خدارا عورتوں کو ننگا نہ کریں/ناصر شیرازی

بات ہے اس دور کی جب تھیٹر کا عروج تھا۔ مردوں میں امان اللہ اور خواتین آرٹسٹوں میں شیبا بٹ کی بہت مانگ تھی کامیڈی کنگ امان اللہ کی مکالموں میں ادائیگی کے حوالے سے برجستگی اور کامیڈی کوئین شیبا بٹ کے تاثرات اور باڈی لینگویج بے مثل تھی۔ ایک سٹیج ڈرامے میں شیبا ٹیچر کا کردار ادا کر رہی تھی بچوں کے کردار میں بھی بڑے ہی اسکے سامنے بیٹھے تھے اور بچوں کی سی حرکات کر رہے تھے وہ ایک شرارتی ترین بچے کے پاس آ کر ڈانٹ ڈپٹ کے بعد کہتی ہے؟ کہ اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ شرارتیں چھوڑ دو اور پڑھائی میں دل لگاؤ ورنہ میں نے کسی دن تمہیں ننگا کر کے مارنا ہے۔ ڈرامہ کئی ہفتے تک کامیابی سے چلتا رہا۔ اس دور میں سکرپٹ سے ہٹ کر جملے بولنے کی ریت شروع ہوئی۔ ڈرامے کے آخری دن آخری شو میں شیبا بٹ نے اپنے شرارتی شاگرد سے کہا کہ ٹھیک ہو جاؤ ورنہ میں نے کسی دن تمہیں ننگا کر کے مارنا ہے، شاگرد نے سکرپٹ سے ہٹ کر جملہ بولا، میڈم جی آپ کافی عرصہ سے کہہ رہی ہیں تمہیں ننگا کر کے مارنا ہے، پھر آپ بھول جاتی ہیں اب میں کافی بڑا ہو گیا ہوں کسی دن یہ فرض بھی ادا کر ہی دیں۔ شیبا ہنستے ہوئے جوتی اتار کر اپنے شاگرد کے پیچھے دوڑتی ہے وہ سٹیج کے دو چکر کاٹ کر پردے کے پیچھے غائب ہو جاتا ہے۔ ہال سیٹیوں اور تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ پہلی رو میں بیٹھے ہوئے تماشائیوں کی طرف سے آوازیں آتی ہیں۔ شاگرد بھاگ گیا ہے ہمیں شاگردی میں لے لو وغیرہ، وغیرہ۔ کچھ نوجوان بھاگ کر باری لینے کیلئے سٹیج پر چڑھ گئے۔

سکرپٹ سے ہٹ کر جملے بولنے بلکہ فحش کلامی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس میں مزید رنگ بھرنے کیلئے فحش لباس پہنے فحش رقص بھی شروع ہو گئے۔ فحاشی نے تمام حدود پھلانگ لیں تو حکومت پنجاب حرکت میں آئی، اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔ شیبا بٹ نے تو اپنے شاگرد کو ننگا نہ کیا لیکن شاید اسکے مکالمے سے زندگی کے ہر شعبے میں تحریک پیدا ہوئی۔ عوامی سطح پر ایک دوسرے کو ننگا کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا پھر یہ معاملہ پارلیمنٹ تک جا پہنچا۔ پاریمنٹ، جہاں عوامی نمائندے جمع ہو کر قانون سازی کرتے ہیں وہ ایوان بھی ایک دوسرے کو ننگا کرتا نظر آیا، کبھی اپوزیشن حکومت کو کبھی حکومت اپوزیشن کو ننگا کرنے میں مصروف نظر آئی۔ یہ سب کچھ لفظوں کی حد تک تھا اس میں مرد حضرات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ زیادہ تر ممبران قومی اسمبلی سنجیدہ خراج اور سلجھے ہوئے تھے لیکن گنتی کے چند لوگ تھے جو اس کام میں پیش پیش نظر آتے تھے کبھی کبھار تو یوں لگتا تھا جیسے انکے پارلیمان میں آنے کا مقصد عوام کی نمائندگی نہیں، بس یہی کچھ تھا۔ مردوں کی دیکھا دیکھی خواتین بھی اس میدان میں کود پڑیں انہوں نے سوچا ہو گا کہ زندگی کے ہر میدان میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں تو اس میدان میں کیوں کسی سے پیچھے رہ جائیں۔ پس یہی سوچ کر وہ بھی خم ٹھونک کر پارلیمان میں آ گئیں، اس کار خیر کی ابتدا شیریں مزاری نے کی۔ انہوں نے اپنے زمانہ حکومت میں پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران اسوقت اپنا ہاتھ بلند کر کے ایک فحش اشارہ کیا جسے کیمروں نے محفوظ کر لیا پھر یہ فحش اشارہ سوشل میڈیا کے ہتھے چڑھ گیا اور گھر گھر پہنچ گیا۔ انکی تقلید میں بعض حکومتی اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی اسے نیک عمل سمجھتے ہوئے اپنا لیا۔ یوں یہ اشارہ نجی محفلوں میں ہونے لگا۔ حکومتی خواتین اس اشارے سے سمجھاتی تھیں کہ ہم اپوزیشن کو ”یوں“ کر دیں گے جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کو ”یوں“ کر دیں گے۔ یہی منظر کافی عرصہ بعد پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔ چودھری پرویز الٰہی کو اس زمانے کی اپوزیشن نے ایک موقع پر زچ کر دیا تو عطا تارڑ نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہی مقبول عام فحش اشارہ کیا، جس کا مطلب تھا آج ہم نے پرویز الٰہی ”یوں“ کر دیا ہے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ آگے بڑھا ہے۔ گذشتہ ماہ سوشل میڈیا پر ایک سیاسی اجلاس کا کلپ دیکھا جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر اعلیٰ یہی اشارہ کرتے نظر آئے۔ وہ اپنے مخالف گروپ کے بارے میں کہہ رہے بلکہ ہاتھ کے اشارے سے بتا رہے تھے کہ ہم نے انہیں ”یوں“ کر دیا ہے۔

حکومتیں ختم ہو گئیں کیئر ٹیکر سیٹ اپ آ گیا، انتخابات کی تاریخ آ گئی، الیکشن مہم شروع ہو گئی، ہر حلقے میں ایک ہی منظر ہے ہر کوئی ہاتھ کے اسی اشارے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اپنے مخالف کو یوں کر دیں گے۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی خاتون رہنما نے اسی اشارے کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو بتایا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو ’’یوں‘‘ کر دیں گی۔ اب پی ٹی آئی کی طرف سے اسکا جواب آئے گا کیونکہ انکے کارکن تو ان کاموں میں پی ایچ ڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ سیاسی شخصیات کے فحش ویڈیو کلپس ایک علیحدہ داستان ہے۔ انہی ایام میں ایک اور تکلیف دہ بات سامنے آ رہی ہے، جس سیاسی شخصیت کو کسی بھی جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے وہ گرفتاری سے پہلے یا گرفتار ہونے کے بعد کا تاثر دیتے ہوئے ایک کلپ ریکارڈ کراتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسکی بیوی کو آدھی رات کے وقت گھر کے دروازے توڑ کر پولیس نے گرفتار کیا پھر اسے کہیں لے جا کر ننگا کیا اور اس پر تشدد کیا۔ تازہ ترین کلپ جمشید دستی صاحب کا ہے جو یہ ننگا بیان دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا، اگر ہوا بھی ہے تو بہت بُرا ہوا ہے لیکن جمشید دستی صاحب اپنے اس بیان سے اپنی بیوی کو مزید ننگا کر رہے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اگر گھر کی عورتوں کو ننگا کرنے کی بات کی جائے گی تو انکی پارٹی قیادت اس ظلم و تشدد اور اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور انکے ووٹر سپورٹر انہیں جوق در جوق ووٹ دیں گے، کئی اور سیاسی شخصیات نے بھی اپنی گرفتاری کے بعد اپنی بیویوں کی گرفتاری اور انہیں ننگا کرنے کی بات کی ہے۔ خدا جانے ان مردوں کی عقل پر پتھر کیوں پڑ گئے ہیں جو اس قسم کی بیان بازی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے اپنے گھر کی عورتوں کو خود ننگا کرنے پر تُلے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے خواتین کو داد دینی چاہیے کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ میرے خاوند کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے اسے ننگا کر کے تشدد کیا۔ پولیس تشدد کرتی ہے، شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کے نام پر بہت کچھ ہوتا ہے لیکن ننگا کر کے کسی سیاسی شخصیت کو تشدد کا نشانہ بنائے یا اسکے گھر کی خواتین کو ننگا کرنے کا کوئی کلپ سامنے نہیں آیا۔ تھانے سے رہا ہونے والی ایک خاتون بھی کہتی نظر آئیں کہ پولیس نے انہیں ننگا کیا انہوں نے اپنا کلپ خود اپ لوڈ کیا جو تھانے سے رہائی کے وقت کا بتایا گیا لیکن اسوقت بھی وہ فل میک اپ میں تھیں۔ خدارا اپنی زینتوں کو اپنے ہاتھوں ننگا نہ کریں، یہ عورتیں دنیا کو کیا منہ دکھائیں گی، یہ کسی کی مائیں ہیں بہنیں ہیں بیٹیاں ہیں۔ انکی خراب قسمت بے غیرت مردوں کے ہتھے چڑھ گئیں یا انکے پلے بندھ گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply