پاکستان کا کوئی بھی محب ِ و طن شہری اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان کے جوان ، ، پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے محافظ ہیں ، پاکستان کی عوام کے ساتھ ، قاضی اور حافظ بھی جانتے ہیں بلکہ مو من کا ایمان ہے کہ، ہر زندہ نے ایک دن مرنا ہے ،مظلوم نے بھی مرنا ہے اور ظالم نے بھی مرنا ہے مرنے کے بعد ظالم اور مظلوم ایک ہی قسم کے قبر اور قبرستان میں دفن ہو تے اور محشر کے انتظار میں عالم برزخ میں ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، لیکن ہمیں ہمارے شعور نے اس سوچ سے محروم رکھا ہے ،ہم زندگی میں” میں” اور انا ، کی معراج کے پرستار ہیں ، ظالم ہیں ،مظلوم سے بے پروا ہیں ، ، البتہ زبان پر گیت مظلوم اور غریب کے لئے ہیں اس لئے کہ سوچ کی پرورش منافقوں کی بستی میں ہوتی ہے ، زندہ مثال آج ہمارے پاکستان میں دنیا دیکھ رہی ہے ۔
خاص کو نوازا جا رہا ہے ، ۔ عام کو رلایا جا رہا ہے ´ لیکن آج کا دیکھا جانے والا عمل ہمارے دیس میں کوئی پہلی بار دنیا نہیں دیکھ رہی ہے ، پاکستان کی تاریخ کے ہر جمہوری اور خلائی مخلوق کے ادوار اقتدار کے تختِ اسلام آباد پر ا یسا ہی ہوتا رہا ہے ، جو بھی اقتدار میں رہا نشہ ءاقتدار میں مست اور مدہوش رہا ، تخت ِ اسلام آباد سے جو اتارا جاتاہے تو اسے پاکستان ڈوبتا نظر آنے لگتا ہے ، جب ان کے خلاف ان کا بنایا ہوا قانو ن حرکت میں آتا ہے تو الزام آتا ہے ، پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان پر ، یہ ہی وہ کھیل ہے جو پاکستان کے پہلے منتخب حکمران ، قائد ِ اعوام ، اور آج کے قائد پاکستان کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ، کون مظلوم ہے اور کون ظالم دنیا جانتی ہے ،لیکن ہم پاکستا نی آج تک یہ نہیں جان پائے کہ ہم آزاد پاکستان کے باشندے ہیں یا ابھی تک ان ہی کے غلام ہیں ، جن سے آزادی کے لئے ہمارے بزرگ اپنے او ر اپنوں کے خون میں نہائے تھے ،، تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ ہم کون تھے اور کون ہیں لیکن ہمارا قومی شعور رہا ہے ۔
مغرب کے قومی غلام ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے ہوئے ہیں ہم کان نہیں دیکھتے کتے کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں ، سیاست دان ہم عام پاکستانیوں کو پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکا کر سڑکوں پر نکال کر ان کے ہاتھوں ہمارا خون بہاتے ہیں ، اور جمہوریت دشمن سیاست دان ہماری لاشوں پر اپنے سیاست کھیلتے ہیں ۔
قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ ہماری لاشیں گرانے والوں کا تعلق کسی یہودی ملک سے نہیں ،بلکہ وہ پاکستان ہی کی اولاد ہے ، جو ریاست کے ملازم ہیں ، وہ حاکم وقت کے احکامات سے انکار نہیں کر سکتے ۔ اگر انکار کرتے ہیں ، تو ریاست کے باغی ہوں گے ۔ اس لئے وہ نا چاہتے ہوے بھی وہ ہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں کرنے کو کہا جاتا ہے ، دونوں اد اروں کے جوان ، دیس کے بیرونی اور اندرو نی سرحدوں کی حفاظت کے لئے دیس دشمنوں سے لڑتے ہو ئے شہید ہو تے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک پاکستان پولیس فورس کے کسی شہید کو نشان حیدر نہیں ملا ِ ، نشان حیدر پولیس کے شہید کے لئے نہیں بلکہ افواج پاکستان کے شہداءکے لئے مخصوص ہے۔
سال گزر گیا ، گردش ، ایام بدل گئی ، ہندسے بدل گئے ، کلینڈر میں تاریخ بدل گئی ، مگر حالات نہیں بدلے ،،سال ،2023 ، میں جو دیس اور دیس والوں کے وجود پر لگے زخم آج بھی رس رہے ہیں ، جو کل تھا آج بھی وہ ہی ہے ، کئی دہائیوں سے جو دیکھا ا وہ آج بھی دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی صاحب اقتدار اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ پاکستان پہلے کی نسب آج ” قرآن کریم” میں ارشاد ربانی ہے ، اے داوود ( علیہ سلام ) ہم نے تمہیں زمین میں اپنا نائب بنایا ہے ۔سوتم لوگوں کے درمیان حق اور انصاف سے فیصلہ کیا کرو اپنی خواہش کی پیروی مت کرو ، ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی ۔
قانون کا قا ضی اور فوج کے حافط بھی جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہ ا حکامات صرف داوو د علیہ سلام کے لئے نہیں تھے ، دین مصطفی کے ہر علم بردار کے لئے ہیں ،لیکن بدقسمتی سے دنیا کی بد مستیوں میں انسان کی آنکھیں نہیں دل اندھے ہو جاتے ہیں ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تو زمین پر عاجزی سے قدم رکھتے ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ظاہر کر کے رہے گا جو صادق اور امین ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے اور مکار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں