وش کنیّا، جیب کا بچھو ،سَر کی جو ئیں /سلیم زمان خان

ارتھ شاستر چانکیہ کوٹلیہ کی آج سے کم و بیش ڈھائی ہزار سال قبل کی تصنیف ہے۔ جس میں وہ ایسی نوجوان لڑکیوں کا ذکر کرتا ہے جنہیں بچپن سے زہر پلا کر بڑا کیا جاتا،اور پھر انہیں ان مضبوط لوگوں امیر زادوں ،بادشاہوں یا جرنیلوں کی طرف عیاشی کے لئے بھیجا جاتا جو ان خواتین کی قربت میں زہر کے اَثر سے مر جاتے۔۔ انہیں وش کنہیا، یا زہریلی لڑکی کہا جاتا ۔ معلوم تاریخ میں ہندوستان میں یہ پہلی قاتل حسینائیں تھیں جو قتل کے لئے اپنے جسم کا استعمال کرتیں۔اور شاید پہلی کرائے کی قاتل خواتیں بھی ہیں۔ اس کے بعد خواتین کے زہر سے مرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور نہ ہی اس زہر کا تریاق سیکھا گیا ہے۔۔ بس مرد جانتے بھی ہیں کہ یہ زہر ہے تب بھی اسی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔۔ اور یہ سوچتے ہوئے جاں دیے جا رہے ہیں کہ یہ زہر بھی کتنا حسیں ہے۔۔
کہا جاتا ہے ، حضرت حسین بن منصور حلاج ایک مشہور مسلمان صوفی بزرگ ( آپ رحمتہ اللہ علیہ کو حلاج اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ روئی کے ذخیرے پر سے گزرے اور عجیب انداز میں کچھ اشارہ کیا جس کی وجہ سے وہ روئی خودبخود دھنک گئی۔)نے اپنی جیب میں ایک کالا بچھو پال کر رکھا کرتے تھے۔۔ اور کوئی 12 سال یہ شغل فرمایا۔۔ لوگ آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے تو وہ بچھو آپ کی گردن ،جسم یا کپڑوں پر پھرتا رہتا۔۔ لوگ گھبرا جاتے مگر منصور حلاج اس سے کبھی پریشان نہ ہوئے نہ ہی ڈنگ کا گلہ کیا ،کیونکہ بچھو کی تو فطرت میں ڈسنا ہے۔ وہ خوش ہو یا ناراض دوست ہو یا دشمن اظہار محبت ہو یا جنگ وہ ہر بات کا اظہار ڈس کر کرتا ہے۔ تو بابا جی کو بھی خوشی میں محبت میں یا کبھی کبھی ناراضگی میں اپنی فطرت دکھاتا ہو گا۔ لیکن بابا جی منصور حلاج نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہر حالت میں بچھو پالنا ہے ۔ تو بس پالنا ہے۔۔ پھر بابا جی نے اس کے ڈنگ سے دوستی کر لی ہو گی۔۔ ایک بات حضرت حسین بن منصور حلاج کے بارے میں اور بھی مشہور ہے کہ باباجی جب بھی غسل فرماتے کم و بیش ایک چھٹانک جووئیں آپ کے بدن سے گرتیں۔۔ ( واللہ اعلم بالصواب ) ۔۔۔جووئیں تو انسانی خون پر پلتی ہیں۔۔ بابا جی کے لئے آسان بات تھی کہ سر منڈھا لیتے ۔۔ جووئیں نہ چڑھتی۔۔ لیکن شاید بابا جی جووئیں اپنے خون کے عیوض پالتے۔۔ انہیں اپنا خون پلاتے پالتے پوستے۔۔
مجھ ناچیز کے نزدیک یہ تینوں واقعات زندگی گزارنے کی تین بڑی نصیحتیں ہیں۔۔
1۔۔ عورت ہو یا مرد زہریلا تبھی ہوتا ہے جب یہ زہر اسے بچپن سے پلایا جائے۔۔ چاہے زبان کا زہر ہو، نفس کا زہر ، منافقت کا زہر ، اور یہ زہر اسے گھول کر اس کے پالنے والے اپنے رویوں سے پلاتے رہتے ہیں حتکہ وہ اپنے زہر سے قتل کرنے ( رشتے، احساسات، معاشرتی رویوں ) کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔۔ اور مدمقابل ،ساس، بہو ،داماد یا میاں و بیوی اس زہریلے رشتے کے ساتھ رہتے رہتے مرجانا یا مار دینا پسند کرتے ہیں مگر تریاق نہیں کرتے۔۔اور اسی طرح ان زہریلیے رشتوں کے بطن سے ہم اگلی نسل کے لئے زہریلے مرد و عورت پیدا کرتے جاتے ہیں۔۔
2۔ بابا جی منصور حلاج اگر واقعی بچھو پالے رکھے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو سمجھانا چاہتے تھے۔ کہ جب کسی بھی رشتے کو نبھانا ہو تو اس کے زہر کی پرواہ نہیں کی جاتی تبھی وہ نبھایا جا سکتا ہے۔۔ اگر ہر بار اس کے ڈنگ پر واویلا مچایا جائے تو پھر لوگ اس رشتے کو مار دیں گے یا آپ اسے پال نہیں سکیں گے۔۔ لہذا ساس ہو یا بہو میاں ہو یا بیوی، سسرال ہو یا میکہ جب کبھی رشتہ نبھانا ہو تو پھر ڈنگ کو بطور تریاق سمجھنا ہو گا۔۔ جس طرح آج بھی بچھو کا زہر دنیا کا سب سے قیمتی نشہ ہے۔ اگر آپ نے اپنے مد مقابل کو قبول کیا ہے تو اس ڈنگ کے نشے کا مزہ لیں۔۔ زندگی خوبصورت ہو جائے گی۔۔
3۔ بابا جی جو جووئیں پالتے تھے۔۔ وہ ماری بھی جا سکتی ہیں اور نکالی بھی جا سکتی ہیں۔۔ بابا جی نے شاید اپنے چاہنے والوں کو یہ سمجھایا ہے کہ۔۔ آپ کی زندگی میں بہت سے طفیلی parasitic (وہ جس کا دار و مدار دوسرے پر ہو، وہ جس کا تکیہ کسی دوسرے پر ہو،وہ جاندار مخلوق (کیڑا، پودا وغیرہ) جو دوسرے کی وجہ سے زندہ ہو، جس کا وجود دوسرے پر منحصر ہو) لوگ آتے ہیں۔۔ جو آپ کو استعمال کرتے ہیں۔۔ آپ سے فوائد لیتے ہیں سیکھتے ہیں،جیتے ہیں پھر کسی اور کے بدن سے ،مال سے ،خواہشات سے لگ کر جینا شروع کر دیتے ہیں۔ بابا جی بتاتے ہیں ان طفیلیوں کا رزق خدا نے آپ کے مال،محبت، عزت میں رکھا ہوتا ہے۔۔ انہیں بے لوث پالیں ،یہ دوست ہو سکتے ہیں  رشتے دار ہو سکتے ہیں ، ساتھ کام کرنے والے ہو سکتے ہیں۔۔ باس ہو سکتے ہیں ملازم ہو سکتے ہیں۔۔ ۔۔ یہ آپ کا گند چوستے ہیں۔۔ انہیں پالیں اور پھر خدا واسطے ان کے جانے کا انتظار کریں۔۔ جب یہ آپ سے جھڑ جائیں تو خدا کا شکر کریں کہ آپ کو خدا نے طفیلی کیڑوں کے بعد غسل کا موقع عطا کیا ہے۔۔ ایسے کیڑے اگر آپ نے پال ہی لئے ہیں تو دنیا کو کھجلی نہ دکھائیں۔۔ بس صبر سے ان سے دامن چھڑائیں ۔۔اور اپنے وقت کو صدقہ جانیں۔۔
ہر زہر کا تریاق ڈھونڈھیں۔۔ زہر اثر نہیں کریں گے۔۔ خاص طور پر ان زہروں کا پینے کی عادت ڈالیں جن رشتوں کے ساتھ آپ نے رہنے اور نبھانے کے عہد کئے ہیں۔۔ نا جانے کتنے لوگ آپ کے اور میرے زہر کو ہنس کر روز پیتے ہوں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply