طالبان کو بدلنا ہوگا۔۔واجد محمود خٹک

طالبان جنگجو ۲۰ سال کی گوریلا جنگ لڑنے کے بعد ایک مرتبہ پھر افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں۔ تاہم اس بار ان کو پورے کا پورا ملک پلیٹ میں مفت پیش کیا گیا۔ لیکن ان کا راستہ پہلے سے کہیں زیادہ کھٹن ہے۔ آگے آنے والے حالات ان کے لئے بالکل موافق نہیں ،تاوقیکہ وہ اپنے آپ کو جدید اور مہذب دنیا  کے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں۔

۹۰ کی دہائی میں حالات بالکل مختلف تھے۔ مسلسل جنگ اور بدامنی کی وجہ سے لوگوں کا جینا دوبھر ہو گیا تھا۔ بھوک و افلاس عروج پر تھی۔ مختلف قبائل کے مقامی جنگجو قیادت ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار تھی۔ کوئی حکومتی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ ایسے میں لوگوں کی خواہش اور امید صرف ایک ہی تھی “امن کا قیام”۔ طالبان نے حالات کا فائدہ اٹھایا، زیادہ منظم گروہ بنایا، کنٹرول حاصل کیا اور بندوق کے زور پہ امن قائم کیا۔ اگرچہ افغانوں کی ایک واضح اکثریت نے طالبان حکومت کو قبول نہیں کیا تھا ، لیکن تب احتجاج ، مخالفت یا مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ عام عوام بدامنی سے تنگ تھے۔ ان کا امن سے سروکار تھانظام حکومت ان کے لئے بعد کی بات تھی۔

طالبان نے جب حکومت سنبھالی تو ان کے لئے مشکلات ہی مشکلات تھیں۔کوئی حکومتی ڈھانچہ نہیں تھا، کوئی ریاستی مشینری نہیں تھی۔ کوئی قابل قدر لیڈر شپ جس کو حکومتی کاروبار چلانے کا ہنر آتا ہو ،ان کی صفوں میں نہیں تھا۔ اگرچہ ہمارے بہت سے دوست و احباب ملُا عمر کے دورِ حکومت کو مثالی قرار دیتے ہیں لیکن دور کے ڈھول سہانے کے مصداق ان کا کوئی بھی قابلِ  قدر کارنامہ گنوا نہیں سکتے۔ اگر ان کا کوئی کارنامہ تھا تو وہ صرف اپنے زیرِ  کنٹرول علاقوں میں گولی اور لاٹھی کے زور پر امن کا قیام تھا، جو مستقل قائم نہ رہ سکا۔

قصہ المختصر! تب طالبان کو عام عوام کی طرف سے مزاحمت کبھی بھی پیش نہیں آئی تھی۔ ان کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ دلوں کو فتح کرتے، بنیادی انسانی اور شخصی آزادی کے قوانین کا نفاذ کرتے اور اپنے لئے دنیا میں ایک قابلِ قبول حیثیت منوا لیتے، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔

اب کے حالات بدل گئے ہیں۔ طالبان کو ایک بنی بنائی ریاستی مشینری ہاتھ لگی ہے۔ اور حکومتی ڈھانچہ بھی میسر ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ اس مرتبہ عوام کی ایک بڑی اکثریت آسانی سے ان کو قبول نہیں کر رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بہت سادہ سی ہے۔ افغانستان کی آبادی کا تقریباً  ۶۵ فیصد حصہ ۲۵ سال تک کےایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ایک ایسے وقت میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا جب ان کے سامنے ایک جدید، پُرامن اور جمہوری افغانستان کا خواب دیکھا گیا تھا۔ ان کا ایمان بن گیا تھا کہ افغانستان ایک ایسا ملک بنے گا کہ جس میں ہر کسی کو شخصی آزادی حاصل ہوگی۔ ان کا سفر افغان معاشرے کو صدیوں پرانے دود و دستور اور روایات کو تبدیل کرنے کے خواب سے شروع ہو گیا تھا۔ملک بھر میں ان کے لئے سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں آ رہا تھا۔ وہ جدید اور مہذب دنیا کے باسیوں سے رابطوں میں تھے۔انہوں نے مہذب دنیا  کے نظام ہائے حکومت سمجھ ليے  تھے۔ اور وہ ان سب بنیادوں پر ایک روشن مستقبل کے خواب اپنی آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے کہ طالبان نے پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔

ان نوجوانوں کے پاس اب تین راستے ہیں۔ یا تو اپنے ملک سے چلے جائیں اور اپنے حسین خوابوں کی تکمیل کسی دوسرے ملک میں پوری کریں۔ یا طلبان کے خلاف مزاحمت شروع کریں تاوقتیکہ ان کو اپنی  شرائط پر زندگی گزارنے کی اجازت مل جائے۔اور یا پھر اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور اپنے خوابوں کو چکنا چور اور بکھرتا ہوا دیکھتے رہیں۔

یہ تینوں صورتیں طالبان کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہونگی۔

پہلی صورت میں ملک کا وہ اعلیٰ دماغ جو نظام حکومت چلانے کے لئے ضروری ہے ملک سے باہر چلا جائے گا۔ روشن مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جانے والوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلا اور تعلیمی ماہرین شامل ہونگے۔ یا یوں سمجھیں کہ ہر شعبہ  زندگی سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ دماغ ہونگے۔ ایسی صورت حال میں موجودہ ریاستی ڈھانچے میں ان لوگوں کا متبادل تیار کرنے میں کم از کم دو دہائیاں درکار ہوں گی۔ کیا طالبان جنگجوؤں کی اپنی صلاحیت ہے کہ وہ اس خلا کو پُر کر سکیں؟

دوسری صورت میں اگر یہی نوجوان نسل مزاحمت شروع کرتی ہے تو نتیجتاً طالبان سے ٹکراؤ  ہی ہو گا، جس سے ایک سول وار کی سی کیفیت شروع ہو جائے گی۔ اس صورت میں بھی ذمہ داری طالبان پر ہی عائد ہوگی۔ اگر طالبان عوام کی بنیادی حقوق اور شخصی آزادی کا احترام نہیں کریں گے تو “مہذب دنیا ” ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھے گی۔تاہم اس میں جو ایک اور بنیادی مسئلہ طالبان جنگجوؤں کے آپس میں اٹھنے کا احتمال ہے وہ ان سب کو “مہذب دنیا ” کے تصورات سمجھانا  ہے۔ طالبان جنگجوؤں کی تربیت ایک خاص دائرہ کار میں رہ کے ہوئی ہے۔ ان کے نزدیک شخصی آزادی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور اس صورت میں تو بالکل بھی نہیں جب کوئی ان کی مخالفت کرے۔ پس ایسے کسی بھی پالیسی کو نافذ کرنے سے طالبان کے آپس میں اختلافات کھل کے سامنے آسکتے ہیں۔

تیسری صورت میں اگر یہ لوگ ملک میں رہ جاتے ہیں اور طالبان اپنی فکری اور عملی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے، تب ایک خوف کی فضا برقرار رہے گی۔ خوف اور زبردستی میں کوئی بھی شخص اپنی صلاحیتوں سے مکمل استفادہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے بحیثیت مجموعی افغان عوام کو اور ریاست کو ان لوگوں کی صلاحیتوں سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ طالبان اگر تبدیل نہیں ہوتے، اپنے آپ کو موجودہ ریاستی اور حکومتی ڈھانچے میں سما نہیں دیتے، لوگوں کو رعایا بنانے کے بجائے برابر کا شہری نہیں مانتے، پہلی فرصت میں جمہوری روایات اور اقدار کو اپناتے ہوئے ایک ہمہ گیر حکومت قائم نہیں کرتے، بنیادی انسانی اور شخصی آزادی کا تحفظ یقینی نہیں بناتے تو ان کی بندوق کے  زور پر قائم کی گئی حکومت چند دنوں کی مہمان ثابت ہوگی۔ افغان عوام پر جنگ کے بادل ایک مرتبہ پھر منڈلا رہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply