الارم /ڈاکٹر مختیار ملغانی

صبح جب الارم بجتا ہے اور آپ کو اٹھنا ہے تو اس وقت آپ کا ذہن دنیا کا چالاک ترین ذہن بن جاتا ہے، پہلے وہ آپ کو بتائے گا کہ دو دن قبل ہی تو شیو کی تھی، آج شیو کی چونکہ خاص ضرورت نہیں ، اس لئے مزید دس پندرہ منٹس اونگھ لی جا سکتی ہے، آپ اپنے الارم پہ منٹوں والے ڈیجیٹس (سوئی ) کو دس پندرہ منٹس آگے کرتے ہیں اور کروٹ بدل کر سو جاتے ہیں، الارم دس پندرہ منٹس بعد پھر بجتا ہے، آپ اسے بند کرتے ہیں، اٹھنے کا سوچتے ہیں، ذہن بتاتا ہے کہ آج نہانا اتنا ضروری نہیں، تم کونسا کھیتوں میں ہل چلاتے ہوکہ تمہیں روز روز نہانا پڑے ، کل ہی تو نہائے تھے ، غسل کو معطل کرنے سے آپ کے ہاتھ مزید دس پندرہ منٹس آجاتے ہیں، آپ اپنے الارم پر منٹوں والے ڈیجیٹس (سوئی ) کو مزید دس پندرہ منٹس آگے کرتے ہوئے دوسری کروٹ بدل لیتے ہیں۔
الارم مقرر وقت پہ پھر بجتا ہے، اس دفعہ خیال آتا ہے کہ بائیک یا کار میں پٹرول دو دن پہلے ڈلوایا تھا ، آج کیلئے تو کافی ہے، یا پھر اگر آپ بس پہ سفر کرتے ہیں تو دل کو تسلی دیتے ہیں کہ پہلی بس تو ویسے نکل گئی ہوگی،، دوسری بس کے آنے میں ابھی کافی دیر ہے، لہذا مزید دس پندرہ منٹس اونگھ لی جا سکتی ہے۔
یہ تماشہ جاری رہتا ہے، اور ایک وقت پہ آپ سوچتے ہیں کہ یہ بار بار منٹس کی سوئی آگے پیچھے کرنے کی بجائے کیوں نہ ایک ہی دفعہ گھنٹے والی سوئی کو ایک نمبر آگے کر دیا جائے،،، اس سے کم از کم کچھ دیر تسلی سے نیند تو پوری ہوجائے گی، اس بار بھی کروٹ بدل لی جاتی ہے، بس پھر آپ آخری لمحے چھلانگ لگا کر اٹھتے ہیں، اور گھر سے بھاگتے ہوئے اپنے کام ، کاروبار یا تعلیم کو نکلتے ہیں، آپ کی ظاہری حالت ایسی ہوتی ہے گویا کہ آپ آٹھ تو آئے ہیں لیکن ابھی بیدار نہیں ہوئے ۔
الارم کے ساتھ آنکھ مچولی بڑی خطرناک ہے، یہ کیس ایک سنجیدہ تحقیق کا متقاضی ہے، ممکن ہے کہ آپ رات دیر سے سوئے ہوں ، اس لئے صبح اٹھنے میں مشکل پیش آرہی ہو، ہو سکتا ہے کہ کئی دنوں سے کام کا مسلسل بوجھ ہو اور جسم دائمی تھکاوٹ کا شکار ہو، اس لئے وقت پہ آنکھ نہ کھل پاتی ہو، بعض دفعہ موسم (بالخصوص سردیاں ) اور طبع مجبور کرتے ہیں کہ ہر چیز پہ چار حرف بھیجتے ہوئے نیند کی دیوی سے بغل گیر رہا جائے، ایسا ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ نارمل چیز ہے۔
لیکن اگر آپ ہر روز اس کیفیت سے گزرتے ہیں اور کئی مہینوں یا سالوں سے اس کا شکار ہیں تو سمجھ جائیے کہ معاملہ گھمبیر ہے، اور اگر طبی طور پر بھی کوئی مرض یا پیچیدگی لاحق نہیں تو پھر یہ کیس گھمبیر تر ہے اور اسے سنجیدہ لینا چاہیئے ، اس کے پیچھے وجہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
آپ کی زندگی میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسے گڑھے بن چکے ہیں، جو آپ کے گرد موجود ہیں اور مسلسل آپ کی توانائی کو ماں کا دودھ سمجھ کر چوس رہے ہیں، کسی شخص کو مالی مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں، اور وہ مسلسل اس بارے سوچتا رہتا ہے کہ کیسے مالی طور پر مستحکم ہوا جا سکتا ہے، کب اور کیسے قرض چکانا ہے، یہ ایک گڑھا ہے جہاں آپ کی توانائی دن رات جا رہی ہے، کوئی شخص ذاتی یا خاندانی تعلقات میں پیچیدگیوں کا شکار ہے، سوچ اسی سوئی پہ اٹکی ہے کہ کیسے ان تعلقات کو سیدھی ڈگر پہ لایا جا سکتا ہے، یہ دوسرا بڑا گڑھا ہے جو توانائی کو چوس رہا ہے، کسی کو سماجی یا نفسیاتی محرومیاں ہیں، احساسِ کمتری ہے، کہیں کسی ہزیمت کا سامنا ہے، نوکری کا مسئلہ ہے، یہ تیسرا گڑھا ہے جہاں توانائی ضائع ہو رہی ہے، اس طرح آپ گنتے جائیں تو ایک طویل فہرست ایسے گڑھوں کی سامنے آئے گی جو مختلف لوگوں کے گرد موجود ہیں، الارم کے ساتھ آنکھ مچولی کی سب سے بھیانک وجہ یہی ہے، یہ بھیانک اس لئے ہے کہ ان گڑھوں کو اگر وقت پر بند نہ کیا جائے تو یہ گہرے ہوتے جاتے ہیں، ان کی خوراک بڑھتی جاتی ہے، یہ زیادہ سے زیادہ انرجی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور ان کیلئے انرجی کا واحد منبع چونکہ آپ ہیں تو یہ آپ کو نچوڑنا شروع کر دیتے ہیں، الارم کیس پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے۔
ان گڑھوں کو اگر کسی طور نہیں بھرا جا رہا، وجہ کا علاج نہیں کیا جا رہا، انرجی کا ضیاع مسلسل ہو رہا ہے تو انسان بیداری پر نیند کو ترجیح دینا شروع کر دیتا ہے، اور ترجیح کی یہ خلیج روز بروز بڑھتی جاتی ہے، گڑھا کسی بلیک ہول میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے، گویا کہ کیچوا آہستہ آہستہ اژدھا بنتا جارہا ہے، خدانخواستہ پھر ایسا وقت آتا ہے کہ بیداری عذاب محسوس ہوتی ہے، نیند ہی سکون کا واحد سبب ثابت ہوتی ہے، نتیجے میں ذہن کے ایک گوشے سے سوال ابھرتا ہے، ابدی نیند؟؟؟
یہاں آکر انسان اردگرد سے لاتعلق ہوتا جاتا ہے، طبیعت چڑچڑی اور جسم کا درجۂ حرارت بلند رہتا ہے، سینے پہ جیسے کوئی بلا پنجے گاڑھے بیٹھی ہو، چہرہ مرجھاتا جاتا ہے، پیروں میں جیسے پچاس پچاس کلو کی بھاری بیڑیاں پڑی ہوں ، قدم اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے، ہر آدمی بےوقوف اور مطلب پرست دکھائی دیتا ہے۔
ذہن ابدی نیند کی طرف مائل ہوتا جاتا ہے کہ اب سکون صرف نیند میں ہے، بیداری خونخوار بن چکی ہے، فرد رات ہونے کا انتظار کرتا ہے کہ کب اردگرد کا شور شرابہ ختم ہو، مطالبات اور الزامات سے جان چھوٹے اور کچھ دیر کیلئے ان خونخوار پنجوں سے نکل کر سکھ کا سانس لے سکوں، رات کے کچھ پہر اس کیلئے نعمت ثابت ہوتے ہیں، لیکن صبح الارم ںجتے ہی وہی خوف دوبارہ دامن گیر ہوتا ہے،،
وقت کے ساتھ نیند کے یہ پرلطف پل گھٹتے جاتے ہیں، دورانیہ کم ہوتا جاتا ہے، گویا کہ پھندہ گردن کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے، یہاں پوری سنجیدگی سے فرد اپنی ذات میں، اپنے من میں ابدی نیند بارے سوچنا شروع کر دیتا ہے۔
ان گڑھوں کو جتنی جلدی ہو سکے، پر کیا جائے، بھرا جائے، ورنہ آپ کی انرجی کا اخراج جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ جان رکھئے کہ آپ قیمتی ہیں، بہت قیمتی، اور کئی دوسرے قیمتی لوگ آپ سے جڑے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply