• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • منافق اور منافقت بھرے معاشرے کی پہچان سورہ الماعون /سلیم زمان خان

منافق اور منافقت بھرے معاشرے کی پہچان سورہ الماعون /سلیم زمان خان

کچھ عرصہ سے اپنے اندر کی خامیوں کو بہت ڈھوندنے کی کوششوں میں ہوں  اور دن  بدن یہ احساس ہو رہا ہے کہ مومن تو دور کی بات مسلمان ہی ہو جائیں تو یہ مقام صد شکر ہو گا ۔۔ کیونکہ جوں جوں خود سے آشنا ہوتا جا رہا ہوں ، ڈرتا ہوں کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہوتا جا رہا ۔  کچھ عرصہ سے وہ تمام سورتیں جن میں “ویل” کا مادہ ” و ی ل “ اور وزن ” فَعْلٌ“ ہے۔یہ تمام آیات اور سورتیں پڑھ کر شدید ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ اپنا محاسبہ کروں۔ کیونکہ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فعل بمعنی ” کسی کو بربادی کی بددعا دینا “ آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے صرف یہی کلمہ ” ویل “ مختلف طریقوں پر قرآن کریم میں  40 مقامات پر استعمال ہوا ہے۔

ؤ کے ساتھ لفظ ” وَیْل “ کے معنی ” تباہی، بربادی، شر، عذاب، خرابی، ذلت، رسوائی، ہلاکت اور بدبختی “ ہیں۔ یہ بددعا یا اظہارِ افسوس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا اردو ترجمہ ” بڑی خرابی ہے “ اور ” وائے افسوس ہے “ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور بعض مقامات پر مندرجہ بالا دوسرے معانی کے ساتھ بھی ترجمہ کیا جاتا ہے جیسا کہ مثلاً ” ادعُو ویلا لہ “ (میں اس کے لیے تباہی کو بلاتا ہوں یا اللہ اس کے لیے بربادی لازم کرے) کبھی یہ لفظ ” ویل “ کی بجائے ” ویلۃ “ استعمال ہوتا ہے کعب لغب میں ” ویلۃ “ کے معنی ” فضیحت اور رسوائی “ بتائے گئے ۔

طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریاکار علما کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کریگا اور اسے ذلیل و حقیر کریگا ۔

اب اس لحاظ سے اگر صرف سورہ الھمزہ اور سورہ الماعون کا ترجمہ غور سے پڑھ کر سمجھا جائے تو یقین کریں۔ ہر دن میں شاید ہم کوئی سو بار تو خود ہی کو “ویل” میں دھکا دیتے ہیں ۔۔ مثلا ً۔۔۔
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (1)
ہر غیبت کرنے والے طعنہ دینے والے کے لیے ہلاکت ہے۔
اَلَّذِىْ جَـمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٝ (2)
جو مال کو جمع کرتا ہے اور اسے گنتا رہتا ہے۔(سورہ الھمزہ)

اس میں ہر غیبت کرنے والے ،اور لوگوں کو ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں ،یا اپنی کامیابیوں پر ،نیکیوں پر شوخی میں دوسروں کو طعنہ زنی کمتر یا حقیر سمجھنے والے کے لئے ہلاکت ہے۔ یا کوئی بھی معنی آپ مندرجہ بالا “ویل ” کی تعریف سے اٹھا لیں۔۔ اور یقین کریں آج ہمارے معاشرے میں ہر دو اشخاص کے درمیان ہونے والی گفتگو یا غیبت ہے اور یا طعنہ ۔۔ سورہ الحجرات میں اللہ کریم نے فرمایا

ترجمہ: اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں(1) ۔ اور بھید نہ ٹٹولا  کرو(2) اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے(3)۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی(4)، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ( الحجرات)

لیکن جو باز نہ آئے گا تو اب اس کا جواب اللہ نے اپنے ذمہ لے کر ارشاد فرمایا ہے کہ ان دونوں کاموں کا بدلہ اللہ ایسے لوگوں کو زلت،رسوائی،ھلاکت،دنیاوی یا آخری عذاب کی صورت خود دیں گے۔۔ ان کی علامت یہ بھی بتا دی کہ یہ مال جمع کرنے کے شوقین اور بینک بیلنس کی بڑکیں مارنے والے یعنی showoff کے عادی ہیں ۔۔

اسی طرح لوگ مجھے کہتے ہیں کہ سورہ المنافقون میں منافق کی پہچان دی گئی ہے میں کہتا ہوں نہیں سورہ المنافقون میں تو اللہ نے منافقوں کا انجام بیان کیا ہے کہ ان کو نہ تو اللہ معاف فرمائیں گے اور نہ ہی نبی کریمﷺ ان کی شفاعت فرمائیں گے۔۔ کیونکہ سورہ المنافقون میں اللہ کریم نے نبی کریمﷺ کو ارشاد فرمایا۔۔
ترجمہ: برابر ہے خواہ آپ ان کے لیے معافی مانگیں یا نہ مانگیں اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، بے شک اللہ بدکار قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔ ( المنافقون )

اب ہم وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے رہے کہ نبی کریمﷺ ہماری شفاعت فرمائیں گے۔۔ لیکن ایک مقام ایسا ہے جہاں اللہ کریم نے اپنے بندوں سے کی گئی زیادتیوں پر نبی کریمﷺ کو بھی ان کے حق میں مغفرت اور شفاعت سے روک دیا ہے اور وہ ہیں منافق جو اپنی حرکتوں سے باز نہ آ رہا ہو۔۔ اور اپنی حیاتی میں نبی کریمﷺکے وسیلے معافی نہ مانگ لے اور اللہ کریم کے آگے اس بات پر تائب نہ ہو جائے کہ وہ لوگوں کی عیب جوئی اور طعنہ زنی نہ کرے گا۔۔ کیسی بد بختی ہو گی اس شخص کی جو درود پڑھتا رہا ، نماز پڑھتا رہا لیکن نبی کریمﷺکے امتیوں کو مسلمانی کی آڑ میں ڈستا رہا۔۔ اب قیامت کا دن ہے ۔۔نبی کریمﷺ بھی اس کی طرف توجہ نہیں فرما رہے۔  رب العالمین اور رحمتہ للعالمین دونوں کا گنہگار۔  دونوں کی شفقت اور شفاعت سے محروم ۔۔
اللہ کی تمام کتابوں میں نبیوں کو نا ماننے والے یا ان پر ایمان لانے والون کا تذکرہ ہے۔۔ صرف قران مجید و عطیم کتاب ہے جس نے کھل کر ایک تیسری قسم ( منافق ) کی پہچان کرائی۔۔ یوں تو قران میں منافق کی پہچان بہت کھل کر کرائی گئی ہے،لیکن میری نظر میں ایک چھوٹی سی سورت میں پورے قرآن پاک میں منافق کے کاموں کو عرق سمو دیا گیا ہے اور وہ ہے سورہ الماعون ۔۔۔ ذیل میں اس کا صرف ترجمہ آپ سب کی نذر کرتا ہوں ۔۔

” سورہ الماعون “آخری آیت کے آخری لفظ الماعون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا۔اس کی کل 7 آیات ہیں اور زمانہ نزول بالاتفاق مدنی ہے۔۔اس کی پہلی آیت کو مشرکین کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔۔ لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ اس پر ہم آج زیادہ اترتے نظر آتے ہیں۔۔ ہم نے دین کو جھٹلا دیا ہے۔۔ ہر مذاق ہر طرح کا استہزا ہم دین اور ان کے احکامات پر کرتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

موت کو بھول چکے ہیں صرف دنیا اور دنیاوی خواہشات کا حصول مقصد حیات ہے۔۔ لڑکیاں ہوں یا لڑکے بہتر مستقبل کے لئے شارٹ کٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔۔ عزت ،شہرت ،کامیابی شادیاں سب اللہ کی طرف رجوع کرنے سے ملتی ہیں جبکہ لوگ ہر طرح سے اپنا استعمال کروا کر بھی بے فیض، خالی ہاتھ ہیں ۔۔ اور اگلی 4 آیات میں اس سورہ کا خطاب صرف منافق اور منافقت پر مبنی معاشرت پر ہے یعنی منافق کی پہچان یہ ہو گی کہ وہ یتیم کی پرورش اور اس سے اچھے برتاو کو دنیا کی خاطر تو رکھے گا مگر دراصل چاہے گا کہ یہ بوجھ اس پر نہ پڑے۔۔ کھانا کھلانا یا کسی گھر یا غریب کی پرورش اپنے لئے وبال سمجھے گا جیسا کہ سورہ یاسین میں کفار کی سوچ بتائی کہ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رزق میں سے کچھ خرچ کیا کرو تو کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھلائیں اگر اللہ چاہتا تو خود اسے کھلا سکتا تھا، تم تو صاف گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔” (سورہ یاسین) ۔۔ اسی طرح ان کی نمازیں لوگوں میں طول پکڑ لیتی ہیں، دفاتر میں کام کی جگہوں پر جہاں انہیں لوگوں کی خدمت کے لئے بیٹھایا گیا ہے وہاں نمازوں کو بہانہ بنا کرگھنٹوں ضائع کرتے ہیں ،رمصان کے ماہ میں قران اور صلوات التسبیح دفتر کے مختصر اوقات میں  پڑھنے بیٹھ جاتے ہین جبکہ عوام کے کام اور ان کی صروریات رکی رہتی ہیں ۔۔ یہ سب وہ دیندار بننے کو کرتے ہین۔۔ جبکہ دفتر کی تنخواہیں یا کاروبار میں برکت حلال اور محنت میں ہیں۔۔جبکہ صحابہ کرام قتل یا پھانسی سے قبل بھی نماز مختصر پڑھتے کہ سامنے والا دشمن ان کی نماز کو ان کی بزدلی نہ سمجھے۔۔ اور سب سے بڑھ کر 7 ویں آیت میں منافق معاشرت ،دفاتر کاروبار اور محلہ داری کا ایک بنیادی نکتہ بیان ہے۔۔کہ منافق اپنے رزق ،اپنے اوزار اپنے کسی بھی پہلو سے کسی کا بھلا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔
ترجمہ :
•کیا تو نے (اسے بھی) دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟
•یہی وه ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
•اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا.
•ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے.
•جو اپنی نماز سے غافل ہیں
•جو ریاکاری کرتے ہیں.
•اور وہ ( ایک دوسرے سے) روکتے ہیں استعمال کی معمولی چیزیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply