لاپتہ افراد،غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ اور اندیشے

لاپتہ افراد،غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ اور اندیشے
کاشف رفیق محسن
وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ، حکومت لاپتہ ہونے والے بلاگرز اور سماجی کارکنوں کے خلاف مقدمات بنانے کی تیاری نہٰیں کر رہی اور اس قسم کی خبریں سوشل و نیشنل میڈیا پر بے بنیاد طور پر پھیلائی جا رہی ہیں ۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق جس قسم کی خبریں میڈیا پر چلائی جا رہی ہیں اور ان پر جو الزامات عائد کیئے جا رہے ہیں ان کی وجہ سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور ان سے جڑے دیگر افراد کی زندگیوں کو بھی انتہا پسندوں کی طرف سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔حکومت سنجیدگی سے لاپتہ افراد کی گمشدگی کا پتہ چلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔سوشل میڈیا پر چوہدری نثار صاحب کے بیان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا جسکا سبب شائد یہ ہے کہ عوام الناس نے لاپتہ بلاگرز کی گمشدگی کا واحد سبب انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مان لیا ہے اور وہ وزیر داخلہ کے بیان کو ایجنسیوں اور حکومت کی نورا کشتی سمجھ رہے ہیں ۔
اگر ہم کچھ دیر کیلئے یہ تسلیم بھی کر لیں کہ حالات ایسے ہی ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ لاپتہ افراد کے خلاف جس قسم کا پروپیگنڈابنا کسی تصدیق اور ثبوت کے کیا جا رہا ہے اسے جواز بنا کر کل ان لا پتہ افراد کی لاشوں کے ساتھ کسی کالعدم جماعت کی جانب سے اس کارروائی کو قبول کرنے کا بیان منظر پر نہیں آئے گا ۔سوشل میڈیا کی سائبر اسپیس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں ، اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کی تو خیر بات ہی الگ ہے ۔نیشنل میڈیا بھی اس حوالے سے نہایت غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہا ہے ۔ بالخصوص بول چینل کی نشریات پر مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ لاپتہ افراد توہین رسالت کے مرتکب ہیں ۔ یہ ایک ایسا حساس مسئلہ ہے کہ جس نے فی الواقع لاپتہ افراد سے جڑے دیگر افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے سے دو چار کر دیا ہے ۔
انتہا پسندی کا وہ عفریت جو اب تک قابو میں نہیں آ سکا ایسی صورتحال میں جس انداز میں کھل کر کھیلتا ہے اس سے پوری قوم واقف ہے ایسے میں جناب وزیر داخلہ سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ پیمرا کس مرض کی دوا ہے ؟انسانی حقوق کی کارکن اور سینئیر وکیل محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بی بی سی کے ایک پروگرام میں کی جانے والی گفتگو کو بھی نہایت غیرذمہ دارانہ انداز میں توڑ موڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے لاپتہ افراد کے بارے میں حتمی طور پر کہا ہے کہ انھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے لاپتہ کیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے مذکورہ پروگرام میں لاپتہ افراد کے موضوع پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان میں یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیاں ہی کرتی ہیں اور اگر انھوں نے نہیں کیا تو پھر وہ دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہیں انھیں تلاش کیوں نہیں کرتیں اور اگر اداروں نے ان افراد کو اٹھایا ہے اور حکومت بے بس ہے تو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ استعفٰی کیوں نہیں دیتے ۔انہوں نے کہا کہ مذہبی جنون خواہ کسی بھی مذہب میں ہو خطرناک ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کی صورتحال پاکستان سے ابتر ہے اور اب یورپ و امریکہ بھی مذہبی جنون کا شکار ہو رہے ہیں جس کی واضع مثال ٹرمپ کی کامیابی ہے ۔
بنا سیاق و سباق کے جس طرح نیشنل میڈیا نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کے بیان کا ایک جملہ لے کر انھیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی اسے محض غیر ذمہ دارانہ صحافت کہہ کر نظر انداز کرنا کسی طور مناسب نہیں ہوگا ہمیں سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کہ میڈیا ہاوسز میں کون لوگ کن لوگوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ماضی قریب میں گورنر پنجاب سلیمان تاثیر اپنے ایک بیان کے کارن میڈیا کی اسی غیر ذمہ داری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جن کے قتل کے بعد عدالت نے تسلیم کیا کہ وہ اپنے بیان سے توہین کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اور قاتل کو سزائے موت دے دی گئی ۔ یہی نہیں اس کیس میں اہلسنت مکتبہ فکر کے دونوں جید مفتیان صاحبان ، مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی نے بھی آف دی ریکارڈ اور دبے الفاظ میں سرگوشیوں میں یہی قرار دیا کہ سلمان تاثیر توہین رسالت کا مرتکب نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ببانگ دہل یہ اعتراف کیوں نہ کر سکے ؟
یہ شاخسانہ ہے اس غیر ذمہ دارانہ صحافت اور جذبات میں ڈوبی قوم کا جس کے جذبات کو بھڑکانے میں میڈیا سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرتا ہے اور پھر بپھری ہوئی قوم کے آگے سچ بولنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا ۔سچائی سرگوشیوں کا روپ دھار لیتی ہے۔ آج ایک بار پھر بنا کسی ثبوت و تصدیق کے لاپتہ بلاگرز کے خلاف نیشنل اور سوشل میڈیا پر ایک نہایت حساس موضوع کو لیکر پروپگینڈا مہم چلائی جا رہی ہے جس کے سبب لاپتہ افراد کے ساتھ انکے اہل خانہ اور دوست احباب بھی خطرے کی زد میں آگئے ہیں ۔اگر لاپتہ بلاگرز کو انٹیلی جنس اداروں نے متنازعہ مواد کے سبب اٹھایا ہے تو اب تک انھیں عدالتوں میں پیش کر کے انکا تفتیشی ریمانڈ لے لیا جانا چاہئے تھا ۔ اگر متنازعہ صفحات ، بھینسا ، موچی اور روشنی پر مبینہ طور پر متنازعہ مواد موجود رہا ہے اور لاپتہ افراد کا ان صفحات سے تعلق ثابت شدہ ہے تو انھیں عدالت میں پیش کرنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟
محسوس یہ ہو رہا ہے کہ کالعدم مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے حوالے سے بڑھتے عالمی دباو کے تحت انکے خلاف جو بے نام سا کریک ڈاون کیا جارہا ہے اور کچھ افراد کالعدم جماعتوں کے بھی لاپتہ ہوئے ہیں اس کے جواب میں متعلقہ بلاگرز کو کالعدم جماعتوں کے سرپرستوں نے لاپتہ کر کے مذہبی انتہا پسندوں کو احتجاج کا موقع فراہم کیا ہے۔ایک عام شخص کی ریاست سے توقع اور مطالبہ یہی ہے کہ وہ بلاگرز ہوں یا کالعدم جماعت کے کارکن ، بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے ہوں یا ایم کیو ایم کے کارکن جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ کی بات کرنے والے ہوں یا سرحد میں ہزارہ صوبہ کا مطالبہ کرنے والے اگر کوئی قانون و دستور پاکستان کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اسے گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔انھیں لاپتہ کر کے مسخ شدہ لاشوں میں نہ بدلا جائے اور اگر ریاستی ادارے اس میں ملوث نہیں تو ان افراد کی بازیابی کیلئے کوشش کریں وہ کوشش جو نظر آئے ۔اس سے پہلے کہ سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا پر لڑی جانے والی یہ جنگ گلیوں اور محلوں کا رخ کر لے اور ہر فریق دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر سڑکوں پر عدالتیں لگانے لگے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply