اگر آپ نے ابھی ابھی اپنی قانونی تعلیم مکمل کر لی ہے اور آپ بار سے منسلک ہونے جا رہے ہیں تو پھر شاید آپ کے ذہن میں مستقبل میں آپ کے کام سے متعلق کچھ ابہام موجود ہوں۔ اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ جذبہ ایثار کیا ہے تو پھر میں قیاس کرتا ہوں کہ آپ ایک عالی ظرف انسان ہیں۔ شاید آپ اپنی زندگی کو ایک جہدِ مسلسل کے ذریعے دنیا میں موجود تمام تر ناانصافیوں کو ختم کرنے کےلیے وقف کرنے کا سوچ رہے ہوں! اپنی حاصل کردہ تمام تر علم اور قابلیت کو قانون کی بالاتری اور عوامی اظہار کے عظیم انصاف کے لیے وقف کر دیں۔ کیا ایسا سوچنے والا ہر شخص عظیم ہوگا؟ آپ اپنے منتخب کردہ پیشے کے تحت بڑی پُراعتمادی سے اپنا حقیقی کام شروع کرتے ہیں۔
بہت ہی اچھا؛ چلیں کوئی سی قانونی رپورٹ اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں آپ کن چیزوں کا سامنا کرنے والے ہیں۔
یہاں ہم ایک بہت بڑے جاگیردار کی کہانی دیکھتے ہیں جو اپنے کھیت کے مزدور سے مکان چھڑوانا چاہتا ہے کیوں کہ اس نے مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے۔ قانونی طور پر تو اس میں کوئی قباحت نہیں کہ اگر کسان نے کرایہ ادا نہیں کیا ہے تو اسے مکان خالی کر دینا چاہیے۔ لیکن اگر ہم معاملےکی گہرائی میں جائیں گے تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ کسان نے تو روزانہ تسلسل کے ساتھ محنت اور مشقت سے کام کیا ہے، مگر جاگیردار نے (بدلے میں) اس کے سماجی رتبے کی بلندی کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ تاہم ان پچاس سالوں میں ریلوے لائن کے بچھائے جانے، سڑکوں کی تعمیر و کشادگی اور دیگر وسیع زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کے باعث زمین کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جس نے اس اضافے میں نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے، وہ تو اپنے آپ کو پوری طرح تباہ و برباد کر چکا ہے۔ وہ سود خوروں کے ہتھے چڑھ کر قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اب وہ جاگیردار کو کرایہ کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں رہا ہے۔
قانون جو کہ ہمیشہ ملکیت کا طرف دار ہوتا ہے، اس کی نظر میں واضح طور پر جاگیردار حق پر ہے۔ لیکن آپ، جس کے انصاف کے جذبات قانونی تشریح سے مطمئن نہیں ہو پا رہے، تب آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ بھی یہی کہیں گے کہ کسان کو مکان سے بے دخل کر کے سڑک پر لایا جانا چاہیے؟ جیسا کہ قانوں کہتا ہے، یا پھر آپ اس بات پر زور دیں گے کہ زمین کی قیمت میں کسان کی محنت و مشقت کی بدولت جتنا اضافہ ہوا ہے، اس سے کسان کو اس کا حصہ ملنا چاہیے؟ آپ کس طرف ہوں گے؟ آپ قانون چھوڑ کر انصاف کی طرف داری کریں گے یا پھر انصاف کو جھٹلا کر قانون کی حمایت کریں گے۔
اور اگر مزدور بغیر اطلاع کے مالک کے خلاف ہڑتال کرتے ہیں تو پھر تب آپ کس کا ساتھ دیں گے؟ قانون کا ساتھ دیں گے جو مالک کا حامی و طرف دار ہے جس نے بحرانوں کا فائدہ اٹھا کر بے تحاشا منافع سمیٹا ہے؟ یا پھر قانون کے خلاف جا کر محنت کشوں کے حق میں ہون گے جن سے محض چند روپیوں کے لیے کام لیا جاتا رہا ہے اور جنھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیوی بچوں کو بھوک سے نڈھال ہوتے، کمزور پڑتے اور مرتے دیکھا ہے۔ کیا آپ اس فریب پر مبنی نام و نہاد ”معاہدے کی آزادی“ کا پرچار کرنے والے کاغذ کے ٹکڑے کے ساتھ رہیں گے جس کے مطابق ایک روزی روٹی کے محتاج شخص اور ایک پیٹ بھرے عیاش آدمی کے درمیان معاہدہ طے پاتا ہے کہ اول الذکر دوسرے کو بہ امر مجبوری اپنی محنت بیچتا ہے، یا پھر آپ عدل و انصاف کو چنیں گے۔ کیا ایک کمزور اور طاقتور کے بیچ کوئی معاہدہ بھی ہوتا ہے؟
چلیں ایک اور مثال لیتے ہیں؛ یہاں لندن میں ایک آدمی کسی قصاب کی دکان کے قریب بے چینی کے عالم میں گشت کر رہا تھا، اس نے قصاب کے دکان سے ایک گوشت کا ٹکڑا اٹھایا اور بھاگ گیا۔ پکڑے جانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ایک دستکار ہے اور کام نہ ملنے کی وجہ سے اس کا خاندان چار دنوں سے بھوکا ہے۔ قصاب کو اس آدمی کو چھوڑنے کو کہا جاتا ہے، وہ مقدمہ قائم کرکے انصاف کا متمنی ہوتا ہے، دستکار کو چھ مہینے جیل کی سزا سنائی جاتی ہے کیونکہ قانون اور انصاف کی اندھی دیوی یہی چاہتی ہے۔ کیا روزانہ کی بنیاد پر ایسے (غیر منصفانہ) فیصلوں کو سن کر آپ کا ضمیر سماج اور قانون سے بغاوت کی طرف راغب نہیں ہوتا؟
یا پھر آپ ایک ایسے شخص کے خلاف قانون پر عملدرآمدی کا مطالبہ کریں گے جسے بچپن سے لےکر ادھیڑ عمری تک ہمدردی کا کوئی لفظ سنائے بغیر ہمیشہ توہین، بدسلوکی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور وہ انسان اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے پڑوسی کا قتل کر کے کرتا ہے تاکہ وہ پڑوسی کے گھر سے چند روپے لوٹ سکے؟ کیا آپ اس کے لیے سزائے موت یا پھر 20 سالہ جیل کا مطالبہ کریں گے؟ جب کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ مجرم کی بجائے مافوق العقل اور پاگل انسان ہے، اور پھر دوسری صورت میں اس کا جرم تمام تر معاشرے کی اجتماعی خامی ہے؟
کیا آپ ایک مل کو مایوسی کے عالم میں آگ لگانے والے جولاہوں کے لیے قید و حوالات کا مطالبہ کریں گے؟ کیا ایک پیشہ ور سفاک قاتل کو ہلاک کرنے والے شخص عمر قید کی سزا ملنی چاہیے؟ کیا ایک بہتر مستقبل کے لیے جھنڈا اٹھانے اور مورچہ زن ہونے والے باغیوں کو قتل کر دینا چاہیے؟ نہیں، ہزارہا بار نہیں۔
اگر آپ ان چیزوں کو جو آپ کو پڑھائی گئی ہیں، دہرانے کی بجائے عقل اور دلیل کا استعمال کریں گے، اگر آپ قانون کا تجزیہ کریں گے اور ان ابر آلود افسانوں کو اس سے ہٹا دیں گے جن کے ذریعے قانون کی اصل حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے، قانون، جو کہ صرف طاقتور کا حمایتی ہے، جو ہمیشہ سے اپنی طویل اور خونخوار تاریخ میں مقدس جبر رہا ہے۔ جب آپ اس بات کو جانچ لیں گے تب قانون کے لیے آپ کی حقارت مزید شدت اختیار کرے گی۔ آپ سجھ جائیں گے کہ لکھے ہوئے قانون کا غلام و طابع بن کر آپ خود کو روزانہ کی بنیاد پر ضمیر کے قانون کے خلاف اکسا رہے ہیں اور گمراہ کن راہ اختیار کر رہے ہیں۔ اور جب تک جدوجہد جاری نہ رہے، پھر یا تو آپ اپنے ضمیر کو مار کر بدمعاش اور بےضمیر بن جائیں گے یا پھر آپ روایت شکنی کر کے ہمار ساتھ جڑ جائیں گے تاکہ ان تمام سیاسی، سماجی اور معاشی ناانصافیوں کو مکمل تباہ و برباد کر کے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔
لیکن پھر تو آپ ایک سوشلسٹ اور ایک انقلابی بن جائیں گے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں