان “بلے” سے پارٹی کو محروم کردیا   ہے۔ یہ آپ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جس پر ’’خٹک‘‘ ڈانس تو بنتا ہے۔

جناب عالی! آپ کی ذہانت کی داد دیئے بغیر چارہ نہیں۔ قائدانقلاب اور نیلسن منڈیلا محمد نواز شریف اور ان کی لمیٹڈ کمپنی نون لیگ کو آپ نے گود لے کر اس کا کریا کرم کردیا۔ زرداری صاحب جب تک حیات ہیں وہ آپ کی گیم کھیلتے رہیں گے۔ اب  وہ جیل   جانے اور عیش وعشرت کی زندگی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہاں،بلاول بھٹو نظریاتی ساتھیوں کو مٹھی میں رکھنے کے لیے چوں چراں کرتے رہے ہیں، لیکن نقانے خانے میں طوطی کی آواز کون سنتاہے۔

حضور! ماشا اللہ سوائے چند ایک کنویں کے  مینڈکوں کو چھوڑ کر میڈیا کے لگ بھگ سارے بزرجمہر آپ کی کامیاب حکمت ِعملی بلکہ اسڑٹیجک ڈاکٹرائن کے گُن گاتے ہیں۔آپ کی معاملہ فہمی، تدبر، خوائے دل نوازی اور سیاسی حکمت عملی کے شیر صحافت سہیل وڑائچ سے لے کر صحافت کی آن بان شان کامران خان تک نہ صرف پوری طرح قائل ہوچکے ،بلکہ پوری قوم کو آپ کے وژن اور آپ کے آستانے کے فیوض  وبرکات سے بھی آگاہ کرچکے ہیں۔وہ اچھی طرح قوم کو سمجھا چکے ہیں کہ
ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں!

جناب! زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالک سیٹھ ہیں۔ ان کے بڑےبڑے کاروبار ہیں اور کھاتے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ وہ آپ کے حکم کے تابعدار ہیں۔ بلا چوں چراں واٹس ایپ میسجز کی تعمیل کرتے ہیں اور اپنے کاروبار کو وسعت دیئے جارہے ہیں۔ سیٹھ میڈیا کا کیا ہے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا۔

حضور! انسانی حقوق کی تنظیموں کا کیا ہے چوں چوں کرتے رہتے ہیں۔ اب ان میں کوئی عاصمہ جہانگیر نہیں۔ خوف کبھی اس کی کھال میں گھس نہ سکا۔جو طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی تھی ۔ ان کی پروا نہ کریں۔ یہ علم اور تدبرسے محروم لوگ ہیں۔

حضور! عالمی میڈیا آپ کا کیا بگاڑ لے گا؟ دی اکانومسٹ کے آرٹیکل نے آپ کا بال بھی بیکا نہیں کیا۔ وزیر باتدبیر اور جمہوریت کے علمبردار مرتضیٰ  سولنگی نے اکانومسٹ کو جوابی خط لکھ کر اور پریس کانفرنس کرکے لاجواب کردیا بلکہ اب تک میاں عامر محمود کی طرح دی اکانومسٹ کا سیٹھ مالک اپنے نالائق ایڈیٹر کو فارغ کرچکا ہوگا۔

ظل الہٰی! یہ جو بیرون ملک مقیم شر پسند عناصر جمہوریت، انسانی حقوق اور لیول پلیئنگ فیلڈ جیسے مطالبات کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان کے پاسپورٹ منسوخ کریں۔ ان کی جائید ادیں ضبط کریں اور ہوسکے تو ان کے رشتے داروں کو پنجاب پولیس کے ہاتھوں ذلیل کرائیں،تاکہ یہ انسان کے بچے بن کر پاکستان کے لیے ڈالر بھیجتے رہیں ۔ باقی ان کی کوئی اوقات نہیں ہے۔

یہ نکتہ اجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ جناب کی نگرانی میں پنجاب پولیس نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ نواب آف کالا باغ بھی آپ کی تر دماغی ،چرب دستی کی داد دیتاہوگا۔ ماشا اللہ، آدھی رات کو عثمان ڈار کے گھر پر یلغار کی،جمشید دستی کو اس کی اوقات یاد دلائی، شاہ محمود بڑا دانشور بنتا پھرتاتھا ٗ دماغ اس کا بھی اب ٹھکانے آگیا ہوگا۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس کا راگ الاپنے والے ملک دشمن ہیں یا کوتاہ بین۔ آخر محبت، جنگ اور سیاست میں سب جائز ہوتاہے۔ مخالفین کے پولیس نے چھکے چھڑائے ہیں۔ اب انشا اللہ کوئی مائی کا لال آپ کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کی جسارت نہ کرے گا۔

بات لمبی ہورہی ہے اور آپ اکتا بھی جلد جاتے ہیں۔ بس ایک ضروری اعترافِ عظمت کرنے دے دیں۔ یہ خاکسار بھی عالی دماغ کی خداداد  صلاحیتوں سے بُری طرح متاثر ہے۔ آپ اور آپ کی ٹیم نے کمال مہارت سے پی ٹی آئی کو سیاسی کھیل سے ایسے نکالا جیسے ہماری  امّاں جان مکھن سے بال نکالتی تھیں۔ مثال کے طور پر آپ نے فرنٹ لائن لیڈرشپ کو پارٹی سے نکال کر نون لیگ کی جھولی بھر  دی، یا اس کے راستے کے کانٹے چُن لیے۔ اس طرح میاں صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی  کا ازالہ ہوگیا۔ پھر جناب نے یکے بعد دیگر ےپریس کانفرنسیں کرائیں۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں مندے کا رجحان رہتاتھا۔ ان کی بھی چاندی ہوگئی۔بعدازاں جس نے پریس کانفرنس نہیں کی اس کی ڈٹ کر دُھلائی کی۔ اب “بلّے” کا نشان بھی چھین لیا۔ پارٹی کے انتظامی سڑکچر کو گرانے کے لیے پارٹی انتخابات کو ہی متنازع  قراردلوادیا۔ یہ ایسے اقدامات میں جنہیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ کاش جنرل محمد یحییٰ  خان بھی آپ کی طرح نجیب الطرفین ہوتے تو شیخ مجیب الرحمان کو انارکلی کی طرح دیوار میں چنوادیتے۔ اس طرح لوگ آج بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی مثالیں دے دے ہمیں چھیڑتے تو نہ۔

ایک اور کامیابی جو آپ کی ٹیم نے حاصل کی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے عمران خان کی ذاتی زندگی کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کی اہلیہ کی حقیقت بھی کھول کر بیان کردی۔ ماشا اللہ، کئی ایک خواتین بھی میدان  میں اُتریں اور ذاتی تجربات اور مشاہدات سے قوم کو روشناس کرایا۔ یہ نیکی کا ایسا کام ہے جس پر ہماراسماج اگلے کئی عشروں تک آپ کو یاد رکھے گا۔ خاص طورپر یہ کام اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ نوجوانوں کی تربیت اور تزکیہ میں کمی کوتاہی کا کل کلاں کوئی آپ کی ذات بابرکت پر الزام نہ دھرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حرف آخر: حضرت مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہت نہیں کہ آپ کا کاروبار مملکت چلانے کا حسن انتظام ایک ایسا روشن مینارہ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی حاصل کرنے کا مستقل ذریعہ ثابت ہوگا۔ اس لیے اپنے تمام اقدامات اور احکامات کی تعبیر اور تشریح کے لیے جناب کامران شاہد، غریدہ فاروقی یا کامران خان کو سرکاری مؤرخ کے طور پر تعینات فرما کر ملک اور قوم پر احسان فرمائیں۔ تاکہ یہ سرچشمہ ہدایت اگلی نسل تک اپنی اصل رو اورشکل میں منتقل ہوسکے۔
جناب عالی!
لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے
حضور! شوق سلامت ، شہر اور بہت

Facebook Comments

ارشاد محمود
Columnist/Commentator at 92 News HD Plus

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply