زونگ کا معذور افراد سے نرالا ڈھونگ/ثاقب لقمان قریشی

مجھے معذور افراد کے مسائل پر لکھتے ہوئے سات سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ 2019ء سے باقاعدہ بلاگز اور کالمز لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ تین سال قبل میں تھوڑا بہت چل لیتا تھا۔ لیکن اب مکمل ویل چیئر پر ہوں۔ ویل چیئر پر بیٹھے شخص کیلئے ہر قدم پر مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ جن کا اظہار  میں اکثر کرتا رہتا ہوں۔ویل چیئر پر بیٹھے لوگوں کے بیشتر مسائل یکساں ہوتے ہیں اس لیے میں اپنے ساتھ پیش آئے ہر واقعہ کو قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری تحریر شائع ہوتے ہی مختلف شہروں سے معذور افراد کی کالز اور پیغامات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو دل کو تسلی ملتی ہے کہ میں درست سمت میں جا رہا ہوں۔

میں بیس سال سے زائد عرصے سے نوکری کر رہا ہوں۔ دفتر کے ٹائم کو میں امانت سمجھ کر استعمال کرتا ہوں۔ دن میں کسی نئی کمپنی سے ایک آدھ میٹنگ ضرور ہوتی ہے۔ لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ کام کی بات کرکے میٹنگ ختم کی جائے۔ کام کے جنون کا یہ عالم ہے کہ دو دہائی کے کسی بھی سال میں شاید ہی میرے سے کم کسی نے چھٹیاں لی ہوں۔ مجھے کبھی محنت کا صلہ نہیں ملا۔ اسکے باوجود میں نے اپنے اصولوں پر سودا نہیں کیا۔

چند روز قبل بیگم صاحبہ کی زونگ کی سِم اچانک بند ہوگئی۔گھر کا یہ نمبر ہمارے لیے اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ اسی نمبر پر بیلنس اور انٹرنیٹ کا  پیکج ہوتا ہے۔ میرا دفتر آنا جانا بھی اسی نمبر سے مینج ہوتا ہے۔ موبائل شاپ پر دکھایا تو بتایا گیا کہ سم خراب ہے۔ دوسری سم نکلوانی ہوگی۔ سم میرے نام ہے میرے بائیو میٹرک کے بغیر نہیں نکلنی تھی۔ بچے ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں ویل چیئر گھسیٹتے ہوئے مارکیٹ پہنچے ،تو سِم  فروخت کرنے والا کہنے لگا کہ آپ کا موبائل پی-ٹی-اے اپرووڈ ہے، دوسرا یہ کہ موبائل کسی دوسرے کو بھی چیک کروا لیں۔پھر موبائل دوسری دکان پر دکھایا تو اس نے بھی یہی کہا کہ موبائل ٹھیک ہے۔ سم تبدیل ہوگی۔ میں ویل چیئر پر دوبارہ موبائل شاپ گیا تو کہنے لگا کہ آپکا نمبر اسپیشل ہے اسکی سم ہیڈ آفس سے نکلے گی۔اگلے دن زونگ کی ہیلپ لائن پر کال کرکے مسئلہ بیان کیا۔ میں نے کہا گھر دفتر کہیں بھی آکر میرا بائیو میٹرک لے لو۔ آگے سے جواب ملا کہ ہم آپ کی مجبوری سمجھ سکتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی سروس نہیں جس سے ہم آپکی مدد کرسکیں۔

میں نے سوچا کہ دفتر سے جلدی چھٹی لے کر صدر چلا جاؤنگا۔ اب سارا دن یہی سوچتا رہا کہ دفتر میں کتنی سیڑھاں ہونگیں۔ اگر مجھے بائیو میٹرک کیلئے دفتر میں بلایا تو کیسے جاؤنگا وغیرہ وغیرہ۔ شام ہوئی ساڑھے چار بجے رائیڈ لی اور صدر چلا گیا۔ بنک روڈ دو جگہ زونگ کا عملہ سمیں بیچ رہا تھا۔ ریکارڈنگ چل رہی تھی کہ مفت سم کے ساتھ ساٹھ جی-بی ڈیٹا بھی استعمال کریں۔ میں نے اسے کہا کہ میری سم خراب ہے۔ مجھے سم نکال دو تو وہ بولا کہ آگے ہیڈ آفس ہے چلے جاؤ۔

ہیڈ آفس پہنچے تو میں نے ٹیکسی والے کو لفافہ دیا جس میں سم اور میرا شناختی کارڈ تھا۔ اس نے اندر جاکر ایک آفیسر سے کہا کہ باہر گاڑی میں ایک معذور شخص بیٹھا ہے۔ اسکا بائیو میٹرک کرکے دوسری سم نکال دو۔ آفیسر صاحب بولا رش نہیں دیکھ رہے۔ ٹیکسی والے نے مجھے کہا آج کی تاریخ میں سم نکلوانا ناممکن ہے۔ خیر میں نے اسے چائے پلائی۔ چائے پینے کے بعد وہ کہنے لگا کہ میں ایک چکر اور لگا کر آتا ہوں۔ ایک منٹ بعد ہی وہ برانچ مینجر کے ساتھ باہر آگیا۔ مینجر بڑی گرم جوشی سے ملا بائیو میٹرک لی اور چلا گیا۔ پندرہ منٹ بعد سم لے کر آیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا کہ ہم ہر وقت آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہیں۔

واپسی پر ٹیکسی والا کہنے لگا کہ سر آپ کو پتہ ہے یہ مینجر آپ سے کیوں گرم جوشی سے مل رہا تھا؟ آپ کا کام آج کی تاریخ میں کیسے ہوگیا میں نے کہا نہیں؟ کہنے لگا میں نے مینجر کے کان میں کہا کہ “باہر گاڑی میں صحافی بیٹھا ہے”۔ چل نہیں سکتا۔ بس اتنا کہنا تھا کہ وہ اٹھ کے باہر آگیا۔
یہاں میرے ذہن میں چند سوالات گردش کرنے لگے
اگر ٹیکسی والا یہ نہ کہتا کہ باہر صحافی بیٹھا ہے تو میرا کام نہیں ہوتا۔
میں بارہ سو سے پندرہ سو روپے روزانہ ٹیکسی کا کرایہ دیتا ہوں۔ اگر میری جگہ کوئی “غریب” معذور ہوتا تو کیا کرتا؟
معذور خواتین ملک کی آبادی کا آٹھ سے دس فیصد حصّہ ہیں،میری جگہ کوئی معذور لڑکی ہوتی تو وہ یہ کام کیسے کرتی؟

اس تحریر کے توسط سے میں انفارمیشن منسٹری اور چیئرمین پی-ٹی-اے سے گزارش کرنا چاہونگا کہ
موبائل فون کمپنیوں کو ہدایت جاری کی جائیں کہ معذور افراد کیلئے نئی سم سے لے کر دیگر تمام مسائل گھروں میں جاکر حل کیے جائیں۔
کرونا وباء سے لے کر اب تک موبائل فون کمپنیوں کا بڑا عملہ گھر میں بیٹھ کر کام کر رہا ہے۔ کمپنیاں گھروں میں کرنے والی تمام جابز پر معذور افراد کو ملازمت دیں۔

تین سال قبل میں نے میڈم محمدی کا انٹرویو کیا تھا۔ میڈم کا بیٹا حبیب پندرہ سال کی عمر میں مسکولر ڈسٹرافی کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ میڈم کا ادارہ حبیب ایم ڈی ہوپ ٹرسٹ شدید معذوری کے شکار بچوں کو مفت آن-لائن تعلیم دے رہا ہے۔ اس قسم کے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کیلئے مفت انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کیلئے کمپنیوں سے بات کی جائے۔
معذور افراد کو آن لائن ہنر سکھانے والے اور سیکھنے والے معذوروں کیلئے مفت یا ریائتی پیکج دیئے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کمپنیوں کو ہدایت جاری کرے کہ کسٹمر کیئر، مارکیٹنگ، سیلز اور اس قسم کے بہت سے کام جو گھروں میں ہوسکتے ہیں کیلئے معذور افراد کو ترجیح دی جائے۔
حکومت اس قسم کے بہت سے کام موبائل اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے لے کر معذور افراد کیلئے آسانیاں فراہم کرسکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply