سینیٹ میں نوٹنکیوں کا موسم/حیدر علی سیّد

گو کہ پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے وضاحت کی کہ انہوں نے سینیٹ میں الیکشن کے التواء کے لئے پیش کی جانے والی سینیٹر دلاور آفریدی کی قرارداد کی منظوری کے مرحلے میں کورم کی نشاندہی نہ کرکے غلطی کی اور یہ کہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہی “نو” کہا قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا، مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ بھی ایوان میں موجود تھے لیکن انہوں نے بھی کورم کی نشاندہی نہ کی۔

سینیٹ کا کورم ایوان میں 24 حاضر ارکان کی صورت میں ہے۔ گزشتہ روز جب سینیٹر دلاور آفریدی نے انتخابات کے التواء کے لئے قرارداد پیش کی تو سینیٹ میں 14 ارکان موجود تھے۔ پیپلزپارٹی کے شہادت اعوان اور ایک خاتون رکن کو چیئرمین صادق سنجرانی نے قرارداد پر بات کرنے کی اجازت نہ دی۔ 14 میں سے 5 ارکان نے قرارداد کی مخالفت کی 2 غیرجانبدار (سینیٹ ریکارڈ کے مطابق) رہے7 ارکان نے قرارداد کے حق میں بات ووٹ دیا۔

یہ قرارداد بنیادی طور پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی “واردات” تھی۔ قرارداد پیش کروانے کے لئے سینیٹر دلاور آفریدی ان (چیئرمین سینیٹ) کاہی انتخاب تھے۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے، پیپلزپارٹی نے اپنے سینیٹر کو الیکشن التوا والی قرارداد پر رائے شماری کے مرحلہ میں موثر کردار ادا نہ کرنے پر شوکاز نوٹس دیا ہے لیکن چند دن قبل پیپلزپارٹی کے اسی سینیٹر بہرہ مند تنگی نے ریاستی اداروں (مسلح افواج) پر تنقید کرنے والوں کے لئے 10سال کی سزا کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی اور یہ قرارداد منظور بھی ہوئی۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے ماضی میں تحریک انصاف کے دور میں مسلح افواج پر تنقید کو جرم قرار دے کر 2 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا کا قانون بنائے جانے کے وقت قومی اسمبلی میں اس کی مخالفت کی تھی پھر پی پی پی کے رکن سینیٹر نے 10سال سزا والی قرارداد سینیٹ میں کیوں پیش کی؟ کیا پیپلزپارٹی نے اپنے سینیٹر سے اس پر جواب طلب کیا؟

سینیٹر بہرہ مند تنگی (پی پی پی) اور سینیٹر دلاور آفریدی (آزاد رکن، سینیٹ قوانین کے تحت انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق جوڑنے کااعلان کیا) کے حوالے سے عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اطلاع کے مطابق ان دونوں سینیٹروں کو فراہم کی جانے والی قراردادوں کے ٹائپ شدہ مسودے چیئرمین سینیٹ کے دفتر سے فراہم کئے گئے۔ اس اطلاع کے تقریباً درست ہونے کا مجھے اس لئے یقین ہے کہ چند دن قبل چیئرمین سینیٹ کی قیام گاہ پر بلوچستان عوامی پارٹی، بعض آزاد کہلانے والے سینیٹروں”وغیرہ” کا ایک غیررسمی اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں ہی الیکشن ملتوی کرانے کے لئے قرارداد سینیٹ میں پیش اور مظور کرانے پر صلاح مشورہ کیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ اور ان کے حامی بعض ارکان ایک عرصہ سے اس خواہش کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ مخصوص حالات میں سینیٹ کی مدت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ کیسے ہوگا یہ تو آئین میں لکھا ہی نہیں آئین میں قومی اسمبلی کی مدت میں مخصوص حالات میں اضافے بارے وضاحت کے ساتھ درج ہے لیکن سینیٹ کے لئے نہیں۔

سینیٹ کو یہ سہولت نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے نصف ارکان ہر تین سال بعد اپنی 6 سالہ مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ باقی ماندہ نصف ارکان کے ساتھ ایوان کی مدت کیسے بڑھائی جائے۔

یاد کیجئے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تھا تو اسمبلیاں تحلیل کی تھیں سینیٹ کا ادارہ موجود رہا اس کی تحلیل اس وجہ سے آگے چل کر ہوئی کہ نصف ارکان ریٹائر ہوگئے باقی کے نصف ارکان کا ایوان قانونی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ بہرطور ہم اپنے آج کے موضوع کی جانب واپس آتے ہیں۔

اصولی طور پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح کی غیرذمہ داری کا مظاہرہ پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر گردیپ سنگھ نے کیا۔ (ن) لیگ کے افنان اللہ نے قرارداد کے خلاف تقریر تو کی لیکن انہوں نے بھی کورم کی نشاندہی نہ کی یہ بھی ایک طرح کا غیرذمہ دارانہ طرزعمل تھا۔

ایک سوال باردیگر دہرائے دیتا ہوں پیپلزپارٹی نے اپنے سینیٹر بہرہ مند تنگی کو فوج پر تنقید کرنے وا لوں کے لئے 10 سال سزا کی قرارداد سینیٹ میں پیش کرنے پر نوٹس کیوں نہ دیا۔ کیا پارٹی اس قرارداد سے اتفاق کرتی ہے؟ اس صورت میں کیا قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے دور میں قانون سازی کے وقت کی جانے والی مخالفت غلط نہیں سمجھی جانی چاہیے؟

اب آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ جس عجلت سے قرارداد کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کرکے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وغیرہ کو قرارداد بھجوائی گئی اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟

قرارداد کے مطابق “ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور موسم سرما غیرمعمولی طور پر سخت ہے اس لئے الیکشن کے لئے ماحول سازگار ہونے کے بعد انتخابی شیڈول جاری کیا جائے”۔

اچھا کیا دہشت گردی 2008ء اور 2013ء سے بھی زیادہ ہے؟ 2008ء کے الیکشن کے لئے جاری مہم کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو راولپنڈی میں لیاقت باغ کے باہر اس وقت شہید کردی گئیں جب وہ اپنے انتخابی جلسہ سے خطاب کرکے واپس جارہی تھیں۔ اس سانحہ کے بعد الیکشن کی تاریخ چند دن آگے بڑھائی گئی۔ 2013ء کے انتخابات کے عمل کے دوران کالعدم تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی وغیرہ نے پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے لئے انتخابی مہم چلانا ناممکن بنادیا تھا اس کے باوجود الیکشن ہوئے۔

2018ء کے الیکشن میں اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کھل کر تحریک انصاف کی ہمنوائی کی ایک ہی دن میں (ن) لیگ کے 40 امیدواران قومی و پنجاب اسمبلی سے پارٹی ٹکٹ واپس کراکے انہیں آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ (ن) لیگ کے ارکان قومی و پنجاب اسمبلی کے ایک گروپ (اس گروپ کا تعلق صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اکثریتی اضلاع سے تھا) جس میں وفاقی وزراء بھی شامل تھے کو آبپارہ میں جمع کرکے بریفنگ دی گئی بعدازاں ان لوگوں نے “جنوبی پنجاب صوبہ محاذ” کے نام سے اپنی جماعت بنالی۔ اس جماعت کو اگلے چند ہفتوں میں پی ٹی آئی کے ٹرک پر سوار کروادیا گیا۔

اس گھٹالے اور مینجمنٹ کے باوجود 2018ء کے الیکشن اپنے وقت پر ہوئے۔ پچھلے تین انتخابات کے دنوں میں جو حالات تھے ان کا مختصراً تذکرہ کرنے کا مقصد یہ سوال کرنا ہے کہ آخر اب ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ انتخابات ملتوی کردیئے جائیے؟ کیا سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد پیش کرنے والے سینیٹر اور اس کے حق میں ووٹ دینے والے 7 ارکان سینیٹ کے خلاف آئینی عمل سے متصادم قرارداد پیش اور منظور کرنے پر کارروائی ہونی چاہئے؟

یہ درست ہے کہ ایوان کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے لیکن 8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم پر مشاورت کے بعد کیا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم پر ہونے والے فیصلے کے خلاف سینیٹ میں قرارداد لائی اور منظور کرائی جاسکتی ہے؟

باردیگر عرض کردیتا ہوں یہ نوٹنکی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رضامندی سے ہوئی کیونکہ قرارداد ان کے گروپ کے رکن دلاور آفریدی نے پیش کی۔

ملک کے سب سے بڑے دستوری ادارے سینیٹ کے چیئرمین کا غیردستوری عمل میں شریک ہونا بذات خود ایک سوال ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے پیپلزپارٹی کے شہادت اعوان اور ایک دوسرے رکن کو قرارداد پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔

تحریک انصاف کے ایک رکن عبدالقادر قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں شامل تھے۔

یاد رہے کہ یہ قرارداد کچھ دیر کے وقفے سے دوبارہ ایوان میں پیش ہوئی پہلی بار اسے مسترد کردیا گیا تھا دوسری بار پیش کئے جانے پر اعلان کیا گیا کہ قرارداد کثرت رائے سے منظور ہوگئی ہے۔ یہ سارا کھیل چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی نگرانی میں کھیلا گیا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سات ارکان سو سے زائد ارکان کے ایوان کے اجتماعی شعورکی نمائندگی کرسکتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ق لیگ کو بھی اپنے سینیٹر کامل علی آغا سے وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے بطور جماعت اس قرارداد کی حمایت کی۔ قرارداد پیش کرنے اور منظور کرانے کے عمل پر سوالات ہیں ان سوالات سے صرف نظر درست نہیں یہ بنیادی طور پر ایک دستوری ادارے کے سات ارکان کا دستور پر خودکش حملہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply