جغرافیہ کے قیدی (8) ۔ روس ۔ گیس اور تیل/وہاراامباکر

روس کے سب سے خطرناک ہتھیار نیوکلئیر نہیں، آرمی اور ائیرفورس نہیں بلکہ گیس اور تیل ہیں۔ اور انہیں استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں رکھتا۔ گیس کی قیمت تعلقات کے درجہ حرارت کو دیکھ کر طے کی جاتی ہے۔ اور کئی ممالک اس چنگل سے نکلنے کی کوش کر رہے ہیں اور اس کے لئے بندرگاہیں بنا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو ملک ماسکو سے جتنا قریب ہے، اس کا انحصار اتنا زیادہ ہے۔ اور اس کا اثر خارجہ پالیسی پر پڑتا ہے۔ فن لینڈ، سلواکیہ، اسٹونیا اور لیٹویا کا روسی گیس پر انحصار بہت زیادہ ہے۔ چیک ری پبلک، بلغاریہ اور لتھوینیا کی اسی فیصد، گریس، آسٹریا اور ہنگری کی ساٹھ فیصد جبکہ جرمنی کی پچاس فیصد گیس روس سے آتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ برطانوی سیاستدان روس پر فورا تنقید کرتے ہیں لیکن جرمن سیاستدان خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔
کئی بڑی پائپ لائنز تیل اور گیس یورپ تک پہنچاتی ہیں۔ شمال میں نورڈ سٹریم روٹ جرمنی تک ہے۔ اس سے نیچے یمال پائپ لائن بیلاروس سے گزر کر پولینڈ اور جرمنی تک پہنچتی ہے۔ جنوب میں بلیو سٹریم ہے جو کہ گیس ترکی تک لے کر جاتی ہے۔ ساوتھ سٹریم 2015 میں پلان کی گئی جو مغربی یورپ کے کئی ممالک تک جاتی تھی۔ جب کچھ ممالک کے دباؤ پر بلغاریہ نے اسے منسوخ کیا گیا تو پیوٹن نے ترکی کی مدد سے ترک سٹریم بنا لی۔ دس ممالک کے لئے اس سے توانائی سپلائی کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس صورتحال میں امریکہ داخل ہوتا ہے۔ یورپ کو گیس درکار ہے۔ اور امریکی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اس مسئلے کا جواب ہے۔ امریکہ میں shale gas کی پروڈکشن کا بوم نہ صرف اسے خودکفیل کرتا ہے بلکہ توانائی کا بڑا سرپلس پیدا کرتا ہے اور اس کو یورپ کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔
اس کے لئے گیس کو مائع بنانا ہے۔ بحری جہاز پر لادنا ہے اور بحرِاوقیانوس کے پار بھیجنا ہے۔ اس کے لئے یورپی ساحلوں پر LNG ٹرمینل درکار ہیں تا کہ وہ اسے وصول کر سکیں۔ یہ پراجیکٹ جاری ہیں۔ اور صرف امریکہ سے نہیں بلکہ مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقہ سے بھی گیس منگوائی جا سکے گی۔ اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ روس وقت پڑنے پر نلکا بند کرنے کی دھمکی نہیں دے سکے گا۔
روسی اس کو طویل مدت کا خطرہ سمجھتے ہیں۔ پیوٹن کہتے ہیں کہ جب روس سستی گیس مہیا کر رہا ہے تو یورپ کو مہنگی LNG خریدنے کی کیا پڑی ہے۔ روسی گیس تک یورپ میں بہتی رہے گی لیکن قیمت پر مذاکرات اور سیاسی ہتھیار کے طور پر روسی اثر کم ہو جائے گا۔ آمدنی پر پڑنے والے ممکنہ اثر کی وجہ سے اب روس جنوب مشرق میں چین کی طرف پائپ لائن بنانے کا پلان کر رہا ہے۔
یہ معاشی جنگیں جغرافیہ کا نتیجہ ہیں اور ٹیکنالوجی کو جغرافیہ کی قدغنوں کو شکست دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گرتی ہے تو روس کی معیشت پر ضرب لگتی ہے۔ عام روسی کی زندگی مشکل ہوتی ہے اور روسی فوج کمزور پڑتی ہے۔ سائبیریا کے شمال میں آرکٹک کا مشکل سمندر بحیرہ کارا ہے۔ یہاں کے تیل کے بڑے ذخائر کو اگر زمین تک لایا جا سکے تو یہ روسی معیشت کو بڑھانے میں اہم رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے علاقے سے دور روس عالمی سیاسی اثر رکھتا ہے اور استعمال کرتا ہے۔ ایسی ایک جگہ لاطینی امریکہ ہے۔ جہاں سے امریکہ کے تعلقات خراب ہوتے ہیں، وہاں پر روس سے اچھے ہو جاتے ہیں۔ (مثلا، وینیزویلا سے)۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس کی مداخلت رہتی ہے۔اور اب آرکٹک میں بھاری ملٹری خرچ کر رہا ہے۔ گرین لینڈ میں مسلسل دلچسپی ہے اور علاقے پر دعویٰ ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد افریقہ پر توجہ نہیں اور چین اس برِاعظم میں اثر کی جنگ جیت چکا ہے۔
چین اور روس حریف بھی ہیں اور بہت سے معاملات میں حلیف بھی۔ چین کو توانائی سپلائی کرنے کا 2018 میں تیس سالہ معاہدہ چار کھرب ڈالر کا کیا گیا۔ جس میں سالانہ 38 ارب مکعب میٹر گیس فراہم کی جانی ہے۔
روسی افواج 1945 میں چین میں تھیں اور مینچوریا پر قابض تھیں۔ اب عسکری خطرات ختم ہو چکے ہیں لیکن کچھ علاقوں میں ایک دوسرے سے طاقت کی رسہ کشی رہتی ہے۔ قازقستان اس کی مثال ہے۔
کمیونزم کی شکست کے بعد اثر کی جنگ اب نظریات کی نہیں۔ روس خود کو کسی بڑی آئیڈولوجی کا سربراہ نہیں سمجھتا۔ اس لئے چین اور روس کا تعاون اب ممکن ہے۔ مئی 2015 میں دونوں افواج نے بحیرہ روم میں مشترکہ جنگی مشقیٓں کیں، جو عجیب لگے کیونکہ یہ چین سے نو ہزار میل دور ہے لیکن ان کا مشترک حریف ناٹو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں روس کو کئی چیلنج درپیش ہیں۔ ان میں سے ایک آبادی کا ہے۔ ایک وقت میں یہ تیزی سے گر رہی تھی جس کو روکا گیا ہے لیکن مسئلہ ابھی موجود ہے۔ اوسط عمر 65 سال ہے جو کہ عالمی رینکنگ میں اچھی نہیں۔
مسکووی کی ریاست سے لے کر پیٹر اعظم، سٹالن اور پیوٹن تک ۔۔۔ ہر روسی لیڈر کے سامنے ویسے ہی مسائل ہیں۔ نظریہ جو بھی ہو، زار، کمیونسٹ، کیپٹلسٹ ۔۔۔ اس کی بندرگاہیں ابھی بھی منجمد ہو جاتی ہیں اور شمالی یورپی میدان چپٹے ہی رہتے ہیں۔
ملکی سرحدیں ایک طرف رکھ دی جائیں تو آئیون خوفناک سے پیوٹن تک جغرافیہ اور نقشہ بالکل ایک ہی ہے۔ اور اس کی پالیسی اسی جغرافیہ کا نتیجہ رہی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply