ذکرِ حسین ؓ سے فکرِ حسینؓ تک۔۔ ڈاکٹر اظہر وحید

ذکر کا مدعا فکر ہے، اور فکر ہمیں آمادۂ ذکر کرتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فکر ایک خاموش ذکر ہے اور ذکر ایک بولتا ہوا فکر!! ذکر ایک دعویٰ ہے، فکر ایک نظریاتی وابستگی ہے—- فکر ایک ایسی نظریاتی وابستگی ہےٗ جس میں دل اور عقل یکجائی میں ہم نوائی کرتے ہیں۔ ذکر اور فکر کے بعد ہی انسان ایک مبنی بر شعور عمل کی شاہراہ پر جادۂ منزل ہوتا ہے۔ ذکر سے فکر تک ، اور پھر فکر سے عمل تک سفر— ایک ایسا سفر ہےٗ جو راستے میں دم نہیں توڑتا۔ یہ سفر اپنی منزل سے دُور نہیں — شرط یہ ہے کہ مسافر مایوس نہ ہو، دوسرے مسافروں سے جھگڑا نہ کرے اور وہ مادّی نظامِ فکر کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے۔ آج کے دَور میں جس نے اپنے نظامِ فکر پر مادّے کی حکمرانی قبول کر لی‘ اُس نے گویا یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ یزید اور اہلِ شام مادّی نظامِ فکر کی علامت ہیں۔ جنابِ حسین ؑ اور اہلِ مدینہ روحانی اور اخلاقی نظامِ فکر کے داعی ہیں۔

کرب و بلا کا یہ واقعہ محض دو شخصیات یا دو قبیلوں کا تنازع نہیں، اور نہ ہی یہ حصولِ اقتدار کی کوئی جنگ تھی۔ مدینہ سے کربلا کے پڑاؤ تک یہ سارا سفر دراصل دو نظریات کا ٹکراؤ تھا۔ ایک طرف امام عالی مقام اپنے ناناٗ ہادیٔ دوعالم‘ شہر علمؐ کی عطا کردہ آسمانی ہدایت کے نمائندہ ہیں، یہ اپنے والدِ گرامی‘ دَرِ علم ٗ ابوترابؑ کے فکری ورثے کے جانشین ہیں —- اور دوسری طرف شامی حکمران ہیں‘ جو قیصر وکسریٰ کے نقشِ قدم پر سنگ و خشت کے محلات کی تعمیر میں مصروف ہیں اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی لیے ہر وہ کام کر گزرنے کے لیے تیار ہیں جس کی نظیر نہ کہیں دین میں ملتی ہے اور نہ ہی کتابِ انسانیت سے۔ اِدھر خانوادۂ نبوّت و رسالت ؐ کا بچہ بچہ، جوان، خواتین اور عمر رسیدہ بزرگ ٗسب کے سب کتابِ انسانیت میں بابِ حریت رقم کر رہے ہیں۔

عارفین کہتے ہیں کہ کربلا کا قافلہ رکا نہیں، آج بھی رواں دواں ہے، آج بھی جو شخص روحانی و اخلاقی اقدار کا امین ہوگا ‘مادّی نظامِ فکر کی قوتیں اُس کا جینا محال کر دیں گی، اُسے کوفۂ ملامت سے گزرنا ہو گا، شامی صفت لوگ اسے اس کے حق سے محروم کریں گے، وہ سرِعام طعن و تضحیک کا نشانہ بنے گا — اور اپنے ظرف کے حسبِ حال دشت ِ کرب و بلا میں آبلہ پیمائی اُس کا مقدر ہوگی۔ اگر وہ اس پر راضی رہتا ہے، شکوہ و شکایت کا راستہ اختیار نہیں کرتا ‘ تو وہ بالیقین اِس قافلے کا حصہ گنا جائے گا—ایسا قافلہ کہ جسے اس کا غبار بھی نصیب ہو جائےٗ وہ خوش نصیب کہلاتا ہے، انعام یافتہ لکھا جاتا ہے اور حکمت کے خیر کثیر سے اُس کا دامن بھر دیا جاتا ہے۔ اِس راہ کے راہرو کو جلوہ ٔدانشِ فرنگ خیرہ نہ کر سکے گا کیونکہ اِس کی آنکھ میں خاکِ مدینہ و نجف کا سرمہ لگا دیا جاتا ہے۔

ذکرِ حسین ؑ ایک شوق ہے، فکرِ حسینؐ ایک ذوق ہے۔ شوق اور ذوق دونوں کا بلند آہنگ ہونا ضروری ہے، تا آن کہ شاہراہِ مستقیم پر انسان گامزن ہو سکے — یہی راہ ہے ٗجو سیدھی ہے، یہی انعام یافتگان کی منزل ہے — عارفینِ حق اِسی راہ پر جادہ پیما ہوتے ہیں۔ راہِ حق کے راہروٗ اپنے پیش رَو کے قدم پر ہوتے ہیں اور اپنی استقامت کی وجہ سے پیچھے آنے والوں کے لیے ایک سنگِ میل بن جاتے ہیں۔ سلسلہ بہ سلسلہ یہ تمام سلسلے دَرِ علم ؐ کی وساطت سے شہر علمؐ میں جا ملتے ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ فقر کے بہتر( 72) درجے ہیں اور میدانِ کربلا میں یہ تمام کے تمام درجے طے ہوئے۔

واقعہ کربلا صرف ایک دینی درس ہی نہیں‘ بلکہ ایک مکمل درسِ انسانیت ہے۔ اِس کی یاد، ذکر اور فکر تک رسائی کے لیے قاضیوں اور مفتیوں سے فتویٰ نہ لیا جائے بلکہ اپنے باطن میں اس کا ربط تلاش کیا جائے، ضمیر انسانیت میں اُس کا جواز ڈھونڈا جائے۔ اس قیمتی پیغام کو مسلکی اور گروہی تعصبات کی نذر نہ کیا جائے‘ بلکہ یہ دیکھا جائے کہ خانوادہ نبوت و ولایت پوری اُمّت ِ مسلمہ کا سرمایہ ہے، اِ س خانوادے سے مؤدّت کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کا ہر حکم قیامت تک کے لیے نافذ العمل ہے۔ سیاسی اور سماجی مجبوریاں کسی حکم کو منسوخ نہیں کر سکتیں۔اگر کسی کو ذکر حسین ؑمیں پنہاں فکر حسینؐ کے سَوتوں تک معنوی رسائی میسر نہیں آرہی ہے‘ تو وہ ذکرِ حسینؑ کا جواز قران میں موجود حکم’’مؤدۃ ذی القربیٰ‘‘ ہی میں تلاش کر لے—- اس آیت مبارکہ میں رسولِ پاکﷺ کو وحی کی جارہی ہے کہ آپؐ انہیں کہہ دیں‘ میں تم سے رسالت کا اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے عزیز و اقرباء کے ساتھ مؤدت اختیار کرو۔ مستند احادیث مبارکہ میں درج ہے کہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دو اور انہیں اہلِ بیت کی محبت سکھاؤ۔ مؤدتٗ محبت سے کم درجے کا جذبہ ہے، اِس کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ اہل بیت اور جملہ سادات کو عوام الناس کی صف میں کھڑا نہ کیا جائے۔ خالقِ کائنات نے اپنے حبیبؐ کے نسب کو یہ عزت و تکریم دی کہ عوام الناس کا صدقہ و زکوٰۃ اِن پر حرام کر دیا‘ہمیں مخلوق ہونے کے ناتے یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں یہ ایک عجیب رواج بن چکا ہے کہ محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر متنازع گفتگو کا آغاز ہو جاتا ہے، ہر طرف ایک دانشورانہ اور مجتہدانہ پند و نصائح کا طومار لگ جاتا ہے—- ذکر ایسے نہیںٗ ایسے ہونا چاہیے ، یاد اس طرح نہیں بلکہ اس طرح منانی چاہیے ، محبت کے تقاضے یوں نہیں بلکہ یوں پورے ہوتے ہیں، اور یہ کہ یہ لفظی ترکیب اس طرح نہیں بلکہ اس طرح سے باندھنی چاہیے، الغرض اس لایعنی بحث میں ہم ذکر اور فکر دونوں سے دُور ہوئے جاتے ہیں۔ یہ ایک فکری المیہ ہے کہ ہم محبت اور عقیدت کی بجائے اہلِ بیت کی بے مثل قربانیوں کو محض سیاسی تناظر میں دیکھنے کی جستجو کرتے ہیں۔ تاریخی واقعہ جیسا بھی ہو ٗاگر تاریخی شخصیت سے محبت و مؤدت کا رشتہ نہ ہوگا تو ساری گفتگو ایک بے تعلق فلسفہ بن کر رہ جاتی ہے۔ سیاسی توجیہات تلاش کرنے والے تلاشِ حق میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ بے تعلق فلسفہ اور تاریخ تو غیر مسلم بھی پڑھتے رہتے ہیں اور اپنے طور ریسرچ کرتے رہتے ہیں، لیکن انہیں کلمہ اور کلمے والوں کی نسبت نصیب نہیں ہوتی۔ بات ریسرچ کی نہیں‘ سرچ کی ہے۔ ریسرچ واقعات اور افراد کی ہوتی ہے، سرچ یا تلاش ٗحق کی ہوتی ہے۔ حق کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حق ٗحق کو نہیں کاٹتا۔ مردانِ حق اپنے سے پہلے گزرنے والے حق پرستوں کے ساتھ ربط اور رابطے میں ہوتے ہیں۔ ایسی تحقیق جو ماضی سے منقطع کردے‘ وہ عام طور پر گمراہ کن ہوتی ہے۔ راہِ حق ٗراہروانِ حق کے چلنے اور کہنے سے ترتیب پاتا ہے۔ حکم ہے’’کونو مع الصادقین‘‘ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ مرشدی حضرت واصف واصفؒ فرماتے ہیں کہ سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔ اب یہ جاننا کوئی راکٹ سائینس نہیں کہ حق پرست کون تھے، اور اُن کے مقابل میں آنے والے کون ہیں۔ آج ہم اپنے رائے کا ووٹ جس کیمپ کی طرف کاسٹ کرتے ہیں، اگر ماضی میں ہمیں وہ زمانہ ملتا تو ہم اسی کیمپ کا حصہ ہوتے۔ سلامتی کے جس دین کو سلامت رکھنے کے لیے آلِ نبیؐ نے اپنا سب کچھ قربان کیا ٗ اس دین کو ہم نے کہاں کہاں برباد کیا؟ ہمیں سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنی سوچ کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیےکہ ہم کس طرف کھڑے ہیں— معترفین کی طرف یا معترضین کی طرفداری میں؟
حکیم الامّت اس معاملے میں ایک پُرحکمت فرقان قائم کر گئے
حقیقتِ اَبدی ہے مقامِ شبیّری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply